[٤] صبر جمیل کا مفہوم اور فائدہ :۔ صبر جمیل یہ ہے کہ کسی کے طعن وتشنیع، مذاق و تمسخر اور ایذا رسانی کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلیا جائے۔ خود تکلیف سہہ لی جائے مگر تکلیف پہنچانے والے کو زبان سے بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔ نہ ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور شکوہ کیا جائے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ صبر جمیل جس قدر تلخ اور ناگوار ہوتا ہے اس کا پھل اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مکی دور میں مسلمانوں کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر جمیل ہی کی تلقین کی جاتی رہی وجہ یہ تھی کہ اگر مسلمان اس دور میں محاذ آرائی پر اتر آتے، خواہ یہ صرف زبانی تلخ کلامی تک ہی محدود ہوتی تو اس سے اسلام کی دعوت کے مقصد کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اسلام کی منزل مقصود یہ تھی کہ اللہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ جو تیئس سال کے قلیل عرصہ میں حاصل ہوگئی اور اگر مسلمان اسی دور میں محاذ آرائی شروع کردیتے تو نہ معلوم اس مقصد کے حصول میں کتنی لمبی مدت کی تاخیر واقع ہوجاتی۔
فاصبر صبراً جمیلاً …: یعنی آپ کفار کی طرف سے عذاب کے مطالبے اور مذاق پر صبر کریں۔” صبرا ً جمیلاً “ جس میں نہ تنگدلی ہو نہ گھبراہٹ نہ جلد بازی ہو، نہ شکوہ اور نہ ش کیا ت۔ یہ لوگ اس عذاب کو بعید سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ان کا اس پر ایمان نہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اس کا آٹا یقینی ہے اور تمہارے پچاس ہزار سال ہمارے ہاں ایک دن شمار ہوتے ہیں۔
فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا ٥- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )
(٥۔ ٧) سو محمد آپ ان کی تکالیف پر ایسا صبر کیجیے جس میں شکایت کا نام نہ ہو یا ایسی علیحدگی اختیار کیجیے۔- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا یہ کفار مکہ قیامت کے عذاب کو غیر ممکن سمجھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب آنے والا دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہر ایک آنے والی چیز جو کہ ہو کر رہتی ہے وہ قریب ہے۔
آیت ٥ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا ۔ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی خوبصورتی سے صبر کیجیے۔ “- یہ ہے وہ اصل پیغام جو ان آیات کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دینا مقصود تھا ‘ کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے ‘ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہوگا ۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کا صبر اور استقامت کے ساتھ سامنا کریں۔ اس سے پہلے سورة القلم میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی ہی ہدایت کی گئی ہے : فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ٧ (آیت ٤٨) ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا ‘ اور دیکھئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا “
سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :6 یعنی ایسا صبر جو ایک عالی ظرف انسان کے شایان شان ہے ۔