Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، ان کی عظمت شان کے پیش نظر ان کا الگ خصوصی ذکر کیا گیا ہے ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] لفظ یوم کی مختلف مدتیں :۔ یوم یعنی دن۔ یعنی غروب آفتاب سے لے کر اگلے دن کے غروب آفتاب تک کا وقت۔ لیل اور نہار کے وقت کا مجموعہ یا ٢٤ گھنٹے کی مدت۔ اور یوم کی یہ مدت ہم اہل زمین کے لئے ہے۔ چاند پر یہ یوم ہمارے حساب سے تقریباً ایک ماہ کا ہے۔ عطارد ( ) پر یہ دن ہمارے ٨٨ دنوں کے برابر ہے۔ قطب شمالی اور جنوبی پر تقریباً ایک سال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا تو یہاں دن سے مراد مدت کا ایک طویل دور ہے جو ہمارے حساب سے لاکھوں سال کا بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں ایک مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال بتائی گئی ہے۔ (٢٢: ٤٧) اس مقام پر مجرم قوموں پر دنیا میں عذاب آنے کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر یوم کی مقدار پچاس ہزا رسال بتائی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ جبریل امین یا دوسرے فرشتے یا نیک لوگوں کی ارواح اس بلندیوں کے مالک تک پچاس ہزار سال میں چڑھتے ہیں۔ تو یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ یہ بات خالصتاً صفات الٰہی سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کون سی اسکیم یا منصوبہ کی تکمیل کے بعد فرشتے اور جبریل امین اس کی طرف اتنی مدت میں چڑھتے ہیں ؟ اس کی جو بھی صورت پیش کریں گے وہ ناقص ہی ہوگی۔ اس کا ٹھیک مطلب اللہ ہی جانتا ہے۔ البتہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہی وہ دن ہوگا جس میں کافروں کو یقیناً عذاب دیا جائے گا۔ یہ عذاب بلندیوں کے مالک کی طرف سے ہوگا اور کوئی طاقت کافروں کو اس عذاب سے بچا نہ سکے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) تعرج الملٓئکۃ والروح الیہ : فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ یہاں ” الروح “ سے مراد یا تو جبریل (علیہ السلام) ہیں، کیون کہ قرآن میں ان کا نام ” الروح “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(نزل بہ الروح الامین، علی قلبک) (الشعراء : ١٩٣، ١٩٣)” اس قرآن کو روح الامین نے تمہارے دل پر نازل کیا ہے۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا :(قل من کان عدوالجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ) (البقرۃ : ٩٨)” کہہ دو جو جبریل کا دشمن ہے (وہ اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟ ) کیونکہ بلاشبہ اس نے تو اس تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے۔ “ دونوں آیتیں ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ” الروح “ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ فرشتوں سے ان کا الگ ذکر ان کی عظمت شان کی وجہ سے ہے۔ یا مراد مومنوں کی ارواح ہیں، کیونکہ نیک لوگ جب فوت ہوتے ہیں تو فرشتے ان کی ارواح کو آسمان ک طرف لے کر جاتے ہیں تو آسمانوں کے دروازے ان کے لئے کھلتے چلے جاتے ہیں، جیسا کہ ابوہریرہ اور براء بن عازب (رض) کی صحیح احادیث میں آیا ہے۔ (دیکھیے نسائی، الجنائر، باب ما یلقی بہ المومن …: ١٨٣٣۔ ابوداؤد : ٣٨٥٣) البتہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں کی ارواح کو لے کر فرشتے چڑھتے ہیں توا ن کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ دیکھیے سورة اعراف (٤٠) اور مذکورہ بالا احادیث ۔ - اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا بلندی پر ہونا اور فرشتوں اور روح کا اس کی طرف چڑھنا صاف ثابت ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اوپر کی جانب ہونے اور عرش پر ہونے کے منکر ہیں وہ قرآن مجید کی صریح آیات سن کر بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہ ان کا رب اوپر کی جانب ہے۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے، حالانکہ یہ کسی نے کہا ہی نہیں کہ بلندی یا عرش اس کے لئے قید ہے یا وہ ان کا محتاج ہے۔- (٢) ” فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ “ (ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ فرشتے اور وح اس کی طرف چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔ یعنی وہ اتنی بلندی پر ہے کہ فرشتوں اور روح کو اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے اتنی بلندیوں پر چڑھنا پڑتا ہے کہ کوئی اور چڑھے تو اسے پچاس ہزار سال لگ جائیں، مگر فرشتے اور روح وہ فاصلہ ایک دن میں طے کرلیتے ہیں۔ (ابن جریر) واضح رہے رہے کہ پچاس ہزار سال کا عدد بھی صرف فاصلخے کی دوری بیان کرنے کیلئے ہے، کیونکہ انسان کی محدود نظروں نے آلات کی مدد سے جو کچھ دیکھا ہے اس سے آسمان کے نیچے ہی اتنی وسیع کہکشائیں معلوم ہوئی ہیں کہ زمین سے ان کے ستاروں کے فاصلے ماپنے کیلئے ” نوری سال “ کی اصطلاح وضع کرنا پڑی۔ عربی زبان میں پچاس، سو ، ہزار وغیرہ کا عدد کثرت کے بیان کے لئے عام استعمال ہوتا ہے، اس سے مراد گنتی نہیں وہتی۔ فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قوت و سرعت کی بدولت تحت الثری سے لے کر ساتوں آسمانوں کے اوپر تک پچاس ہزا سرلا کا یہ فاصلہ ایک ہی دن میں طے کرلیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی قدرت سے ہر کام سات آسمانوں پر سے اتنی جلدی ہوجاتا ہے تو ان عذاب مانگنے والوں پر عذاب کے آنے میں کیا دیر لگتی ہے، بس تھوڑا سا صبر کریں۔ آیت کے الفاظ کی رو سے یہ معنی قریب ہے، کیونکہ ” فی یوم “ سے متصل پہلے ہی ” تخرج الملئکۃ و الروح الیہ “ آیا ہے۔- دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ عذاب ایک ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اس صورت میں ” فی یوم “ کا لفظ ” واقع “ کے متعلق ہے۔ یہ معنی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ قرآن مجید سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور صحیح حدیث سے بھی۔ اس لئے حافظ ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ سورة سور کے شروع میں فرمایا :(ان عذاب ربک لواقع ، مالہ من دافع ، یوم تمور السمآء موراً ، وتسیر الجبال سیراً ) (طور : ٨ تا ١٠)” یقینا تیرے رب کا عذاب ضرور ہو کر رہنے اولا ہے۔ اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ جس دن آسمان لرزے گا سخت لرزنا اور پہاڑ چلیں گے، بہت چلنا۔ “ ان آیات میں بھی رب تعالیٰ کا عذاب، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں، قیامت کے دن واقع ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ زیر تفسیر آیات میں بھی ” فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ “ کے چند آیات بعد فرمایا :(یوم تکون السمآء کالمھل ، وتکون الجبال کالعھن) (المعارج : ٨، ٩)”(یہ پچاس ہزار سال والے ان کا عذاب اس دن ہوگا) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔ “ جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔” انھم یرونہ بعیداً “ سے بھی یہی ثابت ہو رہا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ نہ دینے والے کو قیامت کا دن ہونے والے عذاب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :(حتی یحکم اللہ بین عبادہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ مما تعدون) (ابو داؤد، الزکاۃ باب فی حقوق المال : ١٦٥٨ مسلم : ١٩٨٨) ’(زکوۃ نہ دینے والے کو عذاب ہوتا رہے گا) یہاں تک کہ نص - اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزا رسال ہے۔ “ قیامت کے دن کی یہ درازی کفار کے لئے ہوگی اور یہ دوسرے عذاب کے ساتھ بجائے خود ایک عذاب وہ گی، ویسے بھی مصیبت کے دن لمبے ہوتے ہیں۔ رہے اہل ایمان تو وہ اس دن بالکل بےفکر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا :(لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون) (یونس : ٦٢)” نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ اور فرمایا :(لا یحزنھم الفزع الاکبر و تتلقھم الملٓئکۃ) (الانبیائ : ١٠٣) ’ انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگ ین نہیں کرے گی اور انہیں فرشتے لینے کے لئے آئیں گے۔ “ اور فرمایا :(وھم من فزع یومئذ امنون) (النمل : ٨٩)” اور وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔ “ خوشی کے دن گزرنے میں دیر بھی نہیں لگتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ یعنی یہ درجات جو تہہ بر تہہ اوپر نیچے ہیں ان درجات کے اندر چڑھتے ہیں فرشتے اور روح الامین یعنی جبرئیل امین۔ جبرئیل (علیہ السلام) بھی اگرچہ فرشتوں کے زمرہ میں شامل ہیں لیکن ان کے خصوصی اعزاز کے لئے ان کا الگ نام ذکر فرمایا گیا ہے۔- فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ یہ جملہ ایک فعل محذوف سے متعلق ہے یعنی یقع مطلب یہ ہے کہ یہ عذاب جس کا اوپر ذکر آیا ہے کہ کافروں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا۔ اس کا وقوع اس روز ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس دن کے متعلق سوال کیا جس کی مقدا رپچاس ہزا رسال ہوگی کہ یہ دن کتنا دراز ہوگا۔ آحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہ دن مومن پر اتنا ہلکا ہوا کہ ایک نماز فرض ادا کرنے کے وقت سے بھی کم ہوگا (رواہ احمد وابویعلی وابن حبان والبیہقی بسند حسن۔ مظہری) - اور حضرت ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ - یعنی یہ روز مومنین کے لئے اتنا ہوگا جنتا وقت ظہر و عصر کے درمیا نہوتا ہے یہ روایت حضرت ابوہریرہ سے مرفوعا بھی منقول ہے موقوفا بھی ان روایات حدیث سے معلوم ہوا کہ اس دن کا یہ طول کہ پچاس ہزا رسال کا ہوگا ایک اضافی امر ہے کفار کے لئے اتنا دراز اور مؤمنین کے لئے اتنا مختصر ہوگا۔- روز قیامت کی درازی ایکہزار سال یا پچاس ہزار کی تحقیق :۔ اس آیت میں روز قیامت کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی ہے اور سورة تنزیل السجد کی آیت میں ایک ہزارسال آئے ہیں آیت یہ ہے (آیت) یدبرالامر من السمآء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنة مما تعدون، یعنی تدبیر کرتے ہیں امر الٰہی کی آسمان سے زمین تک پھر چڑھتے ہیں اس کی طرف ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے عام شمار کے اعتبار سے۔ بظاہر ان دونوں آیتوں کے مضمون میں تعارض اور تضاد ہے اس کا جواب مذکورہ روایات حدیث سے ہوگیا کہ کہ اس دن کا طول مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف ہوگا، تمام کفار کے لئے پچاس ہزار سال کا اور مؤمنین صالحین کے لئے ایک نماز کا وقت ان کے درمیان طوائف کفار ہیں ممکن ہے کہب عض کے لئے صرف ایک ہزار سال کی برابر ہو اور وقت کا دراز اور مختصر ہونا شدت و بےچینی اور آرام و عیش میں مختلف ہونا مشہور و معروف ہے کہ بےچینی اور شدت کتلیف کا ایک گھنٹہ بعض اوقات انسان کو ایک دن بلکہ ایک ہفتہ عشرہ سے زیادہ محسوس ہوتا ہے اور آرام و عیش کا بڑے سے بڑا وقت مختصر معلوم ہوتا ہے۔- اور آیت تنزیل السجدہ جس میں ایک ہزار سال کا دن بیان کیا گیا ہے اس کی ایک توجیہ تفسیر مظہری میں یہ بیان کی ہے کہ اس آیت میں جس دن کا ذکر ہے وہ دنیا ہی کے دنوں میں کا ایک دن ہے اس میں جبرئیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کا آسمان سے زمین پر آنا پھر زمین سے آسمان واپس جانا اتنی بڑی مسافت کو طے کرتا ہے کہ انسان طے کرتا تو اس کو ایکہ زار سال لگتے کیونکہ احادیث صیحہ میں آیا ہے آسمان سے زمین تک پانچ سو سال کی مسافت ہے تو پانسو سال اوپر سے نیچے آنے کے اور پانسو واپس جانے کے یہ کل ایک ہزار سال انسانی چال کے اعتبار سے ہیں کہ بالفرض انسان اس مسافت کو قطع کرتا تو آنے اور جانے میں ایک ہزار سال لگ جاتے اگرچہ فرشتے اس مسافت کو بہت ہی مختصر وقت میں طے کرلیتے ہیں تو سورة سجدہ کی آیت میں دنیا ہی کے دنوں میں سے ایک دن کا بیان ہوا اور سورة معارج میں یا مت کے دن کا بیان ہے جو ایام دنیا سے بہت بڑا ہوگا اور اس کی دراز اور کوتاہی ہی مختلف لوگوں پر اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے مختلف محسوس ہوگی۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَۃٍ۝ ٤ ۚ- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے - شیخ جلال الدین سیوطی (رح) تعالیٰ نے اس کے علاوہ آٹھ اور معانی ذکر کئے ہیں۔- (1) امر۔ وروح منہ (5:171) اور اس کا امر ہے۔- (2) وحی۔ ینزل المئکۃ بالروح (16:2) اتارتا ہے فرشتے وحی لے کر۔- (3) قرآن۔ اوحینا الیک روحا من امرنا (42:52) ہم نے وحی کی تیری طرف قرآن کی اپنے حکم سے۔- (4) رحمت۔ وایدھم بروح منہ (58:22) اور ان کی مدد کی اپنی رحمت سے۔- (5) فروح وریحان (56:89) پس زندگی ہے اور روزی ہے۔ روح کو اکثر نے ر کی زہر سے پڑھا ہے لیکن بعض نے ضمہ سے بھی پڑھا ہے۔ - (6) ایک عظیم المرتبت فرشتہ۔ یوم یقوم الروح (78:38) جس دن کھڑا ہو فرشتہ روح نامی۔- (7) ایک خاص فرشتوں کا لشکر : تنزل الملئکۃ والروح فیہا (97:4) اترتے ہیں فرشتے اور ان کا خاص لشکر اس میں۔- (8) روح بدن ۔ جان ۔ ویسئلونک عن الروح (17:85) اور تجھ سے پوچھتے ہیں جان کے متعلق۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - ألف - الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] .- والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ ۔ ” چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ “- یہ آیت ہمارے لیے آیات متشابہات میں سے ہے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے ” ذِی الْمَعَارِجِ “ ہونے کی وضاحت ہے کہ اس کی بارگاہِ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریل (علیہ السلام) کو بھی پچاس ہزار سال کی مسافت کے برابر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ پچاس ہزار برس کے دن سے یہاں قیامت کا دن مراد ہے جو کفار کے لیے تو بہت طویل اور سخت ہوگا ‘ البتہ اہل ایمان کو وہ دن ایسے محسوس ہوگا جیسے انہوں نے دن کا کچھ حصہ یا ایک فرض نماز ادا کرنے کے برابر وقت گزارا ہو۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس دن کے بارے میں پوچھا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّـہٗ لَیُخَفَّفُ عَلَی الْمُؤْمِنِ حَتّٰی یَـکُوْنَ اَھْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ یُصَلِّیْھَا فِی الدُّنْیَا) ” اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں میری جان ہے یہ دن مومن کے لیے بہت مختصر کردیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرتا ہے اس سے بھی اسے مختصر معلوم ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :3 روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور ملائکہ سے الگ ان کا ذکر ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے ۔ سورہ شعراء میں فرمایا گیا ہے کہ نزل بہ الروح الامین علی قلبک ( اس قرآن کو روح امین لے کر تمہارے دل پر نازل ہوئے ہیں ) ۔ اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک ( کہو کہ جو شخص جبریل کا اس لیے دشمن ہو کہ اس نے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۔ ۔ ۔ ) ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ روح سے مراد جبریل ہی ہیں ۔ سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :4 یہ سارا مضمون متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین نہیں کیے جا سکتے ۔ ہم نہ فرشتوں کی حقیقت جانتے ہیں ، نہ ان کے چڑھنے کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں ، نہ یہ بات ہمارے ذہن کی گرفت میں آ سکتی ہے کہ وہ زینے کیسے ہیں جن پر فرشتے چڑھتے ہیں ، اور اللہ تعالی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے ، کیونکہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے ۔ سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :5 سورہ حج ، آیت 47 میں ارشاد ہوا ہے یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے ۔ ۔ سورہ السجدہ ، آیت 5 میں فرمایا گیا ہے وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے ، پھر ( اس کی روداد ) اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ا یسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے ۔ اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالی کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں اور انہیں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالی کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے ۔ اور یہ مدت بھی محض بطور مثال ہے ، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں ۔ انہیں منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوع انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ فلاں ساعت خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ کوئی انسان یہ نہیں جان سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا ، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لیے طے کی گئی ہے ، کون سی ساعت اس کے اختتام کے لیے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی ، اور کون سا وقت اس غرض کے لیے رکھا گیا ہے کہ آغاز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر ان کا حساب لیا جائے ۔ اس منصوبے کے صرف اس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے ۔ رہا اس کا آغاز و انجام ، تو اسے جاننا تو درکنار ، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے ، کجا کہ ہم ان حکمتوں کو سمجھ سکیں جو اس کے پیچھے کام کر رہی ہیں ۔ اب جو لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس منصوبے کو ختم کر کے اس کا انجام فوراً ان کے سامنے لے آیا جائے ، اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اسے اس بات کی دلیل قرار دیتے کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے ، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ( مزیدتشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، الحج ، حواشی 92 ۔ 93 ۔ جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ 9 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: اس دن سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک قیامت کا دن ہے جو کافروں کو حساب و کتاب کی سختی کی وجہ پچاس ہزار سال کا محسوس ہوگا، ان حضرات کا کہنا ہے کہ اسی دن کو سورۂ تنزیل السجدہ (۳۲:۵) میں ایک ہزار سال کے برابر قرار دیا گیا ہے، وہ اس لئے کہ حساب و کتاب کی سختی کی نوعیت کے لحاظ سے کسی کو وہ ایک ہزار سال کا معلوم ہوگا، اور جس کسی کو اور زیادہ سختی اٹھانی ہوگی، اُسے پچاس ہزار سال کا معلوم ہوگا۔ لیکن اس آیت کی ایک دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اُس کا وقت، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا۔ اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو درحقیقت تم جس مدت کو ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ چنانچہ سورۃ حج (۲۲:۴۷) میں بھی یہ بات اسی سلسلے میں فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ عذاب کو جلدی لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور یہاں سور معارج میں بھی اُسی شخص کے جواب میں یہ بات اِرشاد فرمائی گئی ہے جو عذاب مانگ رہا تھا۔