81۔ 1 یعنی مردوں کے پاس تم اس بےحیائی کے کام کے لئے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو۔ اس لحاظ سے جاہلوں کی طرح تھے یا محض شہوت رانی کے لئے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں۔ 181۔ 2 جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لئے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دبر کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ 81۔ 3 لیکن اب یہ فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی مہذب قوموں نے اختیار کرلیا ہے تو یہ انسان کا بنیادی حق قرار پا گیا ہے، جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ چناچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا۔
[٨٦] عمل قوم لوط غیر فطری اور حیوانی سطح سے بھی گرا ہوا فعل ہے :۔ اس لیے کہ یہ فعل فطرت کی وضع کے خلاف ہے اور مرد اور عورت کے جنسی اعضاء کی ساخت ان کے اس فعل بد کی تردید کا کھلا ہوا ثبوت ہے سوا ازیں انسانوں کے علاوہ دوسرے جانور خواہ وہ درندے ہوں یا پالتو ہوں یا پرندے ہوں کوئی بھی ایسی مذموم حرکت نہیں کرتا کہ نر، نر پر کودنے لگے جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان حیوانات کی سطح سے بھی نیچے اتر آیا ہے۔ اب دیکھیے اگر مرد، مردوں سے اپنی شہوانی اغراض پوری کرلیں تو ایسے معاشرے میں عورتوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر عورتیں بھی عورتوں سے لپٹ کر یا کسی دوسرے جانور مثلاً کتے وغیرہ سے اپنی شہوت پوری کرلیں تو گویا سارا معاشرہ فحاشی کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔ پھر انسان کی نسل آگے کیسے چلے گی ؟ کیا یہ اپنی قوم کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے ہی کا ذریعہ نہیں ؟ یہ تو ایسے واضح نتائج ہیں جو ایسے معاشرے کا تصور کرنے سے ہی سامنے آجاتے ہیں اور جو اس کے دور رس نتائج ہیں وہ بیشمار ہیں۔
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ : چھوٹے یا بےریش لڑکوں کے بجائے مردوں کا لفظ ان کے فعل کی قباحت کے مزید اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ فرمایا کہ یہ فعل بد تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں ہے : ( مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) یعنی تم دوہرے مجرم ہو، ایک اس فعل بد کی وجہ سے، دوسرے اس فعل بد کا آغاز کرنے کی وجہ سے۔ اب قیامت تک اس جرم کے ہر مرتکب کا گناہ اس کے ساتھ ساتھ قوم لوط کی گردن پر بھی ہوتا ہے۔ - شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ: یہ تیسرا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری خواہش نفس پوری کرنے کے لیے جو بیویاں بنائی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو، یہ تمہاری فطرت مسخ ہونے کی دلیل ہے، پھر بیویوں سے حاجت پوری کرنے میں خواہش نفس پوری کرنے کے ساتھ بہت سی حکمتیں وابستہ ہیں، اولاد کی طلب، گھر کی رونق، دلی سکون، میاں بیوی کی باہمی دوستی کے ساتھ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت۔ دیکھیے سورة روم (٢١) ۔ جبکہ تمہارا مردوں کے پاس جانا صرف خواہش نفس پوری کرنے کے لیے ہے جو نہایت کمینگی کی بات ہے۔ - مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ : سورة شعراء میں فرمایا : (وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ ) [ الشعراء : ١٦٦ ] ” اور انھیں چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ “ یعنی تم نے اس خبیث فعل کی وجہ سے بیویوں کو چھوڑ رکھا ہے، تم اپنے آپ پر بھی زیادتی کر رہے ہو اور ان مردوں پر بھی جن سے یہ فعل کرتے ہو اور ان عورتوں پر بھی جو تمہاری بیویاں ہیں۔ ذرا غور کرو کہ اس عمل کا نتیجہ تمہاری بیویوں پر کیا مرتب ہوگا ؟ ان کی کچھ اور زیادتیوں کا ذکر سورة عنکبوت (٢٩) میں بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت امریکہ اور یورپ کی اقوام نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے کر مرد کی مرد اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے، اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی اس فعل کو جرم نہ سمجھا جائے اور اس کے لیے وہ اپنے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حق پر قائم رہنے کی اور جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفار کی اللہ تعالیٰ سے علانیہ بغاوت کو کچلنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کا قانون آسمانی عذاب کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دینا ہے، فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “
دوسری آیت میں ان کی اس بےحیائی کو زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو۔ اس میں اشارہ کردیا کہ انسان کی طبعی اور فطری خواہش کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حلال اور جائز طریقہ عورتوں سے نکاح کرنے کا مقرر فرما دیا ہے اس کو چھوڑ کر غیر فطری طریقہ کو اختیار کرنا نری خباثت نفس اور گندہ ذہنی کا ثبوت ہے۔- اسی لئے صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے اس جرم کو عام بدکاری سے زیادہ شدید جرم و گناہ قرار دیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ایسا فعل کرنے والے کو ایسی ہی سزا دینا چاہئے جیسے قوم لوط کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی کہ آسمان سے پتھراؤ کردیا جائے۔ مسند احمد ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ میں بروایت ابن عباس (رض) مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کام کرنے والوں کے بارے میں فرمایا فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ، یعنی اس کام کے فاعل و مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے (ابن کثیر)- آخر آیت میں فرمایا بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ یعنی تم ایسی قوم ہو جو انسانیت سے گزر گئی ہے۔ یعنی تمہارا اصل مرض یہ ہے کہ تم ہر کام میں اس کی حد سے نکل جاتے ہو۔ جنسی خواہش کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے نکل کر خلاف وضع فطری میں مبتلا ہوگئے۔
وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ٠ ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ ٨٢- جوب - الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56]- والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح مین گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔- جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔
آیت ٨١ (اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِط بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ )- یعنی تمہارا یہ فعل اصول فطرت کے بھی خلاف ہے اور قانون طبعی سے بھی متصادم۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :64 دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آیا ہے ، مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس پر نازل ہوا ۔ یہ قابل نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے ، اس کے ارتکاب سے تو بدکردار انسان کبھی باز نہیں آئے ، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھانے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا ، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون ساز نے اسے باقاعدہ جائز ٹھیرا دیا ۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مباشرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضع فطرت کےخلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اس سے تمدن کی بنیاد پڑے ۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنائی گئی ہیں ، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے ، ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی و محرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی ۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اوّلاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم بر پا کر دیتا ہے جس سے دونوں کے جسم نفس اور اخلاق پر نہایت برے اثرات مترتب ہوتے ہیں ۔ ۲ ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے ، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چُرا لیتا ہے ۔ ۳ ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بددیانتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نااہل بناتا ہے ، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے ، اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔