Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یہاں رَجْفَہ، ُ (زلزلے) کا ذکر ہے۔ دوسرے مقام پر صَیْحَۃ، ُ ، ُ (چیخ) کا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قسم کا عذاب ان پر آیا۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ۔ ان دونوں عذابوں نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] قوم ثمود کے کھنڈرات :۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح (علیہ السلام) کو بھی ان کے منصوبہ کی اطلاع دے دی اور ہجرت کا حکم بھی آگیا۔ تیسرے دن ان لوگوں کو پہاڑوں کی طرف سے ایک سیاہ بادل ان کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو بڑے خوش ہوئے کہ اب بارش ہونے والی ہے مگر یہ بارش برسانے والا بادل نہ تھا بلکہ ان کی جانوں پر مسلط ہوجانے والا اللہ کا عذاب تھا جس میں سیاہ غلیظ گندھک کے بخارات ملا ہوا دھواں تھا۔ ساتھ ہی کسی پہاڑ سے کوئی لاوا پھٹا جس سے شدید زلزلہ آگیا اور اس سے ہولناک چیخوں کی آواز بھی آتی رہی جس سے دل دہل جاتے اور کان پھٹے جاتے تھے اور غلیظ دھوئیں نے ان کے جسم کے اندر داخل ہو کر ان کے دلوں اور کلیجوں کو ماؤف کردیا اور انہیں سانس تک لینا بھی محال ہوگیا جس سے یہ ساری کی ساری قوم چیخ چیخ کر اور تڑپ تڑپ کر وہیں ڈھیر ہوگئی اور اس شدید زلزلے نے ان کے محلات کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکانات سوائے چند ایک سب چکنا چور ہوگئے۔ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر کے لیے حجر کے مقام پر اترے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وہ کنواں بھی دکھلایا جہاں سے اونٹنی پانی پیتی تھی اس درہ کو فج الناقۃ کہتے ہیں۔ پھر کچھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے کھنڈرات بطور سیر و تفریح دیکھنے چلے گئے تو اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسے مقامات جہاں پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہو مقام عبرت ہوتے ہیں وہاں داخل ہو تو اللہ سے ڈرتے ہوئے اور روتے ہوئے داخل ہو اور وہاں سے جلد نکل جایا کرو مبادا ایسا عذاب تم پر بھی آجائے جو ان پر آیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء باب قول اللہ ( وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا 61 ؀) 11 ۔ ھود :61)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ۔۔ : سورة ہود (٦٥، ٦٦) میں ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا ہے تو انھیں تین دن کی مہلت دی، جب یہ مہلت پوری ہوگئی تو ان پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) اور آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو بچا لیا، ان کے سوا ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ تفاسیر و احادیث میں ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص ابو رغال ان دنوں حرم میں مقیم تھا، وہ عذاب سے محفوظ رہا، لیکن جب وہ حرم چھوڑ کر طائف کی طرف روانہ ہوا تو وہ بھی ہلاک ہوگیا اور راستے میں دفن کردیا گیا۔ امیر المومنین عمر (رض) نے ذکر فرمایا کہ راستے سے گزرنے والے اس کی قبر پر سنگ باری کرتے تھے۔ [ ابن حبان : ٤٦٣ ] جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے آسمان کے نیچے ان سب کو ہلاک کردیا، صرف ایک شخص بچا جو حرم میں تھا۔ “ پوچھا گیا : ” وہ کون تھا ؟ “ تو آپ نے فرمایا : ” وہ ابو رغال تھا، لیکن جیسے ہی وہ حرم سے نکلا عذاب نے اسے بھی پکڑ لیا۔ “ [ مستدرک حاکم : ٢؍٣٢٠، ح : ٣٢٤٨۔ أحمد : ٣؍٢٩٦، ح : ١٤١٦٠ ] شعیب ارنؤوط اور اس کے ساتھیوں نے اس حدیث کو قوی کہا ہے۔ - یہاں ” الرَّجْفَةُ “ (زلزلے) کا ذکر ہے، سورة ہود (٦٧) میں ” الصَّيْحَةُ “ (چیخ) کا ذکر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر دو طرح کا عذاب آیا، اوپر سے صیحہ (چیخ) اور نیچے سے زلزلہ، یا وہ خوف ناک آواز یعنی چیخ زلزلے ہی کی تھی، جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ زلزلے کے ساتھ خوف ناک آواز بھی ہوتی ہے۔ - ” جٰثِمِيْنَ “ یہ ” جُثُوْمٌ“ سے اسم فاعل ہے، یہ انسان اور پرندوں کے لیے انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں اونٹوں کے لیے ” بُرُوْکٌ“ ہوتا ہے، یعنی سینے کے بل گرنے والے یا اپنی جگہ سے نہ ہل سکنے والے۔ یعنی وہ اپنے گھٹنوں پر منہ کے بل گرے ہوئے تھے، ان میں کوئی حرکت باقی نہ رہی۔ (طنطاوی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اور دوسری آیات میں فَاَخَذَتْهُمُ الصَیحَہ بھی آیا ہے صیحہ کے معنی ہیں چیخ اور شدید آواز۔ دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ دونوں طرح کے عذاب ان پر جمع ہوگئے تھے۔ زمین سے زلزلہ اور اوپر سے صیحہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ مصدر جثوم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بےحس و حرکت ہو کر ایک جگہ پڑجانا یا بیٹھ رہنا (قاموس) ۔ معنی یہ ہیں کہ جو جس حال میں تھا وہیں ڈھیر ہوگیا۔ نعوذ باللّٰہ۔- قوم ثمود کے اس قصہ کے اہم اجزاء تو خود قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں مذکور ہیں اور کچھ اجزاء روایات حدیث میں مذکور ہیں۔ کچھ وہ بھی ہیں جو مفسرین نے اسرائیلی روایات سے لئے ہیں مگر ان پر کسی واقعہ اور حقیقت کے ثبوت کا مدار نہیں۔ - صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا گزر اس مقام حجر پر ہوا جہاں قوم ثمود پر عذاب آیا تھا۔ تو آپ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی کہ اس عذاب زدہ بستی کی زمین میں کوئی اندر نہ جائے اور نہ اس کے کنوئیں کا پانی استعمال کرے (مظہری)- اور بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قوم ثمود پر جب عذاب آیا تو ان میں بجز ایک شخص ابورغال کے کوئی نہیں بچا۔ یہ شخص اس وقت حرم مکہ میں پہنچا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حرم مکہ کے احترام کے سبب اس وقت اس کو عذاب سے بچا لیا اور بالآخر جب یہ حرم سے نکلا تو وہی عذاب جو اس کی قوم پر آیا تھا اس پر بھی آگیا اور یہیں ہلاک ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو مکہ سے باہر ابورغال کی قبر کا نشان بھی دکھلایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ ایک سونے کی چھڑی بھی دفن ہوگئی تھی۔ صحابہ کرام نے قبر کھولی تو سونے کی چھڑی مل گئی وہ نکال لی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ طائف کے باشندے بنو ثقیف اسی ابورغال کی اولاد ہیں۔ (مظہری)- ان معذب قوموں کی بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کدے بنا کر قائم رکھا ہے اور قرآن کریم نے عرب کے لوگوں کو بار بار اس پر متنبہ کیا ہے کہ تمہارے سفر شام کے راستہ پر یہ مقامات آج بھی داستان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ (آیت) لم تسکن من بعدھم الا قلیلا،- قوم صالح (علیہ السلام) کے واقعہ عذاب کے آخر میں ارشاد ہے (آیت) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ یعنی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے مؤمنین بھی اس جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھ چار ہزار مؤمنین تھے ان سب کو لے کر یمن کے علاقہ حضرموت میں چلے گئے اور وہیں حضرت صالح (علیہ السلام) کی وفات ہوئی اور بعض روایات سے ان کا مکہ معظمہ چلے جاتا اور وہیں وفات ہونا معلوم ہوتا ہے۔ - ظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صلح (علیہ السلام) نے چلتے وقت اپنی قوم کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر افسوس تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔ - یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ جب ساری قوم عذاب سے ہلاک ہوچکی تو اب ان کو خطاب کرنے سے کیا فائدہ۔ جواب یہ ہے کہ ایک فائدہ تو یہی ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت ہو اور یہ خطاب ایسا ہی ہے جیسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر میں مرے ہوئے قریشی مشرکین کو خطاب کرکے کچھ کلمات ارشاد فرمائے تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ فرمانا نزول عذاب اور ہلاکت قوم سے پہلے ہوا ہو اگرچہ بیان میں اس کو مؤ خر ذکر کیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلّٰى عَنْہُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَۃَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ۝ ٧٩- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨) چناچہ ان لوگوں کو زلزلہ کے عذاب اور فرشتہ کی چیخ نے پکڑ اور وہ اپنے شہروں میں مردہ پائے گئے کہ ان میں کوئی حس و حرکت ہی باقی نہیں رہی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :62 اس آفت کو یہاں ”رجفہ“ ( اضطراب انگیز ، ہلا مارنے والی ) کہا گیا ہے اور دوسرے مقامات پر اسی کے لیے صَیْحَةَ ( چیخ ) ، ”صاعقہ“ ( کڑاکا ) اور ”طاغیہ“ ( سخت زور کی آواز ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani