Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئی اپنی اس قوت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اس نے کہا مَنْ اَ شَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے (حٰم سجدہ۔ 15)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] قوم عاد کا قد و قامت اور ڈیل ڈول :۔ بعض روایات کے مطابق عاد کے لوگوں کے قد اوسطاً بارہ ہاتھ تھے اتنی ڈیل ڈول رکھنے والے انسانوں کی قوت اور طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے پھر انہیں رزق کی فراوانی بھی حاصل تھی۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) نے اللہ کے احسان جتلا کر انہیں بتلایا کہ دیکھو نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بت پرستی نہ چھوڑی تو ان کا جو حشر ہوا وہ تمہارے سامنے ہے لہذا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اسی کی عبادت کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ۔۔ : یعنی تمہیں قوی اور زبردست بنایا اور قوم نوح کے بعد ایک زبردست قوم کی حیثیت سے تمہیں زمین میں آباد کیا۔ یہاں ” خُلَفَاۗءَ “ سے یہی معنی مراد ہے، یہ مطلب نہیں کہ قوم نوح کے وطن عراق میں ان کا جانشین بنایا۔ (قرطبی) قوم عاد کے قد و قامت میں پھیلاؤ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود شہادت دی ہے، فرمایا : (الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَاد) [ الفجر : ٨ ] یعنی ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا اور یہ کہ عذاب کے بعد وہ یوں گرے ہوئے تھے جیسے کھجوروں کے گرے ہوئے تنے۔ دیکھیے سورة الحاقہ (٧) ۔- بعض علمائے تفسیر نے قوم عاد کی جسمانی قوت اور ان کے قدو قامت کی لمبائی کے بارے میں عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں، مثلاً یہ کہ قوم عاد کا لمبا آدمی سو ہاتھ کا اور سب سے چھوٹے قد کا ساٹھ ہاتھ کا ہوتا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ اس کا ایک آدمی اتنے بڑے پتھر کو اٹھا لیتا تھا جسے ہمارے زمانے کے پانچ سو آدمی بھی نہیں اٹھا سکتے وغیرہ۔ مگر ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی صورت پر پیدا فرمایا کہ اس کا طول ساٹھ ہاتھ تھا۔۔ پھر اس کے بعد سے اب تک یہ مخلوق گھٹتی رہی ہے۔ “ [ بخاری، الاستئذان، باب بدء السلام : ٦٢٢٧ ] اس لیے قوم عاد سے متعلق اس قسم کی کہانیوں پر اعتماد جائز نہیں۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ عاد کے لوگ غیر معمولی جسمانی قوت اور قد و قامت رکھتے تھے، اونچی اونچی عمارتیں بنانے والے اور نہایت سخت گیر تھے، جیسا کہ سورة شعراء (١٢٣ تا ١٣٤) اور حم السجدہ (١٥) میں مذکور ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں آیت میں قوم عاد کا وہی اعتراض ذکر کیا گیا ہے جو ان سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا کہ ہم کسی اپنے ہی جیسے بشر اور انسان کو کیسے اپنا بڑا اور پیشوا مان لیں کوئی فرشتہ ہوتا تو ممکن تھا کہ ہم مان لیتے۔ اس کا جواب بھی قرآن کریم نے وہی ذکر کیا جو نوح (علیہ السلام) نے دیا تھا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کوئی انسان اللہ کا نبی و رسول ہو کر لوگوں کو ڈرانے کے لئے آجائے۔ کیونکہ در حقیت انسان کے سمجھانے بجھانے کے لئے انسان ہی کا پیغمبر ہونا موثر ہوسکتا ہے۔- اس کے بعد ان کو وہ انعامات یاد دلائے جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر مبذول فرمائے ہیں ارشاد فرمایا واذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ یعنی اس بات کو یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد زمین کا مالک و متصرف بنادیا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ بھی زیادہ دیا۔ اس کی ان نعمتوں کو یاد کرو تو تمہارا بھلا ہوگا۔- مگر اس سرکش بدمست قوم نے ایک نہ سنی اور وہی جواب دیا جو عام طور پر گمراہ لوگ دیا کرتے ہیں کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم سے ہمارے باپ دادا کا مذہب چھڑا دو اور سارے دیوتاؤں کو چھوڑ کر ہم صرف ایک خدا کو ماننے لگیں۔ یہ تو ہم سے نہ ہوگا۔ آپ جس عذاب کی دھمکی ہمیں دے رہے ہیں اس عذاب کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۝ ٠ ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ٧٠- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩) کیا تم ہی کو اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے جیسا ہی ایک آدمی تمہارے پاس نبوت لے کر آیا ہے تاکہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائے، اس وقت کو یاد کرو، جب تمہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ہلاک ہونے کے بعد آباد کیا اور جسامت میں ایک خاص فضیلت بھی دی، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے اس پر ایمان لاؤ تاکہ تمہیں عذاب الہی سے نجات ملے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَ کُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ ط) (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْم بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَکُمْ فِی الْْخَلْقِ بَصْطَۃً ج) - قوم نوح کی سطوت ختم ہوئی اور قوم تباہ و برباد ہوگئی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو عروج عطا فرمایا۔ یہ بڑے قد آور اور جسیم لوگ تھے۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی طور پر بڑا عروج بخشا تھا۔ شداد اسی قوم کا بادشاہ تھا جس نے بہشت اراضی بنائی تھی۔ اب اس کی جنت اور اس شہر کے کھنڈرات کا سراغ بھی مل چکا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی صحرا میں ایک علاقہ ہے جہاں کی ریت بہت باریک ہے اور اس کے اوپر کوئی چیز ٹک نہیں سکتی۔ اس وجہ سے وہاں آمد و رفت مشکل ہے ‘ کیونکہ اس ریت پر چلنے والی ہرچیز اس کے اندر دھنس جاتی ہے۔ اس علاقے میں سیٹلائٹ کے ذریعے زیر زمین شداد کے اس شہر کا سراغ ملا ہے ‘ جس کی فصیل پر ٣٥ برج تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :52 اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی نعمتوں کے بھی ہیں اور کرشمائے قدرت کے بھی اور صفات حمیدہ کے بھی ۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں اور اس کے احسانات کو بھی یاد رکھو اور یہ بھی فراموش نہ کرو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں چھین لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38:، یہ لوگ اپنے قد وقامت میں اتنے لمبے چوڑے تھے کہ سورۃ فجر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان جیسی قوم کسی بھی ملک میں پیدا نہیں کی گئی۔