لوطی تباہ ہوگئے حضرت لوط اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا جیسے فرمان رب ہے آیت ( فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین ) یعنی وہاں جتنے مومن تھے ہم نے سب کو نکال دیا ۔ لیکن بجز ایک گھر والوں کے وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی اسی لئے حضرت لوط سے کہدیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی تھی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ ظاہر قول پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے حضرت لوط نے عذاب کی خبر کی نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ ( غابرین ) کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کئے ہیں وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کیلئے آسمان سے گر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بے انصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول اللہ کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ امام ابو حنفیہ فرماتے ہیں لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیے کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی ہو ۔ امام شافعی کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بھی مثل زنا کاری کے ہے شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے اسکا پورا بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔
83۔ 1 یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی۔ جن پر اللہ کا عذاب آیا۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ ہلاک ہونے والوں میں سے کیا ہے۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں۔
[٨٨] لوط کی بیوی کا کردار :۔ چونکہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان بدکرداروں سے پوری ساز باز رکھتی تھی۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو فوراً خفیہ طور پر اطلاع کردیتی اور ان لوگوں کو اس مہمان سے بدکرداری کرنے کی ترغیب دیا کرتی تھی لہذا وہ بھی قوم کے جرم میں برابر کی شریک تھی اور اسے بھی اسی عذاب سے دو چار ہونا پڑا جو اس قوم پر نازل ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوط کی بیوی بھی انہی کی قوم سے تعلق رکھتی تھی اور لوط (علیہ السلام) بابل سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے تھے۔
فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ: یعنی ہم نے لوط (علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں کو عذاب سے بچا لیا، کیونکہ اس بستی میں یہی ایک گھر مسلم تھا۔ دیکھیے سورة ذاریات (٣٦) ۔- اِلَّا امْرَاَتَهٗ ڮ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ ہم نے تمہاری بیوی کی خیانت و کفر کی وجہ سے اس کا پیچھے رہنا طے کردیا ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٥٧) اور سورة تحریم (١٠) چناچہ وہ ان لوگوں میں رہ گئی جو لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں نکلے، بلکہ اپنے علاقے ہی میں رہے، ان پر عذاب نازل ہوا تو وہ بھی ان کے ساتھ تباہ ہوگئی۔
تیسری اور چوتھی آیتوں میں قوم سدوم کی اس کجروی اور بےحیائی کی سزا آسمانی کا ذکر ہے اور یہ کہ اس پوری قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا صرف لوط (علیہ السلام) اور ان کے چند ساتھی عذاب سے محفوظ رہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ آیا ہے یعنی ہم نے لوط اور ان کے اہل کو عذاب سے نجات دی۔ یہ اہل کون لوگ تھے۔ بعض حضرات مفسرین کا قول ہے کہ اہل میں دو لڑکیاں تھیں جو مسلمان ہوئی تھیں۔ بیوی بھی مسلمان نہ ہوئی تھی۔ قرآن مجید کی ایک دوسری (آیت) میں فما وجدنا فیہا غیر بیت من المسلمین مذکور ہے کہ ان تمام بستیوں میں ایک گھر کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا۔ اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے صرف گھر کے آدمی مسلمان تھے جن کو عذاب سے نجات ملی ان میں بھی بیوی داخل نہ تھی۔ اور مفسرین نے فرمایا کہ اہل سے مراد عام ہے اپنے گھر والے اور دوسرے متعلقین جو مسلمان ہوچکے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گنے چنے چند مسلمان تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عذاب سے بچانے کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو حکم دے دیا کہ بیوی کے سوا دوسرے اہل و متعلقین کو لے کر آخر رات میں اس بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ کیونکہ جس وقت آپ بستی سے نکل جائیں گے تو بستی والوں پر فوراً عذاب آجائے گا۔- حضرت لوط (علیہ السلام) نے حکم خدا وندی کی تعمیل کی اپنے اہل و متعلقین کو لے کر آخر شب میں سدوم سے نکل گئے۔ بیوی کے متعلق دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ وہ ساتھ چلی ہی نہیں دوسری یہ کہ کچھ دور تک ساتھ چلی مگر حکم خداوندی کے خلاف پیچھے مڑ کر بستی والوں کا حال دیکھنا چاہتی تھی تو اس کو عذاب نے پکڑ لیا۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں اس واقعہ کو مجمل اور مفصل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہاں تیسری آیت میں صرف اتنا مذکور ہے کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے اہل و متعلقین کو عذاب سے نجات دے دی مگر ان کی بیوی عذاب میں رہ گئی۔ نجات دینے کی یہ صورت کہ یہ لوگ آخر رات میں بستی سے نکل جائیں اور مڑ کر نہ دیکھیں دوسری آیات میں مذکور ہے۔
وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا ٠ ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ ٨٤ ۧ- مطر - المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] - ( م ط ر ) المطر - کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔
(٨٣) نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں بیٹیوں (اور دوسرے مومنوں) کو نجات دی اور ان کی بیوی بھی ہلاک ہونے والے کافروں کے ساتھ ہوگئی ،
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :66 دوسرے مقامات پر تصریح ہے کہ حضرت لوط کی یہ بیوی ، جو غالباً اسی قوم کی بیٹی تھی ، اپنے کافر رشتہ داروں کی ہمنوا رہی اور آخر وقت تک اس نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ اس لیے عذاب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو ہدایت فرما دی کہ اس عورت کو ساتھ نہ لیا جائے ۔