Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان فرمایا کہ ایمان وتقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنالیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سے بارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہو کر خوب پیداوار دیتی جس سے خوش حالی و فروانی ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راست اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہوتا کہ شب و روز کی کس گھڑی میں عذاب آجائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈرات بنا کر رکھ دیے اس لئے اللہ کی ان تدبیروں سے بےخوف نہیں ہونا چاہیئے۔ اس بےخوفی کا نتیجہ سوائے خسارے اور کچھ نیں۔ مَکْر، ُ کے مفہوم کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة آل عمران آیت، 54 کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] اوصاف ذمیمہ کی نسبت اللہ کی طرف کیسے ؟ یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے مکر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ایسے الفاظ مشاکلہ کی صورت میں عربی زبان میں عام مستعمل ہیں۔ مثلاً برائی کا رد عمل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اسے بھی برائی کا نام دیا جائے گا۔ جیسے (جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا 27؀) 10 ۔ یونس :27) منافقوں اور کافروں کے مکر کا ردعمل یا جو سزا انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی اسے بھی مکر ہی کا نام دیا جائے گا ایسے مقامات پر سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ایسے الفاظ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے مورد الزام صرف کافر، مشرک اور منافق وغیرہ ہی ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کے مکر (خفیہ تدبیر) سے مراد کسی شخص کے خلاف ایسی خفیہ تدبیر کرنا ہے کہ جب تک وہ عین اس کے سر پر نہ پہنچ جائے اسے کوئی ہوش نہ آئے اور نہ کچھ پتا ہی چلے کہ اس کی شامت آنے والی ہے، یہ خفیہ تدبیر چونکہ کافروں کے مکر و فریب کے جواب میں ہوتی ہے یا اس کی سزا دینے کے لیے کی جاتی ہے، اس لیے اسے بھی بطور مجانست ” مکر “ کہہ دیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝ ٠ ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ ٩٩ ۧ- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :78 اصل میں لفظ مَکر استعمال ہوا ہے جس کے معنی عربی زبان میں خفیہ تدبیر کے ہیں ، یعنی کسی شخص کے خلاف ایسی چال چلنا کہ جب تک اس پر فیصلہ کن ضرب نہ پڑ جائے اس وقت تک اسے خبر نہ ہو کہ اس کی شامت آنے والی ہے ، بلکہ ظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے وہ یہی سمجھتا رہے کہ سب اچھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

51: یہاں اصل لفظ‘‘ مکر ’’ ہے جس کے معنی عربی میں ایسی خفیہ تدبیر کے ہوتے ہیں جسکا مقصد وہ شخص نہ سمجھے جس کے خلاف وہ کاروائی کی جارہی ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کے باوجود دنیا میں خوش حالی اور ظاہری خوشیاں عطا فرماتے ہیں، جسکا مقصد انہیں ڈھیل دینا ہوتا ہے، پھر جب وہ اپنی بد عملی میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں توان کو ایک دم سے پکڑ میں لے لیا جاتا ہے، لہذا عیش وعشرت کے عالم میں بھی انسان کو اپنے اعمال سے غافل ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے ؛ بلکہ اپنی اصلاح کی فکر کرتے رہنا چاہئے اور یہ خطرہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر ہم راہ راست سے بھٹکے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل بھی ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔