Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی اس سے پہلے فرمایا ہم نے اس بستی کو الٹ کر نیچے اوپر کردیا۔ 84۔ 2 یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے تو سہی جو لوگ اعلانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] قوم لوط کا انجام :۔ اس مقام پر صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ اس قوم پر ہم نے بدفعلی اور پھر سرکشی کی پاداش میں بری طرح کی بارش برسائی۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی سب بستیوں کو اٹھا کر بلندی سے زمین پردے مارا گیا۔ سیدنا جبرئیل (علیہ السلام) آئے انہوں نے زمین کے اتنے حصہ کو زمین سے علیحدہ کر کے اپنے پروں پر اٹھایا پھر اوپر سے زمین پر پٹخ دیا پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش برسائی اس طرح اس بدکار قوم کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔- اب ایسا عذاب کیوں نہیں آتا ؟:۔ یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسے جرائم تو آج کل بھی ہو رہے ہیں پھر ان پر کیوں ایسا عذاب نہیں آتا تو اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ جب اللہ کا نبی کسی قوم کو اس کی بدفعلی یا جرائم سے منع کرے لیکن قوم باز آنے کی بجائے اکڑ جائے اور اللہ کے رسول اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اس کا مذاق اڑانے اور انہیں دکھ پہنچانے لگے تو اس کا جرم اصل جرم سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے حالانکہ بنیادی جرم کی حیثیت بنیادی ہی رہتی ہے بخلاف ان لوگوں کے جو محض اس ایک جرم میں مبتلا ہوتے ہیں لہذا یہ اتنے شدید مجرم نہیں ہوتے کہ انہیں فوراً ہلاک کردیا جائے اور ان کے لیے معذرت کی گنجائش کو باقی نہ چھوڑا جائے۔- اللہ کا عذاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجاتی ہے کسی جرم کو جرم نہ سمجھنے یا اسے جائز قرار دینے یا کچھ افراد کے اس میں مبتلا ہونے ہی پر عذاب نہیں آجایا کرتا اور جب کسی معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجائے تو اسے اس کے منطقی نتائج سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور انہی منطقی نتائج کا نام شریعت کی اصطلاح میں اللہ کی سنت جاریہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوا کرتی جیسے اس قوم کی نسل میں کمی یا انقطاع بھی عذاب کی قسم ہے۔ آج کل تہذیب مغرب کا علمبردار امریکہ ہے جہاں ہم جنسی کا قانون بھی پاس ہوچکا ہے اور وہاں گورے اور کالے کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرچکا ہے گورے یعنی حکمران قوم امریکہ کی پرانی آبادی یعنی کالے لوگوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں اور انہیں مساوی شہری حقوق بھی نہیں دیتے۔ اب گورے لوگوں کی عورتوں میں یہ رجحان چل نکلا ہے کہ وہ کالے لوگوں کو شادی کے لیے پسند کرتی ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گورے لوگ لواطت کے عادی ہوچکے ہیں اور کالے اس قسم کی فحاشی سے بچے ہوئے ہیں۔ گوری عورتوں کے اس رجحان نے حکمران قوم کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ کھڑا کردیا ہے اور یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے۔- ٢۔ عذاب کی طبعی توجیہات :۔ اللہ کا عذاب آج بھی مختلف زلزلوں، سیلابوں، طوفان باد و باراں اور خسف کی صورت میں آتا ہی رہتا ہے لیکن ہمارے ظاہر بین سائنس دان اور دانش وران قوم اس عذاب کی ایسی طبعی یا تاریخی توجیہات تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں کہ عوام کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہی نہ ہونے پائے۔ جو قرآن ہمیں سمجھانا چاہتا ہے اور اس کے انداز بیان سے صاف طور پر واضح ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا ۭ۔۔ : ” ْ مَّطَرًا “ یہ ” َاَمْطَرْنَا “ کی تاکید ہے اور تنوین اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے، یعنی ایک زبردست بارش۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بستی الٹ دی، اس لیے قرآن میں اس بستی اور اس کے ارد گرد کی بستیوں کو ” َوَالْمُؤْتَفِكَةَ “ (نجم : ٥٣ ) یعنی الٹنے والی اور ” الْمُؤْتَفِكٰتِ “ ( توبہ : ٧٠) کہا گیا ہے، پھر ان پر کھنگر والے تہ در تہ پتھروں کی بارش برسائی۔ ( دیکھیے ہود : ٨٢) اور وہ علاقہ ایسا تباہ ہوا کہ اب تک آباد نہیں ہوسکا۔ ان پر عذاب کا باعث ان کے فعل بد اور اس پر اصرار کے ساتھ ساتھ پیغمبر کے ساتھ کفر اور استہزا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں اس قوم پر نازل ہونے والے عذاب کو مختصر لفظوں میں صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر عجیب قسم کی بارش بھیجی گئی۔ اور سورة ہود میں اس عذاب کی مفصل کیفیت یہ بیان فرمائی ہے۔ ( آیت) فلما جاء امرنا تا ببعید، یعنی جب ہمارا عذاب آپہنچا تو کر ڈالی ہم نے وہ بستی اوپر تلے اور برسائے ان پر پتھر کنکر کے تہ بہ تہ، نشان کئے ہوئے تیرے رب کے پاس اور نہیں ہے وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور۔- اس سے معلوم ہوا کہ اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہوئی اور نیچے سے زمین کے پورے طبقہ کو جبرئیل امین نے اٹھا کر اوندھا پلٹ دیا۔ اور جن پتھروں کی بارش برسی وہ تہ بہ تہ تھے یعنی ایسی مسلسل بارش ہوئی کہ تہ بہ تہ جمع ہوگئے اور یہ پتھر نشان کئے ہوئے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کی ہلاکت کے لئے پھینکا گیا تھا۔ اور سورة حجر کی آیات میں اس عذاب سے پہلے یہ بھی مذکور ہے (آیت) فاخذتھم الصیحة مشرقین، یعنی آپکڑا ان کو چنگھاڑ نے سورج نکلتے وقت۔ - اس سے معلوم ہوا کہ پہلے آسمان سے کوئی سخت آواز چنگھاڑ کی صورت میں آئی پھر اس کے بعد دوسرے عذاب آئے۔ ظاہر الفاظ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ چنگھاڑ کے بعد پہلے زمین کا تختہ الٹ دیا گیا پھر اس پر ان کی مزید تذلیل و تحقیر کے لئے پتھراؤ کیا گیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے پتھراؤ کیا گیا ہو بعد میں زمین کا تختہ الٹا دیا گیا ہو۔ کیونکہ قرآنی اسلوب بیان میں یہ ضروری نہیں کہ جس چیز کا ذکر پہلے ہوا ہو وہ وقوع کے اعتبار سے بھی پہلے ہو۔ - قوم لوط (علیہ السلام) کے ہولناک عذابوں میں سے زمین کا تختہ الٹ دینے کی سزا ان کے فحش و بےحیائی عمل کے ساتھ خاص مناسبت بھی رکھتی ہے کہ انہوں نے قلب موضوع کا ارتکاب کیا ہے۔ - سورة ہود کی آیات کے آخر میں قرآن کریم نے اہل عرب کی مزید تنبیہ کے لئے یہ بھی فرمایا کہ (آیت) وما ہی من الظلمین ببعید۔ یعنی یہ الٹی ہوئی بستیاں ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ سفر شام کے راستہ پر ہر وقت ان کے سامنے آتی ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ یہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ - اور یہ منظر صرف نزول قرآن کے زمانہ میں نہیں آج بھی موجود ہے بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے۔ نعوذ باللّہ من عذابہ و غضبہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۝ ٠ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٨٥ ۚ- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- كيل - الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] - ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ - بخس - البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ- [هود 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا .- ( ب خ س ) البخس - ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤) اور ہم نے ان کے مسافر ومقیم سب پر آسمان سے پتھر برسادیے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو سہی کہ آخر کار انجام مشرکوں کا ہلاکت و بربادی ہوا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًاط فانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ ) - یہ پتھروں کی بارش تھی اور ساتھ شدید زلزلہ بھی تھا جس سے ان کی بستیاں الٹ کر بحیرۂ مردار کے اندر دفن ہوگئیں۔ قوم لوط ( علیہ السلام) اہل مکہ سے زمانی اور مکانی لحاظ سے زیادہ دور نہیں تھی ‘ اس قوم کے قصے اہل عرب کی تاریخی روایات کے اندر موجود تھے۔ چناچہ اہل مکہ اس قوم کے حسرتناک انجام سے خوب واقف تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :67 بارش سے مراد یہاں پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ نیز یہ بھی قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی بستیاں اُلٹ دی گئیں اور انہیں تلپٹ کر دیا گیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :68 یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بدترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہوئی ۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کو سخت سزا دی جانی چاہیے ۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اقتلو ا الفاعل و المفعول بِہٖ ( فاعل اور مفعول کو قتل کر دو ) ۔ کسی میں اس حکم پر اتنا اضافہ اور ہے کہ احصنا اولم یحصنا ( شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ) ۔ اور کسی میں ہے فارجموا الاعلی و الاسفل ( اُوپر اور نیچے والا ، دونوں سنگسار کیے جائیں ) ۔ لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہو اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے ۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلائی جائے ۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اتفاق فرمایا ہے ۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اب پر ڈھا دی جائے ۔ ابن عباس کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اُونچی عمارت پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں ۔ فقہاء میں سے امام شافعی کہتے ہیں کہ فاعل و مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ شعبی ، زُہری ، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی سزا رجم ہے ۔ سعید بن مُسَیَّب ، عطاء ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں اس جرم پر وہی سزا دی جائے گی جو زنا کی سزا ہے ، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا ، اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا ۔ امام ابوحنیفہ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے ، جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزا اس پر دی جاسکتی ہے ۔ ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے کہ وہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے ۔ ابوداؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ ملعون من اتی المرٲتہ فی دبرھا ( اللہ اس مرد کی طرف ہرگز نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے ) ۔ ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ من اتی حائضا او امرٲة فی دبرھا او کاھنا فصدّقہ فقد کفر بما انزل علیٰ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی ، یا عورت کے ساتھ عمل قوم لوط کا ارتکاب کیا ، یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani