Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 جدث کے معنی ہیں قبر۔ جہاں بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بتوں کے معنی میں بھی استعمال ہے۔ بتوں کے پجاری جب سورج طلوع ہوتا تھا تو نہایت تیزی سے اپنے بتوں کی طرف دوڑتے کہ کون پہلے اسے بوسہ دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن اپنی قبروں سے برق رفتاری سے نکلیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] نصب کا لغوی مفہوم :۔ نُصُبٍ : نصب الشئی بمعنی کسی چیز کو سیدھے رخ کھڑا کردینا اور زمین میں گاڑ دینا اور نصیب اس پتھر کو بھی کہتے ہیں جو بطور نشان راہ گاڑا جاتا ہے نیز نصیب پتھر یا لوہے کے اس مجسمے کو بھی کہتے ہیں جو کسی جگہ بغرض عبادت نصب کردیا گیا ہو۔ یہ مجسمے عموماً نبیوں، ولیوں اور پیروں یا بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔ اور ایسے مقامات جہاں یہ مجسمے نصب ہوں انہیں بھی نصیب یا تھان یا استھان یا آستانے کہا جات ہے اور نصیب کی جمع نصب یا انصاب آتی ہے۔ گویا نصب کے تین معنی ہوئے (١) نشان راہ کے پتھر، (٢) نصب شدہ مجسمے، (٣) وہ مقام جہاں مجسمے یا بت نصب ہوں۔ اس آیت میں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ پہلا معنی اس لحاظ سے کہ ان کا یہ دوڑنا اللہ کے حکم کے تحت اور اضطراری امر ہوگا اور باقی دونوں معنی اس لحاظ سے کہ دنیا میں وہ ایسے بتوں کے مجسموں اور تھانوں کی طرف تیزی سے دوڑ کر جایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن بھی وہ اسی طرح تیزی سے دوڑے جارہے ہوں گے اور اللہ نے ان کے لئے وہی کیفیت بیان فرمائی جس کو وہ خوب جانتے اور اس دنیا میں اس کے عادی تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یوم یخرجون من الاجداث…:” الاجداث “ ” جدث “ (جیم اور دال کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، قبریں۔” سراعاً “” سریع “ کی جمع ہے، دوڑنے والے۔ قیامت کے دن قبروں سے اتنی تیزی سے نکل کر دوڑیں گے جس طرح وہ لوگ تیزی سے دوڑتے ہیں جو نشانہ بازی کے وقت ایک نشان گاڑ لیتے ہیں، پھر تیلر چلا کر تیزی سے دوڑتے ہیں، تاکہ جا کر دیکھیں کہ نشانہ درست لگا ہے یا نہیں۔ ” نصب “ ان پتھروں کو بھی کہتے ہیں جو عبادت کے لئے نصب کئے جاتے ہیں۔ مشرکین دنیا میں بوتں اور آستانوں کی طرف تیزی سے جایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن ایسے ہی قبروں سے نکل کر حشر کے میدان کی طرف تیزی سے دوڑتے ہوئے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّہُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْنَ۝ ٤٣ ۙ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - جدث - قال تعالی: يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج 43] ، جمع الجَدَث، يقال : جدث وجدف وفي سورة يس : فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس 51] .- ( ج د ث ) جدث ۔ قرج اجداث قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج 43] اس دن یہ قبر سے نکل کر ( اس طرح ) دوڑیں گے ۔ اور سورة یسن میں ہے : ۔ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس 51] یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کیطرف دوڑیں گے ۔ اور قبروں کو جدف بھی کہا جاتا ہے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - نصب ( تعب)- والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی:- عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] .- ( ن ص ب ) نصب - اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔- وفض - الإِيفَاضُ : الإسراعُ ، وأصله أن يعدو من عليه الوَفْضَةُ ، وهي الکنانة تتخشخش عليه، وجمعها : الوِفَاضُ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج 43] أي : يسرعون، وقیل : الأَوْفَاضُ الفرق من الناس المستعجلة . يقال : لقیته علی أَوْفَاضٍ . أي : علی عجلة، الواحد : وَفْضٌ.- ( و ف ض ) الایفاض ۔ ( افعال ) کے معنی تیزروی کے ہیں اور اصل میں اس کے معنی کسی کے وفضۃ کو اٹھا کر اس طرح تیزی سے بھاگنے کے ہیں کہ اس سے خشخثہ کی آواز پیداہو اور وفضۃ چمڑی کے ترکش کو کہتے ہیں اس کی جمع وفاض آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج 43] جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف درڑتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے ک اوفاض تیز رو جماعتوں کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لقیتہ علیٰ اوفاض میں اسے عجلت میں ملا ۔ اس کا واحد وفض ہے جس کے معنی جلدی کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ اس عذاب کے وقت کو بیان فرماتے ہیں کہ جس دن ان کا اس تیزی کے ساتھ قبروں سے نکل کر صور کی آواز کی طرف دوڑنا ہوگا جیسا کہ کسی نشان اور جھنڈے کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ ۔ ” جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے ‘ جیسے کہ وہ مقرر نشانوں کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔ “- ” نُصُب “ سے مراد وہ نشان ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر دوڑنے والا دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :30 اصل الفاظ ہیں الی نصب یوفضون ۔ نصب کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ان میں سے بعض نے اس سے مراد بت لیے ہیں اور ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اور محشر کی مقرر کی ہوئی جگہ کی طرف اس طرح دوڑے جا رہے ہونگے جیسے آج وہ اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ نشان لیے ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر ایک دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani