Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شعیب علیہ السلام کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کر یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں ۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی؟ اگر اللہ کرے ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا ؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعوی کیا تھا ۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے ۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے؟ اس لئے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں ۔ ہر چیز کے آغاز انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے ۔ اے اللہ تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ہماری مدد فرما تو سب حاکموں کا حاکم ہے ، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، عادل ہے ، ظالم نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان اور توحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی یا تو اپنے آبائی مذہب میں واپس آجاؤ نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اہل ایمان کے لئے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا۔ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی ملت ابائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا مذہب ہی سمجھتے تھے کو حقیقتا ایسا نہ ہو۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کرلیا ہو۔ (2) یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لئے اور واو حالیہ ہے۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دوگے دراں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں ؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] سرداران قوم کی دھمکی :۔ جب متکبر سرداروں کے انکار اور ہٹ دھرمی کے باوجود کچھ لوگ سیدنا شعیب پر ایمان لے آئے اور ایسے مومنوں کی ایک کمزور سی جمعیت سامنے آگئی تو سرداروں کی آنکھوں میں یہ لوگ کھٹکنے لگے لہذا انہیں دھمکی دینے پر اتر آئے گویا جس میدان میں عقلی طور پر مات کھاچکے تھے اب ڈنڈے کے زور سے اس مسئلے کو حل کرنے کے درپے ہوئے اور یہی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے انہوں نے کہا شعیب بس دو ہی باتیں ہیں جن میں سے ایک تمہیں بہرحال قبول کرنا پڑے گی یا تو اس نئے دین کی تبلیغ سے باز آؤ اور وہی پرانا دین اختیار کرلو یا پھر ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس آبادی سے نکال دیں گے تمہارے توحید پر قائم رہتے ہوئے یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ “ اسْتَكْبَرُوْا باب استفعال سے ہے، جس کا معنی عموماً طلب ہوتا ہے، یعنی وہ سردار بڑا بننے کے بہت خواہش مند تھے، گویا ان کی طلب ہی یہ تھی۔ - لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ : یعنی انھوں نے صرف جھٹلانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ نہایت بدتمیزی سے نام کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں ہر صورت دو باتوں میں سے ایک اختیار کرنا ہوگی، یا ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے، یا تمہیں پھر سے ہماری ملت، یعنی کفر و شرک میں پلٹنا ہوگا۔ اب تم سوچ لو کہ اپنے لیے ان میں سے کون سی بات پسند کرتے ہو ؟- وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَآ : ” معک “ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس کا تعلق ” آمنوا “ سے ہو، یعنی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، دوسرا یہ کہ اس کا تعلق ” لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ “ کے ساتھ ہو، یعنی تجھے اور تیرے ساتھ ان لوگوں کو بھی نکال دیں گے جو ایمان لائے ہیں۔ ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) نے اس کا تعلق ” لَنُخْرِجَنَّكَ ‘ کے ساتھ قرار دیا ہے۔ - اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا ۭ: ” عَادَ یَعُوْدُ عَوْدًا “ کے معنی کسی چیز کی طرف لوٹ آنے کے ہیں۔ شعیب (علیہ السلام) خود تو کبھی کفر و شرک میں مبتلا نہیں رہے، پھر ان کے دین میں لوٹ آنے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اگلی آیت میں شعیب (علیہ السلام) کے قول ” ا اِنْ عُدْنَا “ (اگر ہم تمہاری ملت میں پھر آجائیں) اور ” اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَآ “ سے یہ اشکال اور قوی ہوجاتا ہے۔ علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، ایک یہ کہ نبوت سے پہلے شعیب (علیہ السلام) اگرچہ کفر و شرک سے اور نبوت کے منصب کے منافی ناپسندیدہ کاموں سے محفوظ تھے، مگر نبوت عطا ہونے سے پہلے عام طور طریقے میں اپنی قوم ہی کے ساتھ تھے۔ البتہ کفر، شرک اور گندے کاموں سے اجتناب کے باوجود مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہتے تھے۔ جس سے ان کی قوم کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے ہی دین پر ہیں۔ اس لیے انھوں نے ” اَوْ لَتَعُوْدُنَّ “ کہہ دیا، ورنہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ یا ان کا مطلب یہ تھا کہ پہلے کی طرح اب بھی خاموش ہوجاؤ، تو ہم تمہیں اپنا ہی سمجھ لیں گے۔ فرمایا، اب ہم پہلے کی طرح نہیں ہوسکتے۔ دوسرا یہ کہ ان کے اکثر ساتھی چونکہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے ان سب کے ساتھ شعیب (علیہ السلام) کو بھی شامل کردیا۔ اسے تغلیب کہتے ہیں، یعنی سب پر وہی الفاظ بول دیے جو اکثر پر صادق آتے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) نے بھی انھی کے لہجہ میں ” اِنْ عُدْنَا “ اور ” اَنْ نَّعُوْدَ “ فرما دیا۔ تیسرا یہ کہ ” عَادَ یَعُوْدُ “ بعض اوقات ” صَارَ یَصِیْرُ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، اسے ” صَیْرُوْرَۃٌ“ کہتے ہیں، یعنی ابتداءً (پہلی بار) کسی چیز کو اختیار کرنا، معنی یہ کہ تم ہمارا دین اختیار کرلو گے۔ - اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ : یعنی اگر ہمیں دونوں باتیں ہی گوارا نہ ہوں تو کیا پھر بھی ہم ایک ضرور اختیار کریں گے، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ سوال درحقیقت انکار کے لیے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے (جو یہ باتیں سنی تو انہوں نے گستاخانہ) کہا کہ اے شعیب (یاد رکھئے) ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (تو البتہ ہم کچھ نہ کہیں گے۔ یہ بات مومنین کے لئے اس لئے کہی کہ وہ لوگ قبل ایمان کے اسی طریق کفر پر تھے لیکن شعیب (علیہ السلام) کے حق میں باوجود اس کے کہ انبیاء سے کبھی کفر صادر نہیں ہوتا اس لئے کہی کہ ان کے سکوت قبل بعثت سے وہ یہ ہی سمجھتے تھے کہ ان کا اعتقاد بھی ہم جیسا ہوگا) شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گے گو ہم (بدلیل و بصیرت) اس کو مکروہ (اور قابل نفرت) ہی سمجھتے ہوں (یعنی جب اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے تو کیسے اس کو اختیار کرلیں) ہم تو اللہ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں اگر (خدا نہ کرے) ہم تمہارے مذہب میں آجائیں (خصوصاً ) بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی ہو (کیونکہ اول تو مطلقاً کفر کو دین حق سمجھنا یہی اللہ پر تہمت لگانا ہے کہ یہ دین معاذ اللہ اللہ کو پسند ہے خصوصاً مومن کا کافر ہونا چونکہ بعد علم و قبول دلیل حق کے ہے اور زیادہ تہمت ہے ایک تو وہی تہمت دوسری وہ تہمت کہ اللہ نے جو مجھ کو دلیل کا علم دیا تھا جس کو میں حق سمجھتا تھا وہ علم غلط دیا تھا اور شعیب (علیہ السلام) نے لفظ عود تو تغلیاً دوسروں کے اعتبار سے یا ان کے گمان کو فرض کرکے یا مشاکلةً برتا) اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے (ہمارے) مقدر (میں) کیا ہو (جس کی مصلحت انہی کے علم میں ہے تو خیر اور بات ہے) ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے (اس علم سے سب مقدرات کے مصالح کو جانتے ہیں مگر) ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں (اور بھروسہ کرکے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہم کو دین حق پر ثبت رکھے اور اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ان کو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین نہ تھا انبیاء کو یہ یقین دیا جاتا ہے بلکہ مقصود اظہار عجز اور تفوض الی المالک ہے جو کہ لوازم کمال نبوت سے ہے اور دوسرے مؤمنین کے اعتبار سے لیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں یہ جواب دے کر جب دیکھا کہ ان سے خطاب کرنا بالکل مؤ ثر نہیں اور ان کے ایمان لانے کی بالکل امید نہیں ان سے خطاب ترک کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری (اس) قوم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے (جو کہ ہمیشہ) حق کے موافق (ہوا کرتا ہے کیونکہ خدائی فیصلہ کا حق ہونا لازم ہے یعنی اب عملی طور پر حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیجئے) اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اور ان کی قوم کے (انہی مذکور) کافر سرداروں نے (شعیب (علیہ السلام) کی یہ تقریر بلیغ سن کر اندیشہ کیا کہ کہیں سامعین پر اس کا اثر نہ ہوجائے اس لیے انہوں نے بقیہ کفار سے) کہا کہ اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راہ چلنے لگو گے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے (دین کا بھی کیونکہ ہمارا مذہب حق ہے حق کو چھوڑنا خسارہ ہے اور دنیا کا بھی اس لئے کہ پورا ناپنے تولنے میں بچت کم ہوگی غرض وہ سب اپنے کفر و ظلم پر جمے رہے اب عذاب کی آمد ہوئی) پس ان کو زلزلے نے پکڑا سو اپنے گھر میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کو آمادہ تھے خود) ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی (اور ان کے اتباع کرنے والے کو خاسر بتلاتے تھے خود) وہی خسارہ میں پڑگئے اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور (بطور حسرت کے فرضی خطاب کرکے) فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے (جن پر عمل کرنا ہر طرح کی فلاح کا سبب تھا) اور میں نے تمہاری (بڑی) خیر خواہی کی (کہ کس کس طرح سمجھایا گیا مگر افسوس تم نے نہ مانا اور یہ روز بد دیکھا پھر ان کے عناد و کفر وغیرہ کو یاد کرکے فرمانے لگے کہ جب انہوں نے اپنے ہاتھوں یہ مصیبت خریدی تو) پھر میں ان کافر لوگوں (کے ہلاک ہونے) پر کیوں رنج کروں۔- معارف و مسائل - شعیب (علیہ السلام) سے جب ان کی قوم نے یہ کہا کہ اگر آپ حق پر ہوتے تو آپ کے ماننے والے پھلتے پھولتے اور نہ ماننے والوں پر عذاب آتا مگر ہو یہ رہا ہے کہ دونوں فریق برابر درجہ میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں تو ہم آپ کو کیسے سچا مان لیں۔ اس پر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جلد بازی نہ کرو عنقریب اللہ تعالیٰ ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ فرما دیں گے۔ اس پر قوم کے متکبر سرداروں نے وہی بات کہی جو ہمیشہ ظالم متکبر کہا کرتے ہیں کہ اے شعیب یا تو تم اور جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں وہ سب ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ، ورنہ ہم تم سب کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔- ان کے مذہب میں واپس آنا قوم شعیب (علیہ السلام) کے مؤمنین کے متعلق تو اس لئے صادق ہے کہ وہ سب سے پہلے انھیں کے مذہب اور طریقہ پر تھے۔ پھر شعیب (علیہ السلام) کی دعوت پر مسلممان ہوئے۔ مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) تو ایک دن بھی ان کی باطل مذہب و طریقہ پر نہ رہے تھے اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کا پیغمبر کبھی کسی مشرکانہ باطل مذہب کی پیروی کرسکتا ہے تو پھر ان کے لئے یہ کہنا کہ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ غالباً اس وجہ سے تھا کہ نبوت عطا ہونے سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) ان لوگوں کے باطل اقوال و اعمال پر سکوت فرماتے تھے اور قوم کے اندر گھل مل کر رہتے تھے ان کے سبب ان کا خیال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں بھی یہ تھا کہ وہ بھی ہمارے ہی ہم خیال اور ہمارے مذہب کے پیرو ہیں۔ دعوت ایمان کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ان کا مذہب ہم سے مختلف ہے اور خیال کیا کہ یہ ہمارے مذہب سے پھرگئے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ ، یعنی کیا تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے مذہب کو ناپسند اور باطل سمجھنے کے باوجود ہم تمہارے مذہب میں داخل ہوجائیں اور مراد اس سے یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک پہلی آیت کا مضمون ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللہِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللہُ مِنْہَا۝ ٠ ۭ وَمَا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْہَآ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّنَا۝ ٠ ۭ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٠ ۭ عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا۝ ٠ ۭ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ۝ ٨٩- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56]- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراخ ہے ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- فتح ( فيصله)- ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89]- کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨۔ ٨٩) کافر اور منکر سردار بولے ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے ورنہ ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔- حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہو ہم تو اسے قابل نفرت سمجھتے ہیں باوجود یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین سے نجات دی ہے اگر ہم پھر اس دین میں آجائیں، تو ہم اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوں گے۔- ہمارے لیے تو یہ ہرگز جائز نہیں کہ ہم تمہارے مشرکانہ دین کو اختیار کرلیں، الایہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے معرفت ایمانی کو نکال لے۔- ہمارے رب کا علم ہر ایک شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے ہمارے پروردگار بس حق کے موافق فیصلہ کردیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاط - (قَالَ اَوَلَوْ کُنَّا کٰرِہِیْنَ ) - حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے متکبر سرداروں نے آپ ( علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ماننے والوں سے کہا کہ اگر تم لوگ ہمارے ہاں امن اور چین سے رہنا چاہتے ہو تو تمہیں ہمارے ہی طور طریقوں اور رسم و رواج کو اپنانا ہوگا ‘ بصورت دیگر ہم تم لوگوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم لوگ زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس پھیر لو گے جبکہ ہم تو ان طور طریقوں سے نفرت کرتے ہیں

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani