Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خطیب الانبیاء شعیب علیہ اسلام مشہور مؤرخ حضرت امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں ۔ حضرت شعیب میکیل بن نیشجر کے لڑکے تھے ان کا نام سریانی زبان میں یژون تھا ۔ یہ یاد رہے کہ قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور اس بستی کا نام بھی یہی تھا یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز جانے والے کے راستے میں آتا ہے ۔ آیت قرآن ولما و رد ماء مدین میں شہر مدین کے کنویں کا ذکر موجود ہے اس سے مراد ایکہ والے ہیں جیسا کہ انشاء اللہ بیان کریں گے ۔ آپ نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی اور شرک سے بچنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں ۔ خالق کا حق بتا کر پھر مخلوق کے حق کی ادائیگی کی طرف رہبری کی اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کی عادت چھوڑو لوگوں کے حقوق نہ مارو ۔ کہو کچھ اور کرو کچھ یہ خیانت ہے فرمان ہے آیت ( ویل للمطففین ) ان ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ( ویل ) ہے ۔ اللہ اس بدخصلت سے ہر ایک کو بچائے ۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا اور وعظ بیان ہوتا ہے ۔ آپ کو بہ سبب فضاحت عبارت اور عمدگی وعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا ۔ علیہ الصلوۃ والسلام ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا پھر انہیں کی نسل پر مبنی قبیلے کا نام مدین اور جس بستی میں یہ رہائش پذیر تھے اس کا نام بھی مدین پڑگیا۔ یوں اس کا اطلاق قبیلے اور بستی دونوں پر ہوتا ہے۔ یہ بستی حجاز کے راستے میں معان کے قریب انہی کو قرآن میں دوسرے مقام پر اَصْحَابُ الأیْکَۃِ (بن کے رہنے والے) بھی کہا گیا ہے۔ ان کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے (دیکھئے الشعرا۔ 176 کا حاشیہ) ملحوظہ : ہر نبی کو اس قوم کا بھائی کہا گیا ہے، جس کا مطلب اسی قوم اور قبیلے کا فرد ہے جس کو بعض جگہ رسول منھم یا من انفسہم سے بھی تعبیر کی گیا ہے، اور مطلب ان سب کا یہ ہے کہ رسول اور نبی انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے اور وحی کے ذریعے سے اس پر اپنی کتاب اور احکام نازل فرماتا ہے۔ 85۔ 2 دعوت توحید کے بعد اس قوم میں ناپ تول کی بڑی خرابی تھی، اس سے انہیں منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کردینے کی تلقین کی۔ یہ کوتاہی بھی بڑی خطرناک ہے جس سے اس قوم کا اخلاق پستی اور گراوٹ کا پتہ چلتا ہے جس کے اندر یہ ہو۔ یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لئے جائیں اور چیز کم دی جائے۔ اس لئے سورة مُطَفِّفِیْن میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٠] شعیب (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ :۔ مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور جو تجارتی قافلے یمن سے ساحل سمندر کے ساتھ راستہ اختیار کر کے شام اور فلسطین جاتے نیز جو قافلے مصر سے اسی غرض کے لیے جاتے ہیں ان کے راستہ میں پڑتا ہے بلکہ اس قوم کی بستیاں ان دونوں تجارتی شاہراہوں کے چوراہوں میں واقع تھیں لہذا یہ علاقہ پورے کا پورا ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا، اور مدین کے لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدیان کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے انہیں آل مدیان اور ان کے علاقہ کو مدین یا مدیان کہا جاتا تھا یہ لوگ دین ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے متبع ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ مگر مرور زمانہ کی وجہ سے ان میں بھی کئی اعتقادی اور اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اعتقادی خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی تو شرک ہے جو اکثر اقوام میں پایا جاتا رہا ہے اور شرک کا اصل سبب اللہ کی حقیقی معرفت سے جہالت ہوتا ہے اور دوسری اخلاقی بیماری یہ تھی کہ اپنے تجارتی کاروبار میں ہر طرح کی ہیرا پھیریاں کرتے تھے۔ جھوٹ بول کر مال بیچنا، کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اور کسی کو دیتے وقت کم دینا اور لیتے وقت زیادہ لینا غرض تجارت میں ہر طرح کی بددیانتی کرتے تھے چیز دیتے وقت ناپ یا تول میں کیا ہتھکنڈے اختیار کیے جاسکتے ہیں جس سے لینے والے کو معلوم بھی نہ ہو سکے کہ اسے مطلوبہ چیز کم ملی ہے اور اس کے برعکس بھی۔ یہ ایسے معروف طریقے ہیں جن سے ہماری قوم بھی خوب واقف ہے اور ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔- [٩١] لین دین میں ہیراپھیریاں :۔ یہ وہی سیدنا شعیب (علیہ السلام) ہیں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سسر تھے اور دس سال تک سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ان کی تربیت میں رہے تھے۔ آپ پہلے نبی ہیں جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد (یعنی تقریباً ١٥٠٠ ق م میں) اہل مدین کی طرف بھیجے گئے چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے پیرو سمجھتے تھے لہذا سیدنا شعیب (علیہ السلام) نے انہیں مخاطب بھی اسی بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا اور فرمایا کہ تمہارے پاس واضح دلیل یعنی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف یا تعلیمات تو آچکی ہیں پھر تم کیسے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ تجارتی لین دین میں دغا بازیاں کیوں کرتے ہو ؟ اور اللہ اور اس کے بندوں دونوں کے حقوق تلف کر کے فساد فی الارض کا موجب بن رہے ہو ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۭ : مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور آج بھی اس علاقے میں ایک جگہ اسی نام سے مشہور ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کا نسب نامہ امام نووی (رض) نے یوں بیان کیا ہے، شعیب بن میکائیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم۔ (المنار) مگر اس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کو اہل مدین کا بھائی قرار دیا، کیونکہ وہ اس قوم سے تھے اور ان کا قبیلہ بہت زبردست تھا جس کی وجہ سے ان کے کفار آپ کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے، اس لیے انھوں نے کہا تھا : (ۚ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ۡ ) [ ہود : ٩١ ] ” اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیتے۔ “ شعیب (علیہ السلام) ہی کو اصحاب الایکہ کی طرف بھیجا گیا، مگر وہاں انھیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا، فرمایا : (كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) [ الشعراء : ١٧٦، ١٧٧ ] ” ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا، جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “ اب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں اور ان پر دو قسم کے عذاب آئے، ایک ” عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۭ“ ( شعراء : ١٨٩) اور ایک ” الرَّجْفَةُ “ (اعراف : ٩١ ) اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ قومیں تھیں، اصحاب مدین پر ” الرَّجْفَةُ “ (زلزلے) کا عذاب آیا اور اصحاب ایکہ پر ” یوم الظلۃ “ کا عذاب آیا۔ (واللہ اعلم )- ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ : مدین والوں کا سب سے بڑا جرم اللہ کے ساتھ شرک تھا، شعیب (علیہ السلام) نے سب سے پہلے انھیں اس سے باز رہنے کی تاکید فرمائی اور ہر پیغمبر کی پہلی دعوت یہی تھی : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ - قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ : یعنی میرے سچا ہونے کی واضح دلیل تم دیکھ چکے ہو، لہٰذا ضروری ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اسے صحیح سمجھو۔ رازی نے فرمایا کہ یہاں ” بَيِّنَةٌ“ (واضح دلیل) سے مراد معجزہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر نبی کو کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ دے کر بھیجا گیا جسے دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور مجھے جو ( معجزہ) دیا گیا وہ وحی ( قرآن و سنت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف فرمائی اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔ “ [ بخاری،- فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی و أول ما أنزل : ٤٩٨١۔ مسلم : ١٥٢، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- مگر شعیب (علیہ السلام) کے معجزے کا قرآن کریم میں ذکر نہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جو عصا یعنی لاٹھی تھی وہ شعیب (علیہ السلام) ہی نے انھیں عطا فرمائی تھی اور وہ دراصل شعیب (علیہ السلام) ہی کا معجزہ تھا۔ (کشاف) مگر موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے جس بزرگ کے پاس ٹھہرے اور ان کے داماد بنے تھے، ان کے شعیب (علیہ السلام) ہونے کی کوئی دلیل نہیں، نہ ہی مدین کے کسی بزرگ کا ذکر کرنے پر بلا دلیل یہ سمجھ لینا درست ہے کہ وہ لازماً اللہ کے رسول شعیب (علیہ السلام) ہی تھے۔ قرآن مجید میں نہ ہر پیغمبر کا نام مذکور ہے نہ ہر نبی کا معجزہ۔ اتنا ہی کافی ہے کہ یقیناً شعیب (علیہ السلام) کوئی معجزہ لے کر آئے تھے، زیادہ کریدنے سے کچھ حاصل نہیں۔ - فَاَوْفُوا الْكَيْلَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں شرک کے ساتھ دوسری خرابی ماپ تول میں لیتے وقت زیادتی اور دیتے وقت کمی تھی، اگر کوئی ان کی اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا تو مل کر اس کی بےعزتی کرتے اور اسے مارتے پیٹتے، جیسا کہ آج کل بھی عموماً ریڑھیوں والے ایسے موقع پر گاہک کے خلاف ایکا کرلیتے ہیں، اس لیے شعیب (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ ماپ تول ہر حال میں پورا کرو اور انبیاء اور صالحین کی محنت سے دنیا میں جو اصلاح ہوئی ہے اس کے بعد شرک اور بددیانتی اور ان کے ساتھ پیدا ہونے والی برائیوں کے ذریعے سے اس میں فساد مت پھیلاؤ، کیونکہ ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی تلف ہوتے ہیں اور لوگوں کے بھی۔ - اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : یعنی اگر تم مجھ پر ایمان لا کر شرک اور بددیانتی ترک کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، کیونکہ کافر رہتے ہوئے یہ چیزیں چھوڑ بھی دو تو قیامت کے دن اس کا کچھ فائدہ نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اہل مدین سے) فرمایا کہ میری قوم تم (صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (بننے کے قابل) نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (میرے نبی ہونے پر) واضح دلیل (کہ کوئی معجزہ ہے) آچکی ہے (جب میری نبوت ثابت ہے) تو (احکام شرعیہ میں میرا کہنا مانو چناچہ میں کہتا ہوں کہ) تم ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا ان کی چیزوں میں نقصان مت کیا کرو (جیسا کہ تمہاری عادت ہے) اور روئے زمین میں بعد اس کے کہ (تعلیم و توحید و بعثت انبیاء و ایجاب عدل و ادائے حقوق مکیال و میزان سے) اس کی درستی (تجویز) کردی گئی فساد مت پھیلاو (یعنی ان احکام کی مخالفت اور کفر مت کرو کہ موجب فساد ہے) یہ (جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر عمل کرنا) تمہارے لئے (دنیا و آخرت دونوں میں) نافع ہے اگر تم (میری) تصدیق کرو (جس پر دلیل قائم ہے اور تصدیق کرکے عمل کرو تو امور مذکورہ دارین میں نافع ہیں آخرت میں تو ظاہر ہے کہ نجات ہوگی اور دنیا میں عمل بالشرع سے امن و انتظام قائم رہتا ہے خاص کر پورا ناپنے تولنے میں بوجہ اعتبار بڑھنے کے تجارت کو ترقی ہوتی ہے) اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو (ایمان لانے پر) دھمکیاں دو اور (ان کو) اللہ کی راہ (یعنی ایمان) سے روکو اور اس (راہ) میں کجی (اور شبہات) کی تالش میں لگے رہو (کہ بےجا اعتراض سوچ سوچ کر لوگوں کو بہکاؤ یہ لوگ ضلال مذکور سابق کے ساتھ اس اضلال میں بھی مبتلا تھے کہ سڑکوں پر بیٹھ کر آنے والوں کو بہکاتے کہ شعیب (علیہ السلام) پر ایمان نہ لانا نہیں تو ہم تم کو مار ڈالیں گے۔ آگے تذکیر نعمت سے ترغیب اور تذکیر نقمت سے ترہیب ہے یعنی) اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم (شمار میں یا مال میں) کم تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو (شماریا مال میں) زیادہ کردیا (یہ تو ترغیب تھی ایمان لانے پر) اور دیکھو تو کیسا برا انجام ہوا فساد (یعنی کفر و تکذیب و ظلم) کرنے والوں کا (جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود گزر چکے ہیں اسی طرح تم پر عذاب آنے کا اندیشہ ہے یہ ترہیب ہے کفر پر) اور اگر (تم کو عذاب نہ آنے کا اس سے شبہ ہو کہ) تم میں سے بعضے (تو) اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا ہے ایمان لائے ہیں اور بعضے ایمان نہیں لائے (اور پھر بھی دونوں فریق ایک ہی حالت میں ہیں یہ نہیں کہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب آگیا ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عذاب سے ڈرانا بےاصل ہے) تو (اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ فوراً عذاب نہ آنے سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ عذاب نہ آئے گا) ذرا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ ہمارے (یعنی دونوں فریق کے) درمیان میں اللہ تعالیٰ (عملی) فیصلہ کئے دیتے ہیں (یعنی عذاب نازل کرکے مؤمنین کو نجات دیں گے اور کفار کو ہلاک کریں گے) اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہیں (کہ ان کا فیصلہ بالکل مناسب ہی ہوتا ہے) ۔- معارف و مسائل - انبیاء (علیہم السلام) کے قصص جن کا سلسلہ گزشتہ آیات سے چل رہا ہے ان میں پانچواں قصہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے جو آیات متذکرہ میں بیان ہوا ہے۔ - حضرت شعیب (علیہ السلام) محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادہ مدین کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے بھی رشتہ قرابت رکھتے ہیں۔ مدین حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں ان کی نسل و اولاد بھی مدین کے نام سے معروف ہوگئی اور جس بستی میں ان کا قیام تھا اس کو بھی مدین کہتے ہیں۔ گویا مدین ایک قوم کا بھی نام ہے اور ایک شہر کا بھی۔ یہ شہر آج بھی شرق اردن کی بندرگاہ معان کے قریب موجود ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ارشاد ہے (آیت) ولما ورد ماء مدین۔ ، اس میں یہی بستی مراد ہے (ابن کثیر) ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کے حسن بیان کی وجہ سے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا (ابن کثیر، بحر محیط)- حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں قرآن کریم نے کہیں ان کا اہل مدین اور اصحاب مدین کے نام سے ذکر کیا ہے اور کہیں اصحاب ایکہ کے نام سے۔ ایکہ کے معنی جنگل اور بن کے ہیں۔ - بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں قومیں الگ الگ تھیں دونوں کی بستیاں بھی الگ تھیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان میں سے پہلے ایک قوم کی طرف بھیجے گئے ان کی ہلاکت کے بعد دوسری قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔ دونوں قوموں پر جو عذاب آیا اس کے الفاظ بھی مختلف ہیں اصحاب مدین پر کہیں صیحہ اور کہیں رجفہ مذکور ہے اور اصحاب ایکہ پر بھی عذاب ظلہ ذکر کیا گیا ہے۔ صیحہ کے معنی چنگھاڑ اور سخت آواز کے اور رجفہ کے معنی زلزلہ ہیں اور ظللہ سائبان کو کہا جاتا ہے۔ اصحاب ایکہ پر عذاب کی یہ صورت ہوئی کہ اول چند روز ان کی پوری بستی میں سخت گرمی پڑی جس سے ساری قوم بلبلا اٹھی۔ پھر ان کے قریب جنگل پر ایک گہرا بادل آیا جس سے اس جنگل میں سایہ ہوگیا اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر سارے بستی کے آدمی اس بادل کے سایہ میں جمع ہوگئے۔ اس طرح یہ خدائی مجرم بغیر کسی وارنٹ اور سپاہی کے اپنے پاؤں چل کر اپنی ہلاکت کی جگہ پہنچ گئے۔ جب سب جمع ہوگئے تو بادل سے آگ برسی اور زمین میں بھی زلزلہ آیا جس سے یہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ - اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم کا نام ہے اور عذاب کی جو تین قسمیں ابھی ذکر کی گئی ہیں۔ تینوں اس قوم پر جمع ہوگئیں۔ پہلے بادل سے آگ برسی پھر اس کے ساتھ سخت آواز چنگھاڑ کی شکل میں آئی پھر زمین میں زلزلہ آیا، ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ - بہر حال یہ دونوں قومیں الگ الگ ہوں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہوں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جو پیغام حق ان کو دیا وہ پہلی اور دوسری آیات میں مذکور ہے۔ اس پیغام کی تفسیر سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اسلام جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مشترک دعوت ہے۔ اس کا خلاصہ ادائے حقوق ہے۔ پھر حقوق دو قسم کے ہیں ایک براہ راست اللہ تعالیٰ کا حق جس کے کرنے یا چھوڑنے سے انسانوں کا کوئی معتدبہ نفع نقصان متعلق نہیں جیسے عبادات نماز روزہ وغیرہ۔ دوسرے حقوق العباد جن کا تعلق انسانوں سے ہے۔ اور یہ قوم ان دونوں حقوق سے بیخبر اور دونوں کے خلاف کام کر رہی تھی۔ - یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان نہ لا کر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور اس کے ساتھ خریدوفروخت میں ناپ تول گھٹا کر لوگوں کے حقوق کو ضائع کر رہے تھے اور اس پر مزید یہ کہ راستوں اور سڑکوں کے دھانوں پر بیٹھ جاتے اور آنے والوں کو ڈرا دھمکا کر لوٹتے اور شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ اس طرح روئے زمین پر فساد مچا رکھا تھا۔ یہ ان کے شدید جرائم تھے جن کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا۔ - آیات مذکورہ میں سے پہلی دو آیتوں میں اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تین باتیں فرمائیں۔ اول (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ، یعنی اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود بننے کے لائق نہیں۔ یہ وہی دعوت توحید ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) دیتے آئے ہیں اور جو تمام عقائد و اعمال کی روح ہے چونکہ یہ قوم بھی مخلوق پرستی میں مبتلا اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کے حقوق سے غافل تھی اس لئے ان کو بھی سب سے پہلے یہی پیغام دیا گیا۔ اور فرمایا (آیت) ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے یہاں واضح دلیل سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ تفسیر بحر محیط میں مختلف صورتیں ان کے معجزات کی ذکر کی ہیں۔- دوسری بات یہ فرمائی (آیت) فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ، اس میں کیل کے معنی ناپ اور میزان بمعنی وزن تولنے کے معنی میں ہے اور بخس کے معنی کسی کے حق میں کمی کرکے نقصان پہنچانے کے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم ناپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی کرکے ان کو نقصان نہ پہنچایا کرو۔ - اس میں پہلے تو ایک خاص جرم سے منع فرمایا گیا جو خرید فروخت کے وقت ناپ تول میں کمی کی صورت سے کیا جاتا تھا۔ بعد میں لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ، فرما کر ہر طرح کے حقوق میں کتربیونت اور کمی کوتاہی کو عام کردیا۔ خواہ وہ مال سے متعلق ہو یا عزت و آبرو سے یا کسی دوسری چیز سے (بحر محیط) - اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ناپ تول میں حق سے کم دینا حرام ہے اسی طرح دوسرے حقوق انسانی میں کمی کرنا بھی حرام ہے۔ کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنا، یا کسی کے درجہ اور رتبہ کے موافق اس کا احترام نہ کرنا۔ جس جس کی اطاعت واجب ہے ان کی اطاعت میں کوتاہی کرنا یا جس شخص کی تعظیم و تکریم واجب ہے اس میں کوتاہی برتنا۔ یہ سب امور اسی جرم میں داخل ہیں جو شعیب (علیہ السلام) کی قوم کیا کرتی تھی۔ حجة الوداع کے خطبہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی آبرو کو ان کے خون کے برابر واجب الاحترام اور قابل حفاظت قرار دیا ہے اس کا بھی حاصل یہی ہے۔ - قرآن مجید میں جہاں مطففین اور تطفیف کا ذکر آیا ہے اس میں یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ حضرت فاروق اعظم (رض) نے ایک شخص کو جلدی جلدی رکوع سجدے کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا قد طففت یعنی تو نے ناپ تول میں کمی کردی (مؤ طا امام مالک) ۔ مراد یہ ہے کہ نماز کا جو حق تھا وہ تو نے پورا نہ کیا۔ اس میں حق نماز پورا ادا نہ کرنے کو تطفیف کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ - آخر آیت میں فرمایا وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا، یعنی زمین کی درستی کے بعد اس میں فساد مت پھیلاؤ۔ یہ جملہ اسی سورة اعراف میں پہلے بھی آچکا ہے وہاں اس کے معنی کی تفصیل بیان ہوچکی ہے کہ زمین کی ظاہری اصلاح ہر چیز کو اس کے مصرف پر خرچ کرنے اور حدود کی رعایت کرنے اور عدل و انصاف قائم رکھنے پر موقوف ہے اور باطنی اصلاح، تعلق مع اللہ اور اطاعت احکام الٰہیہ پر اسی طرح زمین کا ظاہری اور باطنی فساد ان اصول کو چھوڑ دینے سے پیدا ہوتا ہے۔ قوم شعیب (علیہ السلام) نے ان تمام اصول کو نظر انداز کر رکھا تھا جس کی وجہ سے زمین پر ظاہری اور باطنی ہر طرح کا فساد برپا تھا۔ اس لئے ان کو یہ نصیحت کی گئی کہ تمہارے یہ اعمال ساری زمین کو خراب کرنے والے ہیں ان سے بچو۔ - پھر فرمای آذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ یعنی یہی بات تمہارے لئے نافع ہے اگر تم میری بات مانو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنی ان ناجائز حرکتوں سے باز آجاؤ تو اسی میں تمہارے دین و دنیا کی فلاح اور بہبود ہے۔ دین اور آخرت کی فلاح تو ظاہر ہے کہ احکام الٰہیہ کی اطاعت سے وابستہ ہے اور دنیا کی فلاح اس لئے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ فلاں شخص ناپ تول میں اور دوسرے حقوق میں دیانت داری سے کام کرتا ہے تو بازار میں اس کی ساکھ قائم ہو کر اس کی تجارت کو فروع ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ وَتَبْغُوْنَہَا عِوَجًا۝ ٠ ۚ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ۝ ٠ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ٨٦- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیا کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) اور ہم نے مدین کی طرف ان ہی میں سے نبی بھیجا جن کی تبلیغ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور جس اللہ پر میں تمہیں ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں میرے رسول اللہ ہونے پر ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ ماپ تول کو پورا کرو۔- اور ماپ تول کے ذریعے لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور غیر اللہ کی پرستش اور ماپ وتول میں عبادت و اطاعت الہی اور ماپ تول کو پورا کرنے کے بعد کمی نہ کرو۔- جن باتوں پر تم قائم ہو توحید اور ماپ تول کو پورا کرنا اس سے بہتر ہے اگر تم میری باتوں کی تصدیق کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا ط) - حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تعلق اسی قوم سے تھا ‘ اس لیے آپ ( علیہ السلام) کو ان کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی کا نام ’ قطورا ‘ تھا۔ ان سے آپ ( علیہ السلام) کے کئی بیٹے ہوئے ‘ جن میں سے ایک کا نام مدین تھا جو اپنی اولاد کے ساتھ خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہوگئے تھے۔ یہ علاقہ ان لوگوں کی وجہ سے بعد میں مدین ہی کے نام سے معروف ہوا۔ مدین کا علاقہ بھی اس زمانے کی بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا۔ یہ شاہراہ شمالاً جنوباً فلسطین سے یمن کو جاتی تھی۔ اس لحاظ سے اہل مدین بہت خوشحال لوگ تھے۔ نتیجتاً ان میں بہت سی کاروباری اور تجارتی بد عنوانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ لہٰذا ان کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا۔- (قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ (فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَاط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) - اہل مدین چونکہ کاروباری لوگ تھے لہٰذا ان کے ہاں جو خاص خرابی اجتماعی طور پر پیدا ہوگئی تھی وہ ماپ تول میں کمی کی عادت تھی۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل زمانہ کی جن تین اقوام کا ذکر قرآن میں آیا ہے ‘ یعنی قوم نوح ‘ قوم ہود اور قوم صالح ان میں سوائے شرک کے اور کسی خرابی کی تفصیل نہیں ملتی۔ یعنی اس زمانے تک انسانی تمدن اتنا سادہ تھا کہ ابھی اعمال کی خرابیاں اور گندگیاں رائج نہیں ہوئی تھیں۔ تب تک انسان فطرت کے زیادہ قریب تھا ‘ اس لیے وہ پیچیدگیاں جو تمدن کے پھیلنے کے ساتھ بڑھتی ہیں اور وہ بدعنوانیاں جو اس پیچیدہ زندگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں وہ ابھی ان اقوام کے افراد میں پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جنسی برائیاں سب سے پہلے قوم لوط میں اور مالی بدعنوانیاں سب سے پہلے اہل مدین میں پیدا ہوئیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :69 مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا ۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی ۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی ، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی ، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں ۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے ۔ اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے ، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِدیان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے ۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے ، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا ۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے ۔ اسی طرح مدین کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مدیان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی ، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَدیَن یا مَدیان مشہور ہوگیا ۔ ۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی ۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسی علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بداخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بداخلاقیوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے ، مگر اس کے باوجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر برقرار تھا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :70 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی ۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملات میں بددیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :71 اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ٤٤ ، ٤۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دین حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنمائی قائم ہو چکا تھا ، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بدراہیوں سے خراب نہ کرو ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :72 اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا ۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے معیارِ خیر و شر ان دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: مدین ایک قبیلے کا نام ہے اور اسی کے نام پر ایک بستی بھی ہے جس میں حضرت شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا، ان کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کچھ پہلے کا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر تھے، یہ ایک سرسبز وشاداب علاقہ تھا اور یہاں کے لوگ خاصے خوش حال تھے۔ رفتہ رفتہ ان میں کفر وشرک کے علاوہ بہت سی بد عنوانیاں رواج پاگئیں۔ ان کے بہت سے لوگ ناپ تول میں دھوکا دیتے تھے۔ بہت سے زور آور لوگوں نے راستوں پر چوکیاں بنارکھی تھیں، جو گزرنے والوں سے زبردستی کا ٹیکس وصول کرتے تھے، کچھ لوگ ڈاکے بھی ڈالتے تھے۔ نیز جو لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جاتے نظر آتے، انہیں روکتے اور تنگ کرتے تھے۔ ان کی بد عنوانیوں کا ذکر اگلی دو آیتوں میں آرہا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قوم کے لئے پیغمبر بناکر بھیجا۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ اﷲ تعالیٰ نے تقریر اور خطابت کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، اسی لئے وہ ’’خطیب الانبیاء‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ لیکن ان کی موثر تقریروں کا قوم نے کچھ اثر نہ لیا۔ اور آخر کار وہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنی۔ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کے واقعات سب سے زیادہ تفصیل سے سورۂ ہود (۱۱: ۸۴ تا ۹۵) میں آئے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ تفصیل سورۂ شعراء (۲۶:۱۷۷) اور سورۂ عنکبوت (۲۹:۳۶) میں آئی ہے، اور سورۂ حجر (۷۸:۵۱) میں مختصر حوالہ آیا ہے۔ 42: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ناپ تول میں کمی کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کی حق تلفی کیا کرتی تھی۔ اس آیت میں لفظ ’’بخس‘‘ استعمال کیا گیا ہے، جس کے لفظی معنیٰ کمی کرنے کے ہیں، اور یہ لفظ خاص طور پر کسی کا حق مارلینے کے معنیٰ میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآنِ کریم میں یہ فقرہ تین جگہ بڑی تاکید کے ساتھ آیا ہے، اور اس میں دوسروں کی ملکیت کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ اس احترام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ کسی کے مال یا جائیداد پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کرلیا جائے، اور یہ بھی کہ کسی کی کوئی بھی چیز اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کی جائے۔ 43: اس کی تشریح کیلئے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 56 کا حاشیہ۔