Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان بےصبرا ، بخیل اور کنجوس بھی ہے یہاں انسانی جبلت کی کمزوری بیان ہو رہی ہے کہ یہ بڑا ہی بےصبرا ہے ، مصیبت کے وقت تو مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے باؤلا سا ہو جاتا ہے ، گویا دل اڑ گیا اور گویا اب کوئی آس باقی نہیں رہی ، اور راحت کے وقت بخیل کنجوس بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ڈکار جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بدترین چیز انسان میں بیحد بخیلی اور اعلیٰ درجہ کی نامردی ہے ( ابو داؤد ) پھر فرمایا کہ ہاں اس مذموم خصلت سے وہ لوگ دور ہیں جن پر خاص فضل الٰہی ہے اور جنہیں توفیق خیر ازل سے مل چکی ہے ، جن کی صفتیں یہ ہیں کہ وہ پورے نمازی ہیں وقتوں کی نگہبانی کرنے واجبات نماز کو اچھی طرح بجا لانے سکون اطمینان اور خشوع خضوع سے پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے والے ۔ جیسے فرمایا آیت ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻ۝ۙ ) 23- المؤمنون:1 ) ، ان ایمان داروں نے نجات پالی جو اپنی نماز خوف اللہ سے ادا کرتے ہیں ، ٹھہرے ہوئے بےحرکت کے پانی کو بھی عرب ماء دائم کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں اطمینان واجب ہے ، جو شخص اپنے رکوع سجدے پوری طرح ٹھہر کر بااطمینان ادا نہیں کرتا وہ اپنی نماز پر دائم نہیں کیونکہ نہ وہ سکون کرتا ہے نہ اطمینان بلکہ کوئے کی طرح ٹھونگیں مار لیتا ہے اس کی نماز اسے نجات نہیں دلوائے گی ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر نیک عمل پر مداوت اور ہمیشگی کرنا ہے جیسے کہ نبی علیہ صلوات اللہ کا فرمان ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جس پر مداوت میں جائے گو کم ہو ، خود حضور علیہ السلام کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جس کام کو کرتے اس پر ہمیشگی کرتے ، حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ حضرت دانیال پیغمبر نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسی نماز پڑھے گی کہ اگر قوم نوح ایسی نماز پڑھتی تو ڈوبتی نہیں اور قوم عاد کی اگر ایسی نماز ہوتی تو ان پر بےبرکتی کی ہوائیں نہ بھیجی جاتیں اور اگر قوم ثمود کی نماز ایسی ہوتی تو انہیں چیخ سے ہلاک نہ کیا جاتا ، پس اے لوگو نماز کو اچھی طرح پابندی سے پڑھا کرو مومن کا یہ زیور اور اس کا بہترین خلق ہے ، پھر فرماتا ہے ان کے مالوں میں حاجت مندوں کا بھی مقررہ حصہ ہے سائل اور محروم کی پوری تفسیر سورہ ذاریات میں گذر چکی ہے ۔ یہ لوگ حساب اور جزا کے دن پر بھی یقین کامل اور پورا ایمان رکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اعمال کرتے ہیں جن سے ثواب پائیں اور عذاب سے چھوٹیں ، پھر ان کی صفت بیان ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے اور خوف کھانے والے ہیں ، جس عذاب سے کوئی عقل مند انسان بےخوف نہیں رہ سکتا ہاں جسے اللہ امن دے اور یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو حرام کاری سے روکتے ہیں جہاں اللہ کی اجازت نہیں اس جگہ سے بچاتے ہیں ، ہاں اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں سو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ، لیکن جو شخص ان کے علاوہ اور جگہ یا اور طرح اپنی شہوت رانی کرلے وہ یقیناً حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے ، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻ۝ۙ ) 23- المؤمنون:1 ) میں گذر چکی ہے یہاں دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ لوگ امانت کے ادا کرنے والے وعدوں اور وعیدوں قول اور قرار کو پورا کرنے والے اور اچھی طرح نباہنے والے ہیں ، نہ خیانت کریں نہ بد عہدی اور وعدہ شکنی کریں ۔ یہ کل صفتیں مومنوں کی ہیں اور ان کا خلاف کرنے والا منافق ہے ، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے منافق کی تین خصلتیں ہیں جب کبھی بات کرے جھوٹ بولے ، جب کبھی جھگڑے گالیاں بولے ۔ یہ اپنی شہادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہیں یعنی نہ اس میں کمی کریں نہ زیادتی نہ شہادت دینے سے بھاگیں نہ اسے چھپائیں ، جو چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے ۔ پھر فرمایا وہ اپنی نماز کی پوری چوکسی کرتے ہیں یعنی وقت پر ارکان اور واجبات اور مستجات کو پوری طرح بجا لا کر نماز پڑھتے ہیں ، یہاں یہ بات خاص توجہ کے لائق ہے کہ ان جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے شروع وصف میں بھی نماز کی ادائیگی کا بیان کیا اور ختم بھی اسی پر کیا پس معلوم ہوا کہ نماز امر دین میں عظیم الشان کام ہے اور سب سے زیادہ شرافت اور فضیلت والی چیز بھی یہی ہے اس کا ادا کرنا سخت ضروری ہے اور اس کا بندوبست نہایت ہی تاکید والا ہے ۔ سورہ ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻ۝ۙ ) 23- المؤمنون:1 ) میں بھی ٹھیک اسی طرح بیان ہوا ہے اور وہاں ان اوصاف کے بعد بیان فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وارث فردوس ہیں اور یہاں فرمایا یہی لوگ جنتی ہیں اور قسم قسم کی لذتوں اور خوشبوؤں سے عزت و اقبال کے ساتھ مسرور و محفوظ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 سخت حریص اور بہت جزع فزع کرنے والے کو ھلوع کہا جاتا ہے۔ جس کو ترجمے میں انسان کچے دل والا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص ہی بخیل و حریص اور زیادہ گریہ جاری کرنے والا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] ھلوعا کا لغوی مفہوم :۔ ھَلُوْعًا بمعنی بےقرار، بےثبات، ایک حالت پر قائم نہ رہنے والا۔ حالات کی تبدیلی کا فوراً اثر قبول کرلینے والا۔ یعنی انسان فطری طور پر ایسا ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ کیفیت ایک عام دنیا دار انسان یا انسانوں کی اکثریت کی ہے۔ اور جو لوگ ایمان لا کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں ان کے دل کی یہ کیفیت نہیں رہتی ان کے دل میں صبر و سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان الانسان خلق ھلوعا…: یعنی انسان میں پیدائشی طو ر پر یہ کمزوری رکھی گئی ہے کہ وہ تھڑولا ہے، بےصبرا ہے۔ تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہے، مال یا کوئی اور نعمت ملتی ہے تو روک کر بیٹھ جاتا ہے اور حق داروں کو نہیں دیتا، مگر یہ کمزوری ایسی نہیں کہ انسان اس پر قابو نہ پا سکے۔ اہل ایمان نہ مصیبت میں گھبراتے ہیں اور نہ خوش حالی میں اتراتے ہیں۔ صہیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(عجباً لامر المومن ان امرۃ کلہ خیر ولیس ذاک لاحد الا للمومن ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرالہ و ان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرلہ ) (مسلم، الزھد ، باب المومن امرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩)” مومن کا معاملہ عیجب ہے کہ اس کے سب کام ہی (اس کے لئے) خیر ہیں اور مومن کے علاوہ یہ چیز کسی کو حاصل نہیں، (اس طرح کہ) اسے کوئی خوش پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لئے خیر ہوتی ہے اور اگر تکلیف پہنتچی ہے تو صبر کرتا ہے، سو وہ (بھی) اس کے لئے خیر ہوتی ہے۔ “ مگر اس کے لئے کوشش یقینا کرنا پ ڑتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ومن یستعف یعفہ اللہ ومن یستغن یعنہ اللہ ومن یصبر یصبرہ اللہ) (مسلم، الزکاۃ باب فضل العفف والصبر…: ١٠٥٣)” جو شخص سوال سے بچے گا اللہ اسے بچا لے گا، جو اللہ سے غنا مانگے گا اللہ اسے غنی کر دے گا اور جو صبر کی کوشش کرے گا اللہ اسے صابر بنا دے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا، ہلوع کے لفظی معنی حریص بےصبر کم ہمت آدمی کے ہیں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں ہلوع سے مراد وہ شخص ہے جو مال حرام کی حرص میں مبتلا ہو اور حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ اس سے مراد بخیل آدمی ہے اور مقاتل نے فرمایا کہ تنگدل بےصبر آدمی مراد ہے اور یہ سب معانی متقارب ہیں۔ ہلوع کے مفہوم میں سب داخل ہیں، اس ہلوع کی تشریح خود قرآن کے الفاظ میں آ رہی ہے۔- یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب اس کو پیدا ہی اس حال میں کیا ہے اور یہ عیب اس کی تخلیق میں رکھے ہیں تو پھر اس کا کیا قصور ہوا وہ مجرم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مراد اس سے انسانی فطرت اور جبلت میں رکھی ہوئی استعداد اور مادہ ہے سو اس میں حق تعالیٰ نے ہر خیر و صلاح کا مادہ اور استعداد بھی کھی ہے اور شر و فساد کی بھی۔ اور اس کو عقل و ہوش بھی عطا فرمایا اور اپنیک تابوں اور رسولوں کے ذریعہ ہر ایک کام کا انجام بھی بتلادیا تو اپنے اختیار سے مادہ شر و فساد کی پرورش کی اپنے اختیاری اعمال کو اس رخ پر ڈال دیا تو وہ مجرم ان اختیاری اعمال کی وجہ سے قرار پایا جو مادہ اس کی پیدائش میں ودیعت رکھا گیا تھا اس کی وجہ سے اس کو مجرم نہیں قرار دیا گیا جیسا کہ آگے ہلوع کے معنی کی تشریح خود قرآن کریم نے کی ہے ان میں صرف افعال اختیار یہ کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا۝ ١٩ ۙ- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - هلع - : الهَلَعُ : الحِرْصُ ، وَقِيلَ : الجَزَعُ وقِلّةُ الصبرِ ، وَقِيلَ : هُوَ أَسْوأُ الجَزَعِ وأَفْحَشُه، هَلِعَ يَهْلَعُ هَلَعاً وهُلوعاً ، فَهُوَ هَلِعٌ وهَلُوعٌ؛ وَمِنْهُ قَوْلُ هِشَامَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ لِشَبَّةَ بْنِ عَقَّالٍ حِينَ أَراد أَن يقبِّل يَدَهُ : مَهْلًا يَا شبَّةُ فإِن الْعَرَبَ لَا تَفْعَلُ هَذَا إِلا هُلُوعاً وإِن العَجَم لَمْ تَفْعَلْهُ إِلا خُضوعاً. والهِلاعُ والهُلاعُ : كالهُلُوعِ. ورجلٌ هَلِعٌ وهالِعٌ وهَلُوعٌ وهِلْواعٌ وهِلْواعةٌ: جَزُوعٌ حرِيصٌ. والهَلَعُ : الحُزْنُ ، تمیميَّة . والهَلِعُ : الحَزِينُ. وشُحٌّ هالِعٌ: مُحْزِنٌ. وَفِي التَّنْزِيلِ : إِنَّ الْإِنْسانَ خُلِقَ هَلُوعاً؛ قَالَ مَعْمَرٌ وَالْحَسَنُ : هُوَ الشَّرِهُ ، وَقَالَ الْفَرَّاءُ : الهَلُوعُ الضَّجُورُ ، وَصِفَتُهُ كَمَا قَالَ تَعَالَى: إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَإِذا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً ، فَهَذِهِ صِفَتُهُ. والهَلُوعُ : الَّذِي يَفْزَعُ ويَجْزَعُ مِنَ الشَّرِّ. قَالَ ابْنُ بَرِّيٍّ : قَالَ أَبو الْعَبَّاسِ الْمُبَرِّدُ : رجلٌ هَلُوعٌ إِذا كَانَ لَا يَصْبِرُ عَلَى خَيْرٍ وَلَا شَرٍّ حَتَّى يَفْعَلَ فِي كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا غَيْرُ الْحَقِّ ، وأَورد الْآيَةَ وَقَالَ بَعْدَهَا : قَالَ الشَّاعِرُ : وَلِي قَلْبٌ سَقِيمٌ لَيْسَ يَصْحُو، ... ونَفْسٌ مَا تُفِيقُ مِنَ الهُلاعِ- وَفِي الْحَدِيثِ : مِنْ شَرِّ مَا أُعْطِيَ المَرءُ شُحٌّ هالِعٌ وجُبْنٌ خالِعٌ أَي يَجْزَعُ فِيهِ العبدُ ويَحْزَنُ كَمَا يُقَالُ : يومٌ عاصِفٌ ولَيْلٌ نائِمٌ ، وَيَحْتَمِلُ أَيضاً أَن يَقُولَ هالِعٌ لِلِازْدِوَاجِ مَعَ خالِع، والخالِعُ : الَّذِي كأَنه يَخْلَعُ فُؤادَه لشِدَّتِه . وهَلِعَ هَلَعاً : جاعَ. والهَلَعُ والهُلاعُ والهَلَعانُ : الجُبْنُ عِنْدَ اللِّقاءِ. وَحَكَى يَعْقُوبُ : رِجْلٌ هُلَعةٌ مِثْلُ هُمَزةٍ إِذا كَانَ يَهْلَعُ ويَجْزَعُ ويَسْتَجِيعُ سَرِيعاً. وَفِي تَرْجَمَةِ هَرع قَالَ أَبو عَمْرٍو : الهَيْرَعُ والهَيْلَعُ الضَّعِيفُ. ابْنُ الأَعرابي : الهَوْلَعُ الجَزِعُ. وذئبٌ هَلَعٌ بُلَعٌ؛ الهُلَعُ مِنَ الحِرْصِ أَي الحَرِيصُ عَلَى الشَّيْءِ ، والبُلَعُ مِنَ الابْتِلاعِ. وَرَجُلٌ هَمَلَّعٌ وهَوَلَّعٌ: وَهُوَ مِنَ السرْعةِ. وَنَاقَةٌ هِلْواعٌ وهِلْواعةٌ: سَرِيعةٌ شَهْمةُ الفُؤادِ تخافُ السَّوْط .- ( لسان العرب)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا ۔ ” یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔ “- یہ انسان کی فطری اور جبلی کمزوری ہے کہ وہ تھڑدلا اور بےصبرا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی کئی اور کمزوریوں کا ذکر بھی آیا ہے ‘ مثلاً : وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ۔ (النساء) کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت ٧٢ میں انسان کو ظَلُوْمًا جَھُوْلًا قرار دیا گیا ہے ‘ جبکہ سورة الانبیاء کی آیت ٣٧ میں انسان کی طبعی عجلت پسندی کا ذکر آیا ہے : خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط ۔ ظاہر ہے ایک انسان جسم اور روح سے مرکب ہے ۔ انسان کے جسم کا تعلق عالم خلق سے ہے ‘ جبکہ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے : وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسراء یل : ٨٥) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے “۔ چناچہ مذکورہ سب کمزوریوں کا تعلق انسان کی جسمانی خلقت سے ہے۔ جہاں تک انسانی وجود کے اصل حصے یعنی اس کی روح کا تعلق ہے ‘ بنیادی طور پر اس کا مقام بہت بلند ہے اور اس میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق کے اس پہلو کا ذکر سورة التین کی اس آیت میں آیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ” بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا “۔ لیکن افسوس کہ ہم انسانوں کی اکثریت اپنی روح سے بیگانہ ہوچکی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کی یاد سے غفلت ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اسے خود اپنی ذات (روح) سے غافل کردیتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت ١٩ میں اہل ایمان کو اس حوالے سے یوں متنبہ کیا گیا ہے : وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط ” (اے مسلمانو دیکھنا ) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :13 جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ یہ بات انسان کی سرشت میں ہے ۔ یا یہ انسان کی فطری کمزوری ہے ۔ اسی کو اللہ تعالی اس طرح بیان فرماتا ہے کہ انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہ راست اختیار کر لینے والے لوگوں کو اس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی آیات میں بھی آ رہا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ہیں ، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے عملاً کوشش کرے تو وہ ان کو دور کر سکتا ہے ، اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء حاشیہ 41 ۔ جلد چہارم ، الزمر حواشی 23 ۔ 28 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 75 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani