Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

لوط علیہ السلام کی بد نصیب قوم فرمان ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر ، حضرت لوط علیہ السلام ہاران بن آزر کے بیٹے تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی ۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے ۔ عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں ۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرلے اسی لئے حضرت لوط علیہ السلام نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا ۔ عورتوں کو جو اس کام کیلئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہو گی ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں ۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں ۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 یہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بنا کر بھیجا۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے، یہ زمین سرسبز اور شاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی قرآن نے اس جگہ کو مُئْوتَفِکَۃ، ُ یا مؤْتَفِکَات، ُ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے غالبًا سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، (جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اس کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حوالے میں، جن کا ذکر ابھی گزرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے۔ ) دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بدفعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناخت و قباحت بیان فرمائی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑگیا۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی، لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردینا چاہئے۔ البتہ امام ابوحنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] سیدنالوط (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کے بھتیجے تھے اور ان پر ایمان لائے تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے جب عراق سے شام و فلسطین کی طرف ہجرت کی تو سیدنا لوط (علیہ السلام) ان کے ساتھ تھے اور بطور معاون تبلیغ رسالت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے پھر آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی اب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) تو مصر کی طرف چلے گئے اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن کی طرف بھیج دیا جس کا صدر مقام سدوم نامی شہر تھا یہی سیدنا لوط (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ تھا۔ سدوم کا آج کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اغلب گمان یہی ہے کہ یہ شہر بحیرہ مردار میں غرق ہوچکا ہے جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے۔ قوم لوط میں دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ عورتوں کی بجائے مردوں ہی سے ان کی دبر میں جنسی شہوت پوری کرتے تھے۔ اس فحاشی کی موجد بھی یہی قوم تھی اور اس فحاشی میں اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی۔ حتیٰ کہ ایسی فحاشی کا نام بھی قوم لوط کی نسبت سے لواطت پڑگیا یعنی فحاشی کی وہ قسم جس کے خلاف سیدنا لوط (علیہ السلام) نے جہاد کیا تھا۔ ممکن ہے کہ شیطان نے ان لوگوں کو اولاد کی تربیت اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے یہ راہ سجھائی ہو جیسا کہ بہت سے ادوار میں یہی بات قتل اولاد کی بھی محرک بنی رہی ہے۔- عمل قوم لوط اور تہذیب مغرب :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد دوسرے بدکردار لوگ بھی اس فحش مرض میں مبتلا رہے ہیں لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفروں نے اس گھناؤنے جرم کو ایک اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور رہی سہی کسر جدید مغربی تہذیب نے پوری کردی ہے جس نے علی الاعلان ہم جنسی ( ۔ ) کے حق میں پروپیگنڈا کیا یعنی اگر مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے لپٹ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرلیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور ملکی قانون کو ہرگز اس میں مزاحم نہ ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کی مجالس قانون ساز نے اس فعل کو جائز قرار دے دیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلُوْطًا : ابراہیم (علیہ السلام) جب آگ سے بحفاظت نکل آئے تو لوط (علیہ السلام) ان پر ایمان لے آئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود قوم کے ایمان نہ لانے پر عراق سے ہجرت اختیار فرمائی۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٢٦) ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور لوط (علیہ السلام) بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو سدوم والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ جو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا اور نہایت آباد اور زرخیز تھا۔ - اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ: اہل سدوم کو لوط (علیہ السلام) کی قوم اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ان کی طرف مبعوث تھے، ورنہ وہ تو عراق سے آئے تھے، یا شاید ان کا ان سے سسرالی رشتہ ہوگا، کیونکہ اگر وہاں ان کا کوئی نسبی رشتہ ہوتا تو وہ اس بےچارگی کا اظہار نہ فرماتے جس کا ذکر سورة ہود (٨٠) میں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو (چند بستیوں کی طرف پیغمبر بنا کر) بھیجا جب کہ انہوں نے اپنی قوم (یعنی اپنی امت) سے فرمایا کیا تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا (یعنی) تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر (اور اس کام کے ارتکاب میں یہ نہیں کہ تم کو کوئی دھوکہ ہوگیا ہو) بلکہ (اس باب میں) تم حد (انسانیت) ہی سے گزر گئے ہو اور (ان مضامین کا) ان کی قوم سے کوئی (معقول) جواب نہ بن پڑا بجز اس کے کہ (آخر میں بیہودگی کی راہ سے) آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو (یعنی لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھی مومنین کو) تم اپنی (اس) بستی سے نکال دو (کیونکہ) یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں (اور ہم کو گندہ بتاتے ہیں پھر گندوں میں پاکوں کا کیا کام، یہ بات انہوں نے براہ تمسخر کہی تھی) سو (جب یہاں تک نوبت پہنچی تو) ہم نے (اس قوم پر عذاب نازل کیا اور) لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے متعلقین کو (یعنی ان کے گھر والوں کو اور دوسرے ایمان والوں کو بھی اس عذاب سے) بچا لیا (اس طرح کہ وہاں سے نکل جانے کا پہلے ہی حکم ہوگیا) بجز ان کی بیوی کے کہ وہ (بوجہ ایمان نہ لانے کے) ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور (وہ عذاب جو ان پر نازل ہوا یہ تھا کہ) ہم نے ان پر ایک نئی طرح کا مینہ برسایا (کہ وہ پتھروں کی بارش تھی) سو (اے دیکھنے والے) دیکھ تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا (اگر تو غور سے دیکھے گا تو تعجب کرے گا اور سمجھے گا کہ نافرمانی کا کیا انجام ہوتا ہے) ۔- معارف و مسائل - انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے قصص کا جو سلسلہ اوپر سے چل رہا ہے اس کا چوتھا قصہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا ہے۔ - لوط (علیہ السلام) حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں۔ دونوں کا اصل وطن مغربی عراق میں بصرہ کے قریب ارض بابل کے نام سے معروف تھا اس میں بت پرستی کا عام رواج تھا۔ خلیل اللہ (علیہ السلام) کا گھرانہ خود بت پرستی میں مبتلا تھا۔ حق تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ قوم نے مخالفت کی جس کی نوبت آتش نمرود تک پہنچی۔ خود والد نے گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔- اپنے گھرانہ میں سے صرف زوجہ محترمہ حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) مسلمان ہوئے۔ (آیت) فامن لہ لوط، بالآخر انھیں دونوں کو ساتھ لے کر وطن سے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی۔ نہر اردن پر پہنچنے کے بعد بحکم خداوندی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) علاقہ کنعان میں جاکر مقیم ہوئے جو بیت المقدس کے قریب ہے۔- اور لوط (علیہ السلام) کو بھی حق تعالیٰ نے نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اور بالع یا صوغر تھے ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومة اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہیں قیام فرمایا۔ زمین سرسبز و شاداب تھی ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ (یہ تاریخی تفصیلات بحر محیط، مظہری، ابن کثیر، المنار وغیرہ میں مذکور ہیں) ۔ - انسان کی عام عادت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے (آیت) کلا ان الانسان لیطغی، ان راہ استغنی، یعنی انسا سرکشی کرنے لگتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں رہا۔ ان لوگوں پر بھی حق تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے تھے۔ عام انسانی عادت کے تحت دولت و ثروت کے نشہ میں مبتلا ہو کر عیش و عشرت اور ہوا و ہوس کے اس کنارے پر پہنچ گئے کہ انسانی غیرت و حیاء اور اچھے برے کی فطری تمیز بھی کھو بیٹھے۔ ایسے خلاف فطرت فواحش میں مبتلا ہوگئے جو حرام اور گناہ ہونے کے علاوہ فطرت سلیمہ کے لئے نفرت اور ایسے گھن کے کام ہیں کہ عام جانور بھی اس کے پاس نہیں جاتے۔ - حضرت لوط (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے مامور فرمایا۔ انہوں نے اپنی قوم کو خطاب کرکے فرمایا۔ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ یعنی بطور تنبیہ کے فرمایا، کیا تم ایسا فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے سارے جہان میں کسی نے نہیں کیا۔ - زنا کے بارے میں تو قرآن کریم نے انہ کان فاحشة بغیر الف لام کے ذکر کیا ہے اور یہاں الف لام کے ساتھ الفاحشہ فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ خلاف فطرت بدکاری گو یا تمام فواحش کا مجموعہ اور زنا سے زیادہ شدید جرم ہے۔ - پھر یہ فرمایا کہ یہ بدکاری تم سے پہلے سارے جہان میں کسی نے نہیں کی۔ عمرو بن دینار نے فرمایا کہ اس قوم سے پہلے دنیا میں کبھی ایسی حرکت نہ دیکھی گئی تھی (مظہری) اور نہ اہل سدوم سے پہلے کسی برے سے برے انسان کا ذہن اس طرف گیا تھا۔ اموی خلیفہ عبدالمالک نے کہا کہ اگر قرآن میں قوم لوط (علیہ السلام) کا واقعہ مذکور نہ ہوتا تو میں بھی گمان نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی انسان ایسا کام کرسکتا ہے (ابن کثیر) - اس میں ان کی بےحیائی پر دو حیثیت سے تنبیہ کی گئی اول تو یہ کہ بہت سے گناہوں میں انسان اپنے ماحول یا اپنے اسلاف کی تقلید کی وجہ سے مبتلا ہوجاتا ہے گو وہ بھی کوئی شرعی عذر نہیں۔ مگر عرفاً اس کو کسی نہ کسی درجہ میں معذور کہا جاسکتا ہے، مگر ایسا گناہ جو پہلے کسی نے نہیں کیا نہ اس کے لئے خاص مقتضیات ہیں یہ اور بھی زیادہ وبال ہے۔ دوسرے اس حیثیت سے کہ کسی برے کام یا بری رسم کو جو شخص ایجاد کرتا ہے اس پر اپنے فعل کا گناہ اور عذاب تو ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ان تمام لوگوں کا عذاب و وبال بھی اسی کی گردن پر ہوتا ہے جو قیامت تک اس کے فعل سے متاثر ہو کر مبتلا گناہ ہوجاتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝ ٠ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۝ ٨١- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠۔ ٨١) اور ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ تم لواطت کا فعل کرتے ہو، جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو بلکہ تم نے شرک میں اس قدر حد سے تجاوز کیا کہ حرام کو حلال کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ) - اگرچہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس قوم میں سے نہیں تھے ‘ لیکن ان کی طرف مبعوث ہونے اور وہاں جا کر آباد ہوجانے کی وجہ سے ان لوگوں کو آپ ( علیہ السلام) کی قوم قرار دیا گیا ہے۔- (اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ )- یعنی اجتماعی طور پر پوری قوم کا ایک شرمناک فعل کو اس انداز سے اپنالینا کہ اسے اپنا شعار بنا لینا ‘ کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنا اور اس میں شرمانے کی بجائے فخر کرنا ‘ اس سب کچھ کی مثال تاریخ انسانی کے اندر کوئی اور نہیں ملتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :63 یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن ( ) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے ۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام”سدوم“ بتایا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکا ہے ۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمال کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی ۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل ناپید ہوچکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں ۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگار باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحِر لوط کہا جاتا ہے ۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے ۔ پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے ۔ اہل سدوم کو ان کی قوم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ شاید ان کا رشتہ داری کا تعلق اس قوم سے ہوگا ۔ یہودیوں کی تحریف کردہ بائیبل میں حضرت لوط کی سیرت پر جہاں اور بہت سے سیاہ دھبے لگائے گئے ہیں وہاں ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑ کر سدوم کے علاقے میں چلے گئے تھے ( پیدائش ، باب ١۳ ۔ آیت١ ۔ ١۲ ) ۔ مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کرتا ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے انہیں رسول بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، جو اپنے مقدس چچا کی طرح عراق میں پیدا ہوئے تھے، اور جب انہوں نے وہاں سے ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السلام بھی ان کے ساتھ وطن سے نکل آئے، بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین کے علاقے میں آباد ہوئے، اور حضرت لوط علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اردن کے شہرسدوم ( ) میں پیغمبر بناکر بھیجا۔ سدوم ایک مرکزی شہر تھا، اور اس کے مضافات میں عمورہ وغیرہ کئی بستیاں آباد تھیں۔ کفر وشرک کے علاوہ ان بستیوں کی شرمناک بدعملی یہ تھی کہ وہ ہم جنسی ( ) کی لعنت میں گرفتار تھے جس کا ارتکاب قرآنِ کریم کی تصریح کے مطابق ان سے پہلے دُنیا کے کسی فرد نے نہیں کیا تھا، حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں اﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچائے، اور عذاب سے بھی ڈرایا، لیکن جب یہ لوگ اپنی خباثت سے باز نہ آئے توان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی، اور ان تمام بستیوں کو الٹ دیا گیا، آج بحر میت ( ) کے نام سے جو سمندر ہے، کہتے ہیں کہ یہ بستیاں یا تو اس میں ڈوب گئی ہیں، یا اس کے آس پاس تھیں۔ جن کا نشان واضح نہیں رہا۔ حضرت لوط علیہ السلام کا اس قوم کے ساتھ نسبی تعلق نہیں تھا، پھر بھی اس آیت میں اسے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کہا گیا ہے، کیونکہ یہ وہ امت تھی جس کی طرف ان کو بھیجا گیا تھا۔ان کے واقعے سب سے زیادہ تفصیل سورۂ ہود (69:11 تا 83) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورۂ حجر (52:15 تا 84)، سورۂ شعراء (160:26 تا 174) اور سورۂ عنکبوت (26:29 تا 35) میں بھی ان کے واقعے کی کچھ تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نیز سورۂ ذاریات (24:51 تا 37) اور سورۂ تحریم (10:66) میں بھی ان کے مختصر حوالے آئے ہیں۔