Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بعذاب میں جو ب ہے وہ بتا رہی ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ 47؀ ) 22- الحج:47 ) یعنی یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا ، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا ، نسائی میں حضرت ابن عباس سے وارد ہے کہ کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے ، یعنی آخرت میں ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں آیت ( اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32؀ ) 8- الانفال:32 ) یعنی الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا ، ابن جریر وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہ نکلے گی ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے پھر فرماتا ہے کہ وہ عذاب کافروں کے لئے تیار ہے اور ان پر آپڑنے والا ہے جب آ جائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے ۔ آیت ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ Ǽ۝ۭ ) 70- المعارج:3 ) کے معنی ابن عباس کی تفسیر کے مطابق درجوں والا ، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں ، قتادہ کہتے ہیں فضل و کرم اور نعمت و رحم والا ، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے ، اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ، روح کی تفسیر میں حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے ، میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں ، اس لئے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمان کی طرف چڑھتی ہیں ، جیسے کہ حضرت براء والی لمبی حدیث میں ہے کہ جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں ، گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں حضرت ابو ہریرہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ گذر چکی ہے جسکی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں ، پہلی حدیث بھی مسند احمد ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے ، ہم نے اس کے الفاظ اور اس کے طرق کا بسیط بیان آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27؀ۧ ) 14- ابراھیم:27 ) کی تفسیر میں کر دیا ہے ۔ پھر فرمایا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اس میں چار قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد وہ دوری ہے جو اسفل السافلین سے عرش معلی تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے ، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب صفتہ العرش میں ذکر کیا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے ، اس لئے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت مجاہد کے قول سے مروی ہے حضرت ابن عباس کے قول سے نہیں ، حضرت ابن عباس سی ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہو گئے ، اسی طرح آسمان ، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے ، چنانچہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے ، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے ، حضرت محمد بن کعب یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے حضرت ابن عباس سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے ، حضرت عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ابن عباس کا قول ہے کہ قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہو جائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہو گا ، یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ، واللہ اعلم ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گذرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو؟ اس نے کہا ہاں میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ قسم قسم کے غلام اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندے ہوئے چلو چنانچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گذر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آ جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا ، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا ، عامری نے پوچھا اے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے؟ فرمایا مسکنیوں کو سواری کے لئے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لئے جانور دینا ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہوا نہیں مانگا ہوا بےقیمت دینا ، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی دسرے سند سے مذکور ہے ، مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کر لے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہو گی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا ، پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گذرا ، اور یہ بھی بیان ہے کہ گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لئے ہیں ۔ ایک تو اجر دلانے والے ، دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے ، تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے ۔ یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوۃ ہے ، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا ، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے ، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور وہ دن کیا ہے جو پچاس ہزار سال کا ہے؟ اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا ۙ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ ۭ اَلَآ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ 18؀ ) 42- الشورى:18 ) ، یعنی بے ایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایمان دار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں ۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں ، یعنی مومن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے ، نہ جانے کب قیامت قائم ہو جائے اور کب عذاب آ پڑیں ، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں ، پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32؀) 8 ۔ الانفال :32) چناچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) سال سآئل بعذاب واقع …: اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ایک پوچھنے والے نے عذاب کے متعلق سوال کیا ہے (کہ وہ کب آئے گا ؟ ) اس صورت میں ” بائ “ بمعنی ” عن “ ہوگی اور مراد وہ کفری ہ سوال ہے جو وہ بار بار عذاب کو جھٹلانے اور مذاق کرنے کے لئے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین) (الملک : ٢٥)” اور وہ کہتے ہیں کہ وہ (عذاب کا) وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ “ دوسرا معنی یہ ہے کہ ایک مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے۔ اس سے مراد کفار کے سرکش لوگوں کی وہ دعا ہے جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کرتے رہتے تھے کہ ہم پر جلد از جلد عذاب لے آؤ جیسا کہ فرمایا :(ویستعجلونک بالعذاب) (العنکبوت : ٥٣)” اور یہ لوگ آپ سے جلدی عذاب لانے کا سوال کرتے ہیں۔ “- اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پوچھنے والا عذاب کے متعلق پوچھتا ہے کہ وہ کب آئے گا ؟ مانگنے والا مطالبہ کرتا ہے کہ عذاب لے آؤ، تو سن لو کہ وہ عذاب کافروں پر ضرور آکر رہے گا اور کوئی اسے ہٹا نہیں سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر آئے گا۔ آپ ان کے مطالبے پر نہ اس کے جلدی آنے کا سوال کریں اور ان کے مذاق اڑانے پر کسی قسم کی بےصبری کا مظاہرہ کریں، وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہمیں وہ بال قریب نظر آرہا ہے۔- (٢) للکفرین لیس لہ دافع :” للکفرین “ یا تو ” واقع “ کے متعلق ہے، یعنی وہ عذاب کافروں پر واقع ہونے والا ہے، کوئی اسے ہٹا نہیں سکتا، یا ”’ دافع “ کے متعلق ہے، یعنی کافروں سے اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ایک مانگنے والا (براہ انکار) وہ عذاب مانگتا ہے جہ کہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے (اور) جس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں (اور) جو اللہ کی طرف سے واقع ہوگا جو کہ سیڑھیوں کا (یعنی آسمانوں کا) مالک ہے (جن سیڑھیوں سے) فرشتے اور (اہل ایمان کی) روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں ( اس کے پاس سے مراد یہ ہے کہ عالم بالا میں جو موقع ان کے عروج کا منتہا مقرر کیا گیا ہے وہاں جاتی ہیں اور چونکہ اس عروج کا رستہ آسمان ہیں اسلئے ان کو معارج ( یعنی سیڑھیاں) فرما دیا اور وہ عذاب، ایسے دن میں ( واقع) ہوگا جس کی مقدار ( دنیا کے) پچاس ہزار سال (کی برابر) ہے (مراد قیامت کا دن ہے جو کچھ حقیقی مقدار سے کچھ اس کے اشتداد سے کفار کو اس قدر طول محسوس ہوگا اور چونکہ کفر و سرکشی کے مراتب کے اعتبار سے اس کی شدت اور درازی مختلف ہوگی کسی کے لئے بہت زیادہ کسی کے لئے کچھ کم، اس لئے ایک آیت میں کالف سنة آیا ہے اور کافروں کی تخصیص اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ مومن کو وہ دن اس قدر ہلکا معلوم ہوگا جیسے ایک فرض پڑھنے کا وقت (کذا فی الدروعن ابی سعید مرفوعاً بروایت احمد والبیھقی وغیرھما) سو (جب عذاب کا آنا ثابت ہے تو) آپ (ان کی مخالفت پر) صبر کیجئے اور صبر بھی ایسا جس میں شکایت کا نام نہ ہو (یعنی ان کے کفر و خلاف سے ایسے تنگ نہ ہوجائے کہ شکایت حکایت زبان پر آجاوے بلکہ یہ سمجھ کر تحمل کیجئے کہ ان کو سزا ہونے والی ہے اور اس یوم سزا کا جو ان کو انکار ہے سو) یہ لوگ اس دن کو (قیامت پر ایمان نہ ہونے کے سبب اس کے وقوع کو) بعید دیکھ رہے ہیں اور ہم (کو اس کا وقوع یقینی معلوم ہے اس لئے) اس کو (وقوع سے) قریب دیکھ رہے ہیں (اور وہ عذاب اس روز واقع ہوگا) جس دن (کہ) آسمان درنگ میں) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوجاوے گا (اور ایک آیت میں کالدھان ہے جس کی تفسیر ادیم احمر یعنی سرخ چمڑے کی گئی ہے تو جمع دونوں میں یہ ہے کہ سرخی کی شدت سے بھی سیاہی کے مشابہ رنگ پیدا ہوجاتا ہے پس احمر اور اسود دونوں کہنا صحیح ہے یا اول ایک رنگ ہو پھر دوسرا بدل جاوے کما نقل ابن کثیر فی الرحمن عن الحسن تتلون الوانا اور اگر اس کی تفسیر بھی مثل بعض کے دردی زیت سے کی جاوے یعنی روغن زیتون کی تلچھت، تو دونوں کا مفہوم متحد ہوجاوے گا، غرض آسمان سیاہ ہوجاوے گا اور پھٹ بھی جاوے گا) اور پہاڑ رنگین اون کی طرح (جو کہ دھنکی ہوتی ہے بقولہ تعالیٰ کالعھن المنقوش) ہو ویں گے (یعنی اڑتے پھریں گے اور رنگین سے تشبیہ اس لئے دی گی کہ پہاڑ بھی مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں کما ھوالمذکور فی قولہ تعالیٰ ومن الجبال جد دبیض حمر مختلف الوانھا وغرابیب سود) اور (اس روز) کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا ( کقولہ تعالیٰ لایتساءلون) باوجودیکہ ایک دوسرے کو دکھا بھی دیئے جاویں گے (یعنی ایک دوسرے کو دیکھیں گے مگر کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا اور سوہ صافات میں جو باہم سوال کرنے کا ذکر ہے وہ بطور اختلفا کے ہے بطور ہمدردی کے نہیں اس لئے وہ اس آیت کے منافی نہیں، اس روز) مجرم (یعنی کافر) اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس اہل زمین کو اپنے فدیہ میں دیدے پھر یہ (فدیہ میں دیدینا) اس کو (عذاب سے) بچا لے (یعنی اس روز ایسی نفسا نفسی ہوگی کہ ہر شخص کو اپنی فکر پڑجاوے گی اور کل تک جن پر جان دیتا تھا آج ان کو اپنے فائدے کے لئے عذاب کے سپرد کردینے کو تیار ہوگا اگر اس کے قابو کی بات ہو لیکن) یہ ہرگز نہ ہوگا (یعنی نجات عن العذاب مطلقاً نہ ہوگی بلکہ) وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال (تک) اتار دیگی (اوہ) وہ اس شخص کو (خود) بلاویگی، جس نے (دنیا میں حق سے) پیٹھ پھیری ہوگی اور (طاعت سے) بےرخی کی ہوگی اور (دوسروں کا حق مار مار کر یا براہ رص مال) جمع کیا ہوگا پھر اس کو اٹھا اٹھا رکھا ہوگا (مطلب یہ کہ حقوق اللہ و حقوق العباد ضائع کئے ہوں گے، یا اشارہ ہے فساد عقائد و فساد اخلاق کی طرف اور بلانا معنے حقیقی پر مجمول ہوسکتا ہے خلاصہ یہ کہ ایسے صفات موجب استحقاق نار ہیں اور اس مجرم میں یہ صفات پائے جاتے ہیں پھر نجات عن العذات کفار کو اصل عذاب نہیں ہوگا بلکہ اشتد اد عذاب ہوگا اور نفس عذاب کفر پر ہوگا، بخلاف گناہگار مؤمنین کے کہ ان کو معاصی پر نفس عذاب بھی ہوسکتا ہے (واللہ اعلم) - (آگے دوسرے رذائل کا ذکر ہے جو عذاب کا سبب ہوتے ہیں ان سے اہل ایمان کا استثناء اور پھر استثناء کا نتیجہ بیان ہے یعنی) انسان کم ہمت پیدا ہوا ہے (مراد انسان سے استثناء کو شامل کرنے کے بعد انسان کافر ہے اور پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اول پیدائش کے وقت سے ہی وہ ایسا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کی جبلت میں ایسا مادہ رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے وقت پر پہنچ کر یعنی بلوغ کے بعد ان رذیل صفات کا عادی ہوجائے گا، پس کم ہمتی سے مراد طبعی کم ہمتی نہیں ہے بلکہ کم ہمتی کے آثار ذممیمہ اختیار یہ مراد ہیں جن کو آگے بیان فرماتے ہیں یعنی) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو (جد جواز سے زیادہ) جزع فزع کرنے لگتا ہے اور جب اس کو فارغ البالی ہوتی ہے تو (حقوق ضروریہ سے) بخل کرنے لگتا ہے (یہ تمتہ ہوگیا موجبات عذاب کا جو من ادبر سے شروع ہوئے ہیں) مگر وہ نمازی (یعنی مومن ان موجبات عذاب سے مستثنیٰ ہیں) جو اپنی نماز پر برابر توجہ رکھتے ہیں (یعنی نماز میں ظاہراً یا باطناً دوسری طرف توجہ نہیں کرتے جس کو قد افلح المومنون میں خاشعون سے تعبیر فرمایا ہے کد انقل ابن کثیر عن عقبتہ بن عامر بقولہ الدائم الساکن وعنہ فی الدر المنشور اذا صلوالم یلتقتوا عن یمین ولاشمال) اور جن کے مالوں میں سوالی اور بےسوالی سب کا حق ہے (اس کے متعلق مضمون سورة ذاریات میں گزر چکا) اور جو قیامت کے دن کا اعتقاد رکھتے ہیں اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں (اور) واقعی ان کے رب کا عذاب بےخوف ہونے کی چیز نہیں ( یہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے) اور جو اپنی شرمگاہوں کو (حرام سے) محفوظ رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیونکہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حد (شرعی) سے نکلنے والے ہیں اور جو اپنی (سپردگی میں لی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی گواہیوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہیں (ان میں کمی بیشی نہیں کرتے) اور جو اپنی (فرض) نماز کی پابندی کرتے ہیں ( پس) ایسے لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوں گے (ان آیات کی تفسیر سورة مؤ منون میں دیکھ لی جائے آگ کفار کی حالت کا عجیب ہونا اور وقوع قیامت کا مستبعد نہ ہونا بیان فرماتے ہیں یعنی موجبات سعادت وشقاوت تو اوپر بدلالت واضحہ معلوم ہوچکے) تو (معلوم بالدلیل ہونے کے بعد پھر) کافروں کو کیا ہوا کہ (ان مضامین کی تکذیب کے لئے) آپ کی طرف کو داہنے اور بائیں سے جماعتیں بن بن کر دوڑے آ رہے ہیں (یعنی چاہئے تھا کہ ان مضامین کی تصدیق کرتے لیکن یہ لوگ متفق ہو ہو کر آپ کے پاس اس غرض سے آتے ہیں کہ ان مضامین کی تکذیب اور ان کے ساتھ استہزاد کریں جیسا کہ کفار عرب نبوت کی خبریں سن سن کر اسی غرض سے آتے تھے اور اسلام کو باطل سمجھنے کے ساتھ اپنے کو حق پر سمجھتے تھے اور حق ہونیکا ثمرہ جنت میں جانا ہے اس بناء پر وہ اپنے کو مستحق جنت بھی سمجھتے تھے کقولہ تعالیٰ (آیت) ٰولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنیٰ ۔ اس لئے اس کے متعلق بطور انکار فرماتے ہیں کہ) کیا ان میں ہر شخص اس کی ہوس رکھتا ہے کہ وہ آسائش کی جنت میں داخل کرلیا جاوے گا یہ ہرگز نہ ہوگا (کیونکہ موجبات جہنم کے ہوتے ہوئے جنت کیسے مل جاویگی اور یہ لوگ ان مضامین کی تکذیب میں نفس قیامت کی بھی تکذیب کرتے اور اس کو محال سمجھتے تھے آگے اس کے متعلق ارشاد ہے کہ ان کا استبعاد محض بےوقوفی ہے کیونکہ) ہم نے ان کو ایسی چیز سے پیدا کیا ہے جس کی ان کو بھی خبر ہے (پس جب ان کو معلوم ہے کہ نطفہ سے آدمی کو بنایا ہے اور بظاہر ہے کہ نطفہ سے کہ جس میں کبھی حیات نہیں آئی آدمی بننے تک جتنا بعد ہے اتنا بعد اجزاء میت سے دوسری بار آدمی بننے تک نہیں ہے کیونکہ ان اجزاء میں ایک بار حیات پہلے آ چکی ہے اس کو محال سمجھنا ان کی بےوقوفی ہے) پھر (دوسرے طور پر دفع استبعاد وقوع قیامت کے لئے) میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی (معنے اس کے سورة صافات کے شروع میں گزرے ہیں آگے جواب قسم ہے) کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ (دنیا ہی میں) ان کی جگہان سے بہتر لوگ لے آئیں (یعنی پیدا کردیں) اور ہم (اس سے) عاجز نہیں ہیں (پس جب نئی مخلوق اور وہ بھی ایسی جس میں صفات کمال زیادہ ہوں جن میں زیادہ اشیاء حالت کے اعتبار سے ہے اور دوسرا استدلال ان کے امثال و نظائر کے امکان مخلوقیت سے اور جب باوجود وضوح حق مع الدلائل کے اپنے انکار وعناد سے باز نہیں آتے) تو آپ ان کو اسی شغل اور تفریح میں رہنے دیجئے، یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ واقع ہو جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے کسی پرستش گاہ کی طرف دوڑے جاتے ہیں (اور) ان کی آنکھیں (مارے شرمندگی کے) نیچے کو ڈھکی ہوں گی (اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، یہ ہے ان کا وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا (جو کہ اب واقع ہوگیا) - معارف و مسائل - سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ۔ سوال کبھی کسی چیز کی تحقیق کے لئے ہوتا ہے اس کے ساتھ عربی زبان میں صلہ حرف عن کا استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی سوال بمعنے درخواست اور کسی چیز کی طلب کے ہوتا ہے یہاں ایسا ہی ہے اسی لئے اس کے صلہ میں بجائے عن کے حرف بار آیا بعذاب معنے یہ ہیں کہا یک مانگنے والے نے عذاب مانگا۔ نسائی میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ مانگنے والا نضربن حارث تھا جس نے قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب میں اس جرأت سے کام لیا کہ کہنے لگا اللھم (آیت) ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطرعلینا حجارة من السمآء او ائتنا بعذاب الیم یعنی یہ دعا کی یا اللہ اگر یہ قرآن ہی حق ہے اور آپ کی طرف سے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دوسرا عذاب الیم بھیج دے۔ (مظہری) اللہ تعالیٰ نے اس کو غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دیا (مظہری بروایت ابن ابی حاتم) اس شخص نے اللہ تعالیٰ کا جو عذاب اپنے منہ مانگا تھا آگے اس کی کچھ حقیقت کا بیان ہے کہ یہ عذاب کافروں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا (خواہ دنیا میں یا دونوں میں) اس عذاب کو دفع کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ یہ عذاب اللہ کی طر سے ہے جو درجات عالیہ والا ہے۔ یہ آخری جملہ پہلے جملے کی دلیل بھی ہے کہ جو عذاب اللہ بالاوبرتر کی طرف سے ہو اس کو دفع کرنا اور ٹالنا کسی کے لئے کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۝ ١ - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) نضر بن حارچ کافر اس عذاب کی درخواست کرتا ہے جو کہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے جس عذاب کو کوئی ہٹانے والا نہیں، چناچہ یہ بدر کے دن مارا گیا۔- شان نزول : سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (الخ)- نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سال سائل سے مراد نضر بن حارث ہے اس نے کہا تھا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء۔ اور ابن ابی حاتم نے سدی سے سال سائل کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نضر بن حارث کے متعلق نازل ہوئی اس نے کہا تھا ان کان ھذا ھو الحق ( الخ) چناچہ اس کا عذاب بدر کے دن ہوا۔- ابن منذر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۔ اس پر یہ لوگ کہنے لگے کہ کس پر عذاب واقع ہوگا تب اللہ تعالیٰ نے یہ جملہ نازل فرمایا لّلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَهٗ دَافِعٌ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ‘ ٢ سَاَلَ سَآئِلٌم بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ - لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ ۔ ” مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘ کافروں کے لیے ‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔ “- یہاں سَاَلَ سَآئِلٌسے کون مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) کی رائے بھی یہی ہے ۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب (رح) کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے ۔- اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر طرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر ‘ مجنون ‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا (معاذ اللہ) ۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تو یوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات تھی ۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوت ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اس دور میں عام اہل ایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ذہنی ‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کردی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔- بہرحال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّعمل کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایسی خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چناچہ ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ اس سورت کا سورة نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورة نوح میں بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری رسول ہیں۔ (١)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :1 اصل الفاظ ہیں سال سآئل ۔ بعض مفسرین نے یہاں سوال کو پوچھنے کے معنی میں لیا ہے اور وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب ، جس کی ہمیں خبردی جا رہی ہے ، کس پر واقع ہو گا ؟ اور اللہ تعالی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ کافروں پر واقع ہو گا ۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ سوال کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کے معنی میں لیا ہے ۔ نسائی اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نضر بن حارث بن کلدہ نے کہا تھا اللھم ان کان ھذا ہو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم ۔ ( الانفال ، آیت 32 ) خدایا اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ ۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن مجید میں کفار مکہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: یونس ، آیات 46 تا 48 ، الابنیاء 36 تا 41 ، النمل ، 67 تا 72 ، سبا ، 26 تا 30 ، یسین ، 45 تا 52 ۔ الملک ، 24 تا 27 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani