Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ادوارماضی اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں ، فقیری ، مفلسی ، تنگی ۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں ۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں ۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا ، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقہ دیا ۔ سختی کو نرمی سے ، برائی کو بھلائی سے ، بیماری کو تندرستی سے ، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا ، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے ، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں ۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی ۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے ۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں ۔ مصیبت پر صبر ، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کیلئے بہتر ہوتی ہیں ۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے ، انجام بہتر ہوتا ہے ، سکھ پر شکر کرتا ہے ، نیکیاں پاتا ہے ، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ ( اوکمال قال ) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا یہ محض بےخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 مطلب یہ کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا انہوں اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کردیا جس سے مقصد یہ تھا کہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگا میں گڑگڑائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] اس سورة کی آیت نمبر ٥٩ سے لے کر آیت نمبر ٩٣ تک چار رکوعوں میں پانچ مشہور و معروف انبیاء سیدنا نوح (علیہ السلام) سیدنا ہود (علیہ السلام) سیدنا صالح (علیہ السلام) سیدنا لوط (علیہ السلام) اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کا اور ان کی طرف سے دعوت، منکرین کی مخالفت ان کے سوال و جواب اور بالآخر ان معاندین کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے یہ سورة اعراف مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب اسی قسم کے یا ان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے مشرکین مکہ کی طرف سے مخالفت اور معاندانہ سرگرمیاں، دھمکیاں ظلم، تشدد اور اسلام کی راہ روکنے کے تقریباً وہی طریقے اختیار کیے جا رہے تھے جو ان انبیاء سے پیش آ چکے تھے یہاں انبیاء کے یہ حالات بیان کرنے سے مقصد یہ تھا کہ ایک تو آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن مخالفین کی ایسی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان لوگوں کے مظالم سے نجات دے دیتے ہیں اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔- دنیوی عذاب سے متعلق اللہ کا ضابطہ :۔ مذکورہ بالا انبیاء کا الگ الگ اور تفصیلی ذکر کرنے کے بعد نبوت کی دعوت اور اس دعوت کے عواقب کا اجمالی ذکر فرمایا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کا ضابطہ بیان فرمایا کہ جب بھی کوئی نبی کسی بستی میں بھیجا جاتا ہے اور وہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس دعوت کی مخالفت کی جاتی ہے اور اکثر لوگ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو ہم ان منکرین پر ہلکے ہلکے عذاب بھیج دیتے ہیں۔ مثلاً قحط اور خشک سالی کا عذاب یا کسی وبا اور بیماری کا عذاب یا معمولی قسم کے زلزلے یا سیلاب کا عذاب اور یہ عذاب ان لوگوں کو تنبیہ کے طور پر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں پھر جب وہ ان تنبیہات کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے تو پھر ہم انہیں خوشحالی کی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، ان کی افرادی قوت بھی بڑھ جاتی ہے، مال و دولت میں فراوانی ہوجاتی ہے اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگتے ہیں تو انہیں پہلے کے چھوٹے چھوٹے عذاب اللہ کی طرف سے کوئی تنبیہ محسوس ہی نہیں ہوتے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اچھے اور برے دنوں کا انبیاء کی دعوت کو قبول یا رد کرنے سے کیا تعلق ہے یہ تو سب اتفاقات زمانہ یا گردش ایام کا نتیجہ ہے اور ایسے اچھے اور برے دنوں سے ہمارے آباو اجداد بھی دو چار ہوتے رہے ہیں جب ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی بھی حالت میں اللہ کی گرفت کا خطرہ محسوس نہیں ہوتا اور دنیا میں مست اور مگن ہوجاتے ہیں تو یہی وقت ہمارے عذاب کا ہوتا ہے اور ہمارا عذاب اس طرح یکدم ان پر آن پڑتا ہے کہ کسی کو اس طرح عذاب آجانے کا پہلے احساس تک نہیں ہونے پاتا۔- قریش مکہ پر قحط کا عذاب :۔ ایسا ہی ایک ہلکا عذاب قریش مکہ پر بھی بطور تنبیہ آیا تھا جس کا ذکر سورة دخان میں موجود ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جب قریش مکہ کی معاندانہ سرگرمیاں حد سے بڑھ گئیں تو آپ نے ان کے حق میں بددعاء فرمائی کہ یا اللہ ان پر سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔ چناچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور مکہ میں ایسا قحط پڑا جس میں یہ معززین قریش مردار، ہڈیاں اور چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوگئے باہر سے بھی کہیں سے غلہ نہیں پہنچ رہا تھا اور ان لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ جب آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ قحط سے تنگ آ کر ان لوگوں نے ابو سفیان کو آپ کے پاس بھیجا اور اس نے آ کر آپ سے درخواست کی کہ آپ تو کہتے ہیں کہ میں رحمت ہوں جبکہ آپ کی قوم خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہے ہم آپ کو رحم اور قرابت کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس قحط کے دور ہونے کی دعا کیجئے اور اگر یہ مصیبت دور ہوگئی تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چناچہ آپ کی دعا سے بارش ہوگئی اتفاق سے باہر سے غلہ آنا بھی شروع ہوگیا پھر جب حالات میں تبدیلی آگئی تو ان متعصب لوگوں کے دل پھر برگشتہ ہونے لگے پھر سرداران قوم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ زمانے میں ایسے اتار چڑھاؤ پہلے بھی آتے رہتے ہیں اگر اس مرتبہ قحط پڑگیا تو یہ کون سی نئی بات ہے لہذا ایسی چیزوں سے متاثر ہو کر اپنے دین کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ واقعہ بخاری میں بھی عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے کئی مقامات پر مذکور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ ۔۔ : اس سے پہلے بعض انبیاء، نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب (علیہ السلام) کے اپنی اقوام کے ساتھ گزرے ہوئے چند واقعات کے ذکر کے بعد اور آگے موسیٰ (علیہ السلام) کے فرعون اور بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے مفصل واقعات سے پہلے درمیان میں مختصر طور پر تمام انبیاء اور ان کی اقوام کا ذکر فرمایا۔ مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا اور کفار کو خبردار کرنا ہے۔ - بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ ” بِالْبَاْسَاۗءِ “ سے مراد اموال میں پہنچنے والی مصیبت، مثلاً فقر و فاقہ اور قحط وغیرہ اور ”‘ وَالضَّرَّاۗءِ سے مراد انسانی بدن کو نقصان پہنچانے والی اشیاء، مثلاً بیماری، مصائب اور جنگ وغیرہ۔- لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ‘: یعنی جب بھی ہم نے کسی بستی کی طرف کوئی نبی بھیجا اور وہ اس پر ایمان نہ لائے تو ہم نے ان کی نصیحت کے لیے بڑے عذاب سے پہلے کم تر عذاب بھیجے جو جنگ، تنگ دستی، قحط یا بیماری اور دوسرے مصائب کی صورت میں تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی شامت اعمال سے آگاہ ہو کر ہمارے سامنے عجز کا اظہار کریں اور سیدھی راہ پر آجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) [ السجدۃ : ٢١] ” اور یقیناً ہم انھیں قریب عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (ان مذکورہ اور بھی دوسری بستیوں میں سے) کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو (اس نبی کے نہ ماننے پر اول اول تنبیہ نہ کی ہو اور تنبیہ کی غرض سے ان کو) ہم نے محتاجی اور بیماری میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ ڈھیلے پڑجائیں ( اور اپنے کفر و تکذیب سے توبہ کریں) پھر (جب اس سے متنبہ نہ ہوئے تو استدراجا یا اس غرض سے کہ مصیبت کے بعد جو نعمت ہوتی ہے اس کی زیادہ قدر ہوتی اور نعمت دینے والے کی آدمی بالطبع اطاعت کرنے لگتا ہے) ہم نے اس بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی یہاں تک کہ ان کو (غنی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد میں) خوب ترقی ہوئی اور ( اس وقت براہ کج فہمی) کہنے لگے کہ (وہ پہلی مصیبت ہم پر کفر و تکذیب کے سبب نہ تھی ورنہ پھر خوش حالی کیوں ہوتی بلکہ یہ اتفاقات زمانہ سے ہے چنانچہ) ہمارے آباء و اجداد کو بھی ( یہ دو حالتیں کبھی) تنگی اور (راحت پیش آئی تھیں (اسی طرح ہم پر یہ حالتیں گزر گئیں جب وہ اس بھول میں پڑگئے) تو (اس وقت) ہم نے ان دفعة ( عذاب مہلک میں) پکڑ لیا اور ان کو (اس عذاب کے آنے کی) خبر بھی نہ تھی ( یعنی گو ان کو انبیاء نے خبر کی تھی مگر چونکہ وہ اس خبر کو غلط سمجھتے تھے اور عیش و آرام میں بھولے ہوئے تھے اس لئے ان کو گمان نہ تھا) اور ( ہم نے جو ان کو عذاب مہلک میں پکڑا تو اس کا سبب صرف ان کا کفر اور مخالفت تھی ورنہ) اگر ان بستیوں کے رہنے والے ( پیغمبروں پر) ایمان لے آتے اور ( ان کی مخالفت سے) پرہیز کرتے تو ہم ( بجائے ارضی و سماوی آفات کے) ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے ( یعنی آسمان سے بارش اور زمین سے پیداوار ان کو برکت کے ساتھ عطا فرماتے اور گو اس ہلاکت سے پہلے ان کو خوش حالی ایک حکمت کے لئے دی گئی لیکن اس خوش حالی میں اس لئے برکت نہ تھی کہ آخر وہ وبال جان ہوگئی بخلاف ان نعمتوں کے جو ایمان و اطاعت کے ساتھ ملتی ہیں کہ ان میں یہ خیروبرکت ہوتی ہے کہ وہ وبال کبھی نہیں ہوتیں نہ دنیا میں نہ آخرت میں، حاصل یہ کہ اگر وہ ایمان وتقوی اختیار کرتے تو ان کو بھی یہ برکتیں دیتے) لیکن انہوں نے تو ( پیغمبروں کی) تکذیب کی تو ہم نے (بھی) ان کے اعمال (بد) کی وجہ سے ان کو عذاب مہلک میں پکڑ لیا (جس کو اوپر اخذنھم بغتة سے تعبیر فرمایا ہے۔ آگے کفار موجودین کو عبرت دلاتے ہیں) کیا (ان قصص کو سن کر) پھر بھی ان (موجودہ) بستیوں کے رہنے والے (جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور نبوت میں موجود ہیں) اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر (بھی) ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ پڑے سوتے ہوں اور کیا ان (موجودہ) بستیوں کے رہنے والے (باوجود کفرو تکذیب کے جو کہ کفار سابقین کی طرح) ان پر ہمارا عذاب دن دوپہر آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے لایعنی قصوں میں مشغول ہوں (مراد اس سے دنیوی کاروبار ہیں) ہاں تو کیا اللہ تعالیٰ کی اس (ناگہانی) پکڑ سے (جس کا اوپر بیان ہوا ہے) بےفکر ہوگئے سو (سمجھ رکھو کہ) اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بجز انکے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا۔- معارف و مسائل - پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کی تاریخ اور ان کے عبرتناک حالات و واقعات میں سے جن کا سلسلہ کئی رکوع پہلے سے چل رہا ہے، یہاں تک پانچ حضرات انبیاء کے قصص کا بیان ہوا ہے، چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل کا ہے جو تفصیل کے ساتھ نو آتیوں کے بعد آنے والا ہے۔ - یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ قرآن کریم تاریخ عالم اور اقوام عالم کے حالات بیان کرتا ہے مگر اسلوب بیان یہ رہتا ہے کہ عالم تاریخی کتابوں اور قصے کہانیوں کی کتابوں کی طرح کسی قصہ کو ترتیب اور تفصیل کے ساتھ لانے کے بجائے ہر مقام کے مناسب کسی قصہ کا ایک حصہ بیان کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ اس سے حاصل ہونے والے عبرت آموز نتائج ذکر کئے جاتے ہیں، اسی طریق پر یہاں ان پانچ قصوں کے بیان کے بعد ان آیات میں جو اوپر لکھی گئی ہیں کچھ تنبیہات مذکور ہیں۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ قوم نوح (علیہ السلام) اور عاد وثمود کے ساتھ جو واقعات پیش آئے وہ کچھ ان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ شانہ کی عام عادت یہی ہے کہ قوموں کی ہدایت اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجتے ہیں، جو لوگ ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرتے تو اول ان کو دنیا کی مصائب و تکالیف میں مبتلا کردیا جاتا ہے تاکہ تکلیف و مصیبت ان کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیں کیونکہ انسان کو فطرة مصیبت کے وقت خدا ہی یاد آتا ہے، اور یہ ظاہری تکلیف و مصیبت درحقیقت رحمن و رحیم کی رحمت و عنایت ہوتی ہے جیسا مولانا رومی نے فرمایا ہے خلق را باتو چنین بدخوکنند تا ترا ناچار رو آنسو کنند - آیت مذکورہ میں اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ کا یہی مطلب ہے بؤس اور باساء کے معنی فقر و فاقہ اور ضر و ضراء کے معنی بیماری و مرض کے آتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جابجا اسی معنی میں آیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں، بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ بؤس اور باساء مالی نقصان کے لئے بولا جاتا ہے اور ضر و ضراء جانی نقصان کے لئے، اس کا حاصل بھی یہی ہے۔ - مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب کبھی ہم کسی قوم کی طرف اپنے رسول بھیجتے ہیں اور ان کی بات نہیں مانتے تو ہماری عادت یہ ہے کہ اول ان کو دنیا ہی میں مالی اور جانی تنگی و بیماری وغیرہ میں مبتلا کردیتے ہیں تاکہ وہ کچھ ڈھیلے ہوجائیں اور انجام پر نظر کرکے اللہ کی طرف رجوع ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَضَّرَّعُوْنَ۝ ٩٤- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- سراء، ضراء - والنعماء والضراء قيل انها مصادر بمعنی المسرة والنعمة والمضرة والصواب انها أسماء للمصادر ولیست أنفسها فالسراء الرخاء والنعماء النعمة والضراء الشدة فهي أسماء لهذه المعاني فإذا قلنا إنها مصادر کانت عبارة عن نفس الفعل الذي هو المعنی وإذا کانت أسماء لها کانت عبارة عن المحصّل لهذه المعاني .- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٤۔ ٩٥) جن بستی والوں کو ہم نے ہلاک کیا ہے، ہلاک کرنے سے پہلے خوف ومصیبت اور بیماریوں اور بھوک کی تکالیف میں گرفتار کیا تاکہ وہ ایمان لے آئیں مگر وہ ایمان نہیں لائے، پھر ہم نے اس قحط وشدت کو بہار اور فراخی و خوشحالی کے ساتھ بدل دیا تاآنکہ ان کو احوال واولاد میں خوب ترقی ہوئی تو وہ کہنے لگے جس طرح ہمیں خوشحالی پیش آئی اسی طرح ہمارے آباؤاجداد کو بھی پیش آئی مگر وہ دین پر جمے رہے۔ لہذا ہم بھی ان کی تقلید کرتے ہیں، نتیجتا ان کو اچانک عذاب نے آگھیرا اور ان کو نزول عذاب کا پتہ ہی نہ چلا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ الآَّ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ) - یہ اللہ کے ایک خاص قانون کا تذکرہ ہے ‘ جس کے بارے میں ہم سورة الانعام (آیات ٤٢ تا ٤٥) میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی کسی قوم کی طرف کسی رسول کو بھیجا جاتا تو اس قوم کو سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے ان کے لیے رسول کی دعوت کو قبول کرنے کا ماحول پیدا کیا جاتا۔ کیونکہ خوشحالی اور عیش کی زندگی گزارتے ہوئے انسان ایسی کوئی نئی بات سننے کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے ‘ البتہ اگر انسان تکلیف میں مبتلا ہو تو وہ ضرور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لہٰذا کسی رسول کی دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی اس قوم پر زندگی کے حالات تنگ کردیے جاتے تھے ‘ لیکن اگر وہ لوگ اس کے باوجود بھی ہوش میں نہ آتے ‘ اپنی ضد پر اڑے رہتے ‘ اور رسول کی دعوت کو رد کرتے چلے جاتے ‘ تو ان پر سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دور کر کے ان کو غیرمعمولی آسائشوں اور نعمتوں سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا ڈھیل دینے کا ایک انداز ہے کہ اب اس قوم نے برباد تو ہونا ہی ہے مگر آخری انجام کو پہنچنے سے پہلے ان کی نافرمانی کی آخری حدود دیکھ لی جائیں کہ اپنی اس روش پر وہ کہاں تک جاسکتے ہیں۔ یہ ہے وہ قانون یا اللہ کی سنت ‘ جس پر ہر رسول کے آنے پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے۔ سورة السجدہ میں اس قانون کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے : (وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) اور ہم انہیں مزا چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے شاید کہ یہ رجوع کریں۔ بڑا عذاب تو عذاب استیصال ہوتا ہے جس کے بعد کسی قوم کو تباہ و برباد کر کے نسیاً منسیا کردیا جاتا ہے۔ اس بڑے عذاب کی کیفیت مکی سورتوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا ج) (الاعراف : ٩٢ ‘ اور سورة ہود : ٦٨ ‘ ٩٥) وہ لوگ ایسے ہوگئے جیسے وہاں بستے ہی نہیں تھے۔ (فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط ) ( الانعام : ٤٥) پس ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ (لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْط ) ( الاحقاف : ٢٥) اب صرف ان کے مسکن ہی نظر آ رہے ہیں۔ یعنی عذاب استیصال کے بعد اب ان کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے عالیشان محل تو نظر آ رہے ہیں ‘ لیکن ان کے مکینوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا ۔۔ قانون قدرت کے تحت اس نوعیت کے عذاب الاکبر سے پہلے چھوٹی چھوٹی تنبیہات آتی ہیں تاکہ لوگ خواب غفلت سے جاگ جائیں ‘ ہوش میں آجائیں ‘ استکبار کی روش ترک کر کے عاجزی اختیار کریں اور رجوع کر کے عذاب استیصال سے بچ سکیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49:: بتایا یہ جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کیا انہیں (معاذاللہ) جلدی سے غصے میں آکر ہلاک نہیں کردیا، بلکہ انہیں سالہا سال تک راہ راست پر آنے کے بہت سے مواقع فراہم کئے، اول تو پیغمبر بھیجے جو انہیں برسوں تک ہوشیار کرتے رہے، پھر شروع میں انہیں کچھ معاشی بدحالی یا بیماریوں وغیرہ کی مصیبتوں سے دوچار کیا تاکہ ان کے دل کچھ نرم پڑیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تنگی ترشی میں بعض اوقات حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے، جب ایسے حالات میں پیغمبر ان کو متنبہ کرتے ہیں کہ ذرا سنبھل جاؤ ابھی اللہ تعالیٰ نے ایک اشارہ دیا ہے، جو کسی وقت باقاعدہ عذاب میں تبدیل ہوسکتا ہے تو بعض لوگوں کے دل پسیج جاتے ہیں، دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان پر خوش حالی آتی ہے تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اس وقت حق بات کو قبول کرنے کے لئے نسبۃً زیادہ آمادہ ہوجاتے ہیں، چنانچہ ان لوگوں کو بدحالی کے بعد خوش حالی کی نعمت بھی عطا کی جاتی ہے ؛ تاکہ وہ شکر گزار بن سکیں، حالات کی اس تبدیلی سے بعض لوگ بیشک سبق لے لیتے ہیں اور راہ راست پر آجاتے ہیں، لیکن کچھ ضدی طبیعت کے لوگ ان باتوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ دکھ سکھ اور سرد گرم حالات توہمارے باپ داداؤں کو بھی پیش آچکے ہیں، انہیں خوامخواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارہ قرار دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح جب ان لوگوں پر ہر طرح کی حجت تمام ہوچکی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آتا ہے اور اس طرح پکڑلیتا ہے کہ ان کو پہلے سے اندازہ بھی نہیں ہوتا۔