قوم شعیب کی بداعمالیاں فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشت گردی نہ پھیلاؤ ۔ ڈاکہ نہ ڈالو اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کا مال زبردستی نہ چھینو ۔ میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے جو آنا چاہتا ہے اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو ۔ ایمانداروں کو اللہ کی راہ پر چلنے میں روڑے اٹکاتے ہو ۔ راہ حق کو ٹیڑھا کر دینا چاہتے ہو ان تمام برائیوں سے بچو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ظاہر ہے کہ ہر راستے پر نہ بیٹھنے کی ہدایت سے تو قتل و غارت سے روک کے لئے ہو جو ان کی عادت تھی اور پھر راہ حق سے مومنوں کو نہ روکنے کی ہدایت پھر کی ہو ۔ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ گنتی میں قوت میں تم کچھ نہ تھے بہت ہی کم تھے اس نے اپنی مہربانی سے تمہاری تعداد بڑھا دی اور تمہیں زور آور کر دیا رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو ۔ عبرت کی آنکھوں سے ان کا انجام دیکھ لو جو تم سے پہلے ابھی ابھی گذرے ہیں جن کے ظلم و جبر کی وجہ سے جن کی بد امنی اور فساد کی وجہ سے رب کے عذاب ان پر ٹوٹ پڑے ۔ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں رسولوں کے جھٹلانے میں مشغول رہے دلیر بن گئے جس کے بدلے اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوئی ۔ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی باقی نہیں رہی نیست ونابود ہوگئے مر مٹ گئے ۔ دیکھو میں تمہیں صاف بےلاگ ایک بات بتا دوں تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گروہ نے میرا انکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد ربانی کس کا ساتھ دیتی ہے اور اللہ کی نظروں سے کون گر جاتا ہے ؟ تم رب کے فیصلے کے منتظر رہو ۔ وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا اور سچا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تم خود دیکھ لو کہ اللہ والے با مراد ہوں گے اور دشمنان اللہ ناشاد ہوں گے ۔
86۔ 1 اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے جس کے نمونے آجکل کے متجدین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوا ہے۔ یا حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں، یا بعض کے نزدیک محصول اور چونگی وصول کرنے کے لئے ان کے راستوں پر بیٹھنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ سب ہی کچھ کرتے ہوں۔ (فتح القدیر)
[٩٢] ہیرا پھیریوں اور لوٹ مار کی قسمیں :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تجارتی راستوں پر بیٹھ کر ان قافلوں کو لوٹنے کے درپے نہ ہوجاؤ پھر یہ لوٹنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو عام صورت ہے کہ جیسی کوئی رہزن کسی کمزور کا مال چھین لیتا ہے دوسرے تجارتی منڈی میں پہنچنے سے پیشتر اس سے مال کا سودا کرلینا جبکہ اس راہ رو کو منڈی کے بھاؤ کی خبر نہ ہو اس طرح فریب کے ساتھ راہرو سے سستا مال لے لینا بھی لوٹنے کے مترادف ہے اور اس سے رسول اللہ نے سختی سے منع فرمایا ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی سیاسی پوزیشن کی بنا پر ان تاجروں کو بلیک میل نہ کیا کرو۔ - اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نبی پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں ڈراؤ دھمکاؤ نہیں یا ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے نبی کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ میں ٹیڑھ مت پیدا کرو جیسا کہ انبیاء کے مخالفین ہر زمانے میں ایسی حرکتیں کرتے اور چالیں چلتے آئے ہیں چناچہ مشرکین مکہ نے بھی آپ کی راہ روکنے کے لیے ایسے تمام حربے استعمال کیے تھے۔
وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ ۔۔ : یہ لوگ راستوں پر ناکے لگا کر لوگوں سے زبردستی ٹیکس وصول کرتے، کبھی ڈرا دھمکا کر ان کی بےعزتی کرتے اور ان کا سب کچھ ہی چھین لیتے۔ اگر کوئی شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی طرف مائل نظر آتا تو اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتے اور اسلام کے احکام میں طرح طرح کی خرابیاں نکال کر اور شبہات پیدا کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ یہ سیدھا نہیں بلکہ غلط راستہ ہے، جیسا کہ آج کل بھی نام کے وہ مسلمان دانش ور، صحافی، پروفیسر اور حکمران جو کفار سے مرعوب ہیں اسلام کے احکام کو وحشیانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شعیب (علیہ السلام) نے انھیں ان برائیوں سے روکا اور اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا کہ اس نے تمہاری تھوڑی سی نسل کو کس قدر بڑھایا اور انھیں مفسدین کے انجام بد سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔
تیسری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے۔ راستوں سڑکوں پر نہ بیٹھا کرو۔ اس کا مطلب بعض مفسرین نے یہ قرار دیا کہ یہ دونوں جملے ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں کہ یہ لوگ راستوں پر بیٹھ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس آنے والوں کو روکتے اور ڈراتے دھمکاتے تھے اس سے منع کیا گیا۔- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ان کے یہ دو جرم الگ الگ تھے۔ راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ بھی کرتے تھے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ پہلے جملہ میں پہلا مضمون اور دوسرے جملہ میں دوسرا مضمون بیان فرمایا ہے۔ تفسیر بحر محیط وغیرہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کرنے میں اس کو بھی داخل قرار دیا ہے جو خلاف شرع ناجائز ٹیکس وصول کرنے کے لئے راستوں پر چوکیاں بنائی جاتی ہیں۔ - علامہ قرطبی نے فرمایا وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا یعنی تم لوگ اللہ کے راستہ میں کجی کی تلاش میں لگے رہتے ہو کہ کہیں انگلی رکھنے کی جگہ ملے تو اعتراضات و شبہات کے دفتر کھول دیں اور لوگوں کو دین حق سے بیزار کرنے کی کوشش کریں۔- اس کے بعد آیت کے آخر میں فرمایا واذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، اس میں ان لوگوں کی تنبیہ کے لئے ترغیب و ترہیب کے دونوں پہلو استعمال کئے گئے۔ اول تو ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت یاد دلائی کہ تم پہلے اعداد و شمار کے لحاظ سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری نسلیں بڑھا کر ایک بڑی وسیع قوم بنادیا۔ یا مال و سامان کے اعتبار سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرما کر مستغنی کردیا۔ پھر ترہیب کے لئے فرمایا کہ اپنے سے پہلے فساد کرنے والی قوموں کے انجام پر نظر ڈالو کہ قوم نوح قوم عاد وثمود قوم لوط پر کیا کیا عذاب آچکے ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو۔
وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَاۗىِٕفَۃٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللہُ بَيْنَنَا ٠ ۚ وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ ٨٧- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- الحمد لله پاره مکمل هوا
(٨٦۔ ٨٧) اور ہر ایک ایسے راستہ پر جہاں سے لوگوں کا گزر ہوتا ہو اس غرض سے مت بیٹھو کہ ان کو مار کر اور ڈرا کر غربا کے کپڑے چھین کر اور شعیب (علیہ السلام) پر جو ایمان لائے ہیں ان کو دین الہی اور اطاعت الہی سے روک کر اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو اور تعداد میں تم کم تھے ہم نے اس میں زیادتی کردی اور دیکھو کہ تم سے پہلے مشرکوں کا انجام سوائے ہلاکت اور بربادی کے اور کیا ہوا ذرا ٹھہرجاؤ تمہارے درمیان عذاب الہی سے فیصلہ ہوا چاہتا ہے۔
آیت ٨٦ (وَلاَ تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ ) - یعنی وہ لوگ راہزنی بھی کرتے تھے اور تجارتی قافلوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے بھتہ بھی وصول کرتے تھے۔ ان حرکات سے بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا ۔
44: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ اور یہ بھی کہ ان کو خوشحالی زیادہ نصیب ہوئی۔