گناہوں میں ڈوبے لوگ؟ ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا ۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى ١٢٨ۧ ) 20-طه:128 ) یعنی کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں ۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لئے بہت سی عبرتیں تھیں اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آنے کا ہی نہیں حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کر دیئے گئے تھے ۔ خالی گھر رہ گئے ۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا 74 ) 19-مريم:74 ) ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دیں نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے ، مال دار تھے ، عیش و عشرت میں تھے ، راحت و آرام میں تھے ، اوپر سے ابر برستا تھا نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہوگئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے ۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں ، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا ۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ حالانکہ دنیوی و جاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ ، کان ، ھاتھ سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے ، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے ۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو ۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو ۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے ۔ زمین میں چل پھر کر ، آنکھیں کھول کر ، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو ۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بیکار ہوں ۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا ۔ ایسے گھیرے آگئے کہ ایک بھی نہ بچا ۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں ، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے ۔
100۔ 1 یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، پر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے، دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کردیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی حق کی آواز کے لئے ان کے کان بھی بند ہوجاتے ہیں پھر واعظ و نصیحت ان کے لئے بیکار ہوجاتے ہیں۔ آیت میں ہدایت تبیین (وضاحت) کے معنی میں ہے اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔
[١٠٤] یعنی اگر وہ چاہتے تو اپنی پیش رو قوم کے انجام سے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور یہ بات وہ خوب سمجھ سکتے تھے کہ جن جرائم کی پاداش میں پہلی قومیں ہلاک کی گئی ہیں اگر ہم میں بھی وہ جرائم پائے جائیں تو ہم پر بھی ویسی ہی مصیبت نازل ہوسکتی ہے اور ہمارے دلوں پر بھی ایسی ہی مہر لگ سکتی ہے جب ہمارے کان کوئی ہدایت کی بات سننے پر آمادہ ہی نہ ہوں۔
اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ ۔۔ : یعنی کیا بعد میں آنے والوں کو پہلوں کے حالات سن اور دیکھ کر یہ بات واضح طور پر معلوم نہیں ہوئی اور انھیں اس سے رہنمائی حاصل نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کی طرح ان کو بھی ان کے گناہوں میں پکڑ لیں۔ - وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ : یعنی ہم ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں تو وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے، آخر کار اللہ کا عذاب آتا ہے اور وہ بھی تباہ کردیے جاتے ہیں۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں کہ اس فقرے کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب اسے ” ُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ“ پر معطوف نہ مانا جائے (بلکہ نیا کلام مانا جائے) اور اگر اسے ” ُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ“ پر معطوف مانا جائے ( اور ہمارے خیال میں زیادہ صحیح یہی ہے) تو ترجمہ یوں ہوگا :” اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ پھر وہ نصیحت کی کوئی بات نہ سن سکیں۔ “ مگر ابن عاشور صاحب ” التحریر والتنویر “ اور محیی الدین الدرویش صاحب ” اعراب القرآن “ نے اس معنی کی تردید کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا عطف ” بذنوبھم “ پر مانا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے دل پر مہر کردیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک مہر نہیں لگائی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، اس لیے ” وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ “ نیا کلام ہے، اس کا عطف ” بذنوبھم “ پر درست نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کے کسی حصے میں آباد فرماتا ہے انھیں ہر آن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور یہ جانتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے کہ اگر ظلم و فساد کا ارتکاب کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی اسی طرح تباہ کر دے گا جس طرح اس نے پہلی امتوں کو تباہ کردیا۔ پہلی امتوں پر جو تباہی آئی وہ ناگہانی حادثہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزا تھی۔
خلاصہ تفسیر - (آگے اس کی علت بتلاتے ہیں کہ ان کو عذاب سے کیوں ڈرنا چاہئے، اور علت ان کا امم سابقہ کے ساتھ جرم کفر میں شریک ہونا ہے یعنی) اور ان (گذشتہ) زمین پر رہنے والوں کے بعد جو لوگ (اب) زمین پر بجائے ان کے رہتے ہیں کیا ان واقعات مذکورہ نے ان کو یہ بات ( ہنوز) نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کو (بھی مثل امم سابقہ کے) ان کے جرائم (کفر تکذیب) کے سبب ہلاک کر ڈاتے ( کیونکہ) امم سابقہ ان ہی جرئم کے سبب ہلاک کی گئی) اور ( واقعی یہ واقعات تو ایسے ہی ہیں کہ ان سے سبق لینا چاہئے تھا لیکن اصل یہ ہے کہ) ہم ان کے دلوں پر بند لگائے ہوئے ہیں اس سے وہ حق بات کو دل سے) سنتے ( بھی) نہیں (اور ماننا تو درکنار رہا، پس اس بند لگانے سے ان کی قساوت بڑھ گئی کہ ایسے عبرت خیز واقعات سے بھی عبرت نہیں ہوتی اور اس بند لگانے کا سبب انہی کا ابتداء میں کفر کرنا ہے، لقولہ تعالیٰ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ ۔ آگے شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے سارے مضمون مذکور کا خلاصہ ہے کہ) ان (مذکورہ) بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب (بستیوں میں رہنے والوں) کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے تھے ( مگر) پھر (بھی ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی یہ کیفیت تھی کہ) جس چیز کو انہوں نے اول ( وہلہ) میں (ایک بار) جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے ( اور جیسے یہ دل کے سخت تھے) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگادیتے ہیں اور ( ان میں سے بعضے لوگ مصیبتوں میں ایمان لانے کا عہد بھی کرلیتے تھے لیکن) اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھا ( یعنی زوال مصیبت کے بعد پھر ویسے کے ویسے ہی ہوجاتے تھے) اور ہم نے اکثر لوگوں کو ( باوجود ارسال رسل و اظہار معجزات ونزول بینات و توثیق معاہدات) بےحکم ہی پایا ( پس کفار ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتے رہے ہیں، آپ بھی غم نہ کیجئے ) ۔- معارف ومسائل - آیات مذکورہ میں بھی پچھلی قوموں کے واقعات و حالات سنا کر موجودہ اقوام عرب وعجم کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان واقعات میں تمہارے لئے بڑا درس عبرت ہے کہ جن کاموں کی وجہ سے پچھلے لوگوں پر اللہ کا غضب اور عذاب نازل ہوا ان کے پاس نہ جائیں اور جن کاموں کی وجہ سے انبیاء علیھم السلام اور ان کے متبعین کو کامیابی حاصل ہوئی ان کو اختیار کریں۔ چناچہ پہلی آیت میں ارشاد ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَآ اَنْ لَّوْ نَشَاۗءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ، ھدی یھدی کے معنی نشان دہی کرنے اور بتلانے کے آتے ہیں، اس جگہ اس کا فاعل وہ واقعات ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، معنی یہ ہیں کہ موجودہ زمانہ کے لوگ جو پچھلی قوموں کے ہلاک ہونے کے بعد ان کی زمینوں مکانوں کے وارث بنے یا آئندہ بنیں گے کیا ان کو پچھلے عبرتناک واقعات نے یہ نہیں بتلایا کہ کفر و انکار اور احکام خداوندی کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں جس طرح ان کے مورث اعلی (یعنی پچھلی قومیں) ہلاک و برباد ہوچکی ہیں اسی طرح اگر یہ بھی انہیں جرائم کے مرتکب رہے تو ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا قہر و عذاب آسکتا ہے۔- اس کے بعد فرمایا وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ، طبع کے معنی چھاپنے اور مہر لگانے کے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ واقعات ماضیہ سے بھی کوئی عبرت اور ہدایت حاصل نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غضب الہی سے ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ کچھہ نہیں سنتے، حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب کوئی انسان پہلے پہل گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک نقطہ سیاہی کا لگ جاتا ہے، دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا اور تیسرا گناہ کرتا ہے تو تیسرا نقطہ لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ برابر گناہوں میں بڑھتا گیا توبہ نہ کی تو یہ سیا ہی کے نقطے اس کے سارے قلب کو گھیر لیتے ہیں اور انسان کے قلب میں اللہ تعالیٰ نے جو فطری مادہ بھلے برے کی پہچان اور برائی سے بچنے کا رکھا ہے وہ فنا یا مغلوب ہوجاتا ہے، اور اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی چیز کو برا اور بری کو اچھا، مفید کو مضر اور مضر کو مفید خیال کرنے لگتا ہے، اسی حالت کو قرآن میں دان یعنی قلب کے زنگ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اسی حالت کا آخری نتیجہ وہ ہے جس کو طبع یعنی مہر لگانے سے اس آیت میں اور بہت سی دوسری آیات میں تعبیر کیا گیا ہے۔- یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ دل پر مہر لگ جانے کا نتیجہ تو عقل وفہم کا معدوم ہوجانا ہے، کانوں کی سماعت پر تو اس کا کوئی اثر عادة نہیں ہوا کرتا، تو اس آیت میں موقع اس کا تھا کہ اس جگہ فھم لا یفقھون فرمایا جاتا یعنی وہ سمجھتے نہیں، مگر قرآن کریم میں یہاں فھم لایسمعون آیا ہے یعنی وہ سنتے نہیں۔ سبب یہ ہے کہ سننے سے مراد اس جگہ ماننا اور اطاعت کرنا ہے جو نتیجہ ہوتا ہے سمجھنے کا، مطلب یہ ہے کہ دلوں پر مہر لگ جانے کے سبب وہ کسی حق بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کا قلب اس کے تمام اعضاء وجوارح کا مرکز ہے جب قلب کے افعال میں خلل آتا ہے تو سارے اعضاء کے افعال مختل ہوجاتے ہیں، جب دل میں کسی چیز کی بھلائی یا برائی سما جاتی ہے تو پھر ہر چیز میں اس کو آنکھوں سے بھی وہی نظر آتا ہے، کانوں سے بھی وہی سنائی دیتا ہے۔- چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید ہنرش درنظر - دوسری آیت میں ارشاد فرمایا تِلْكَ الْقُرٰي نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗىِٕهَا، انبائ، نبا کی جمع ہے جس کے معنی ہیں کوئی عظیم الشان خبر، معنی یہ ہیں کہ ہلاک شدہ بستیوں کے بعض واقعات ہم آپ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں حرف من سے اشارہ کردیا گیا کہ پچھلی اقوام کے حالات و واقعات جو ذکر کئے گئے ہیں وہ سب واقعات کا استیعاب نہیں بلکہ ہزاروں واقعات میں سے چند اہم واقعات کا بیان ہے۔
اَوَلَمْ يَہْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَہْلِہَآ اَنْ لَّوْ نَشَاۗءُ اَصَبْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ ٠ ۚ وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ١٠٠- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔
(١٠٠) کیا سرزمین مکہ کے رہنے والوں پر ابھی تک یہ چیز واضح نہیں ہوئی کہ جیسا ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو عذاب دیا ہے اسی طرح ان کو بھی ہلاک کردیں اور ان پر مہر لگا دیں جس کی وجہ سے انکو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کی تصدیق کی توفیق ہی نہ ہو۔
آیت ١٠٠ (اَوَلَمْ یَہْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْم بَعْدِ اَہْلِہَآ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ ج) - کیا بعد میں آنے والی قوم نے اپنی پیش رو قوم کی تباہی و بربادی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ؟ قوم عاد نے کیوں کوئی سبق نہیں سیکھا قوم نوح کے عذاب سے ؟ اور قوم ثمود نے کیوں عبرت نہیں پکڑی قوم عاد کی بربادی سے ؟ ‘ اور قوم شعیب نے کیوں نصیحت حاصل نہیں کی قوم لوط کے انجام سے ؟
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :79 یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اُٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے ۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اسی جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا ، اور یہ بھی محسوس کر سکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کل اُنہیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرالی تھی ، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے ، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجودہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کراسکے گا جس طرح اس نے ان سے خالی کرائی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :80 یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلاوے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی ۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اس کی بینائی تک آفتاب روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کوئی کچھ نہیں سنا سکتا ۔