Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] کافر ایسا عذاب طلب کرتے ہی رہتے تھے۔ اللہ سے بھی اپنے حق میں ایسی دعا کیا کرتے تھے جیسا کہ سورة انفال کی آیت نمبر ٣٢ میں مذکور ہے کہ کافر کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ قرآن واقعی تیری طرف سے نازل ہوا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا ہم پر عذاب بھیج دے۔ روایات میں ایسی بددعا کرنے والوں کے دو نام مذکور ہیں ایک ابو جہل بن ہشام اور دوسرا نضر بن حارث، اس بددعا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ تسلیم کرنے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ نہ ہی انہیں قرآن کی وعید کا کچھ اعتبار تھا۔ یہ تو ان لوگوں کا دنیوی عذاب سے متعلق مطالبہ تھا۔ اخروی عذاب کا مطالبہ کرنے والے تو بہت تھے جو از راہ تمسخر و استہزاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے کہ جس عذاب سے دھمکاتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے یا یوں کہتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو وہ آئے گا کب ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ عذاب آئے گا بھی ضرور اور جب بھی آیا تو پھر تمہاری خیر نہیں تمہیں کوئی اس سے بچا نہ سکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَہٗ دَافِعٌ۝ ٢ ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- دفع - الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ- [ النساء 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا - [ الحج 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل .- ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: ایک کافر نے اسلام کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر قرآن اور اِسلام برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسائیے، یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر لے آئیے، جیسا کہ سورۂ انفال (۸:۳۲) میں گزرا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص نضر بن حارث تھا۔ یہاں اسی کی بات کا حوالہ دیاجارہا ہے کہ وہ عذاب مانگ رہا ہے، اور اُس کا اصل مقصد مذاق اُڑاکر اس عذاب کو جھٹلانا ہے، حالانکہ وہ ایسی چیز ہے جب آجائے گی تو کوئی اُسے روک نہیں سکے گا۔