Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوم لوط پر بھی نبی کی نصیحت کار گر نہ ہوئی بلکہ الٹا دشمنی کرنے لگے اور دیس نکال دینے پر تل گئے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مع ایمانداروں کے وہاں سے صحیح سالم بجا لیا اور تمام بستی والوں کو ذلت و پستی کے ساتھ تباہ و غارت کر دیا ، ان کا یہ کہنا کہ یہ بڑے پاکباز لوگ ہیں بطور طعنے کے تھا اور یہ بھی مطلب تھا کہ یہ اس کام سے جو ہم کرتے ہیں دور ہیں پھر ان کا ہم میں کیا کام ؟ مجاہد اور ابن عباس کا یہی قول ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 یہ حضرت لوط کو بستی سے نکالنے کی علت ہے۔ باقی ان کی پاکیزگی کا اظہار یا تو حقیقت کے طور پر ہے اور مقصد ان کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اس برائی سے بچنا چاہتے ہیں، اس لیئے بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہماری بستی میں ہی نہ رہیں اور تمسخر کے طور پر انہوں نے ایسا کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] قوم کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا لوط (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور اس بدفعلی سے اجتناب کرنے والے کم ہی لوگ تھے یہ قوم جب اپنی اس بدفعلی کا کوئی عقلی جواز پیش نہ کرسکی تو الزامی جواب پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو ہوئے گندے لوگ اور لوط اور اس کے پیروکار پاکباز رہنا چاہتے ہیں تو ان کا ہم گندوں میں کیا کام ؟ لہذا انہیں اپنی بستی سے نکال دینا چاہیے تاکہ یہ روز روز کی تکرار اور جھگڑا ختم ہوجائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ : یعنی ان پاک باز لوگوں کا ہم گناہ گار و ناپاک لوگوں میں کیا کام ؟ یہ بات انھوں نے طنز اور تمسخر سے کہی اور ان کا جرم کیا بتایا کہ وہ گندگی میں آلودہ ہونے کا جرم کیوں نہیں کرتے، انھیں اپنی بستی سے نکال دو ۔ ” يَّتَطَهَّرُوْنَ “ باب تفعل سے ہے جس کا ایک معنی تکلف بھی ہے، اس صورت میں ان کا کہنا طنز کے ساتھ بہتان بھی ہے کہ یہ لوگ پاک باز بنتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ پاک باز نہیں ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی نصیحت کے جواب میں ان کی قوم کا جواب اس طرح ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں سے کوئی معقول جواب تو بن نہیں سکا ضد میں آکر آپس میں یہ کہنے لگے کہ یہ لوگ بڑی پاکی اور صفائی کے مدعی ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ۝ ٠ ۡ ۖ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۝ ٨٣- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- غبر - الْغَابِرُ : الماکث بعد مضيّ ما هو معه . قال :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] ، يعني : فيمن طال أعمارهم، وقیل : فيمن بقي ولم يسر مع لوط . وقیل : فيمن بقي بعد في العذاب، وفي آخر : إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] ، وفي آخر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60]- ( غ ب ر ) الغابر - اسے کہتے ہیں جو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جائے چناچہ آیت کریمہ :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ کی تفسیر میں بعض نے اس سے پیغمبر کے مخالفین لوگ مراد لئے ہیں جو ( سدوم میں ) پیچھے رہ گئے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں گئے تھے بعض نے عذاب الہی میں گرفتار ہونیوالے لوگ مراد لئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک مقام پر :إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] بجز ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی ۔ اور دوسرے مقام پر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60] ، اس کے لئے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٢) تو ان کی قوم کو اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہ بن پڑا کہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں صاحبزادیاں، زعوراء اور یثاء کو اپنے شہر سے نکال دو ، یہ لوگ مردوں اور عورتوں کے پچھلے راستہ سے بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ الاّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْج اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ )- ان کے پاس کوئی معقول جواب تو تھا نہیں ‘ شرم و حیا کو وہ لوگ پہلے ہی بالائے طاق رکھ چکے تھے۔ کوئی دلیل ‘ کوئی عذر ‘ کوئی معذرت ‘ جب کچھ بھی نہ بن پڑا تو وہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے گھر والوں کو شہر بدر کرنے کے درپے ہوگئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اس مقامی قوم سے تعلق رکھتی تھی ‘ اس لیے وہ آخر وقت تک اپنی قوم کے ساتھ ملی رہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اپنی بیٹیوں کو لے کر عذاب آنے سے پہلے وہاں سے نکل گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :65 اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صرف بے حیا اور بدکردار اور بداخلاق ہی نہ تھے بلکہ اخلاقی پستی میں اس حد تک گر گئے تھے کہ انہیں اپنے درمیان چند نیک انسانوں اور نیکی کی طرف بلانے والوں اور بدی پر ٹوکنے والوں کا وجود تک گوارا نہ تھا ۔ وہ بدی میں یہاں تک غرق ہوچکے تھے کہ اصلاح کی آواز کو بھی برداشت نہ کرسکتے تھے اور پاکی کے اس تھوڑے سے عنصر کو بھی نکال دینا چاہتے تھے جو ان کی گھناؤنی فضا میں باقی رہ گیا تھا ۔ اسی حد کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے استیصال کا فیصلہ صادر ہوا ۔ کیونکہ جس قوم کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی کا ذرا سا عنصر بھی باقی نہ رہ سکے پھر اسے زمین پر زندہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی ۔ سڑے ہوئے پھلوں کے ٹوکرے میں جب تک چند اچھے پھل موجود ہوں اس وقت تک تو ٹوکرے کو رکھا جا سکتا ہے ، مگر جب وہ پھل بھی اس میں سے نکل جائیں تو پھر اس ٹوکرے کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں رہتا کہ اسے کسی گھوڑے پر اُلٹ دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani