Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عذاب کے طالب عذاب دیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس عذاب کو یہ طلب کر رہے ہیں وہ عذاب ان طلب کرنے والے کافروں پر اس دن آئے گا جس دن آسمان مثل مھل کے ہو جائے ، یعنی زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے ، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں جیسے دھنی ہوئی اون ، یہی فرمان اور جگہ ہے آیت ( وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ Ḍ۝ۙ ) 70- المعارج:9 ) پھر فرماتا ہے کوئی قریبی رشتہ دار کسی اپنے قریبی رشتہ دار سے پوچھ گچھ بھی نہ کرے گا حالانکہ ایک دوسرے کو بری حالت میں دیکھ رہے ہوں گے لیکن خود ایسے مشغول ہوں گے کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا بھی ہوش نہیں سب آپا دھاپی میں پڑے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھے گا پہچانے لگا لیکن پھر بھاگ کھڑا ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ 37؀ۭ ) 80-عبس:37 ) یعنی ہر ایک ایسے مشغلے میں لگا ہوا ہو گا جو دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دے گا ۔ ایک اور جگہ فرمان ہے لوگو اپنے رب سے ڈر اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا اور جگہ ارشاد ہے کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا ، گو قرابت دار ہوں اور جگہ فرمان ہے لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا اور جگہ ارشاد ہے کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا ، گو قرابت دار ہوں اور جگہ فرمان ہے آیت ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١؁ ) 23- المؤمنون:101 ) یعنی صور پھونکتے ہی سب آپس کے رشتے ناتے اور پوچھ گچھ ختم ہو جائے گی اور جگہ فرمان ہے یعنی اس دن انسان اپنے بھائی ، ماں ، باپ ، بیوی اور فرزند سے بھاگتا پھرے گا ۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں کی وجہ سے دوسرے سے غافل ہو گا ، یہ وہ دن ہو گا کہ اس دن ہر گنہگار دل سے چاہے گا کہ اپنی اولاد کو اپنے فدیہ میں دے کر جہنم کے آج کے عذاب سے چھوٹ جائے اور اپنی بیوی ، بھائی ، اپنے رشتے کنبے ، اپنے خاندان اور قبیلے کو بلکہ چاہے گا کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے لیکن اسے آزاد کر دیا جائے ۔ آہ کیا ہی دل گداز منظر ہے کہ انسان اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو ، اپنی شاخوں ، اپنی جڑوں سب کو آج فدا کرنے پر تیار ہے تاکہ خود بچ جائے ۔ ( فصیلہ ) کے معنی ماں کے بھی کئے گئے ہیں ، غرض تمام تر محبوب ہستیوں کو اپنی طرف سے بھینٹ میں دینے پر دل سے رضامند ہو گا ، لیکن کوئی چیز کام نہ آئے گی کوئی بدلہ اور فدیہ نہ کھپے گا ، کوئی عوض اور معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا بلکہ اس آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا جو اونچے اونچے اور تیز تیز شعلے پھینکنے والی اور سخت بھڑکنے والی ہے جو سر کی کھال تک جھلسا کر کھینچ لاتی ہے ، بدن کی کھال دور کر دیتی ہے اور کھوپڑی پلپلی کر دیتی ہے ، ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر دیتی ہے ، رگ پٹھے کھنچنے لگتے ہیں ، ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں ، پنڈلیاں کٹی جاتی ہیں چہرہ بگڑ جاتا ہے ، ہر ایک عضو بدل جاتا ہے ، چیخ پکار کرتا رہتا ہے ، ہڈیوں کا چورا کرتی رہتی ہے ، کھالیں جلائی جاتی ہے ۔ یہ آگ اپنی فصیح زبان اور اونچی آواز سے اپنے والوں کو جنہوں نے دنیا میں بدکاریاں اور اللہ کی نافرمانیاں کی تھیں پکارتی ہے پھر جس طرح پرند جانور دانہ چگتا ہے اسی طرح میدان محشر میں سے ایسے بدلوگوں کو ایک ایک کر کے دیکھ بھال کر چن لیتی ہے ، اب ان کی بد اعمالیاں بیان ہو رہی ہیں کہ یہ دل سے جھٹلانے والے اور بدن سے عمل چھوڑ دینے والے تھے ، یہ مال کو جمع کرنے والے اور سربند کر کے رکھ چھوڑنے والے تھے ، اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام میں بھی مال خرچ کرنے سے بھاگتے تھے بلکہ زکوٰۃ تک ادا نہ کرتے تھے ، حدیث شریف میں ہے سمیٹ سمیٹ کر سینت سینت کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا ، حضرت عبداللہ بن حکیم تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی تھیلی کا منہ ہی نہ باندھتے تھے ، امام حسن بصری فرماتے ہیں اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی وعید سن رہا ہے پھر مال سمیٹتا جا رہا ہے؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مال کو جمع کرنے میں حلال حرام کا پاس نہ رکھتا تھا اور فرمان اللہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کی ہمت نہیں کرتا تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] مُھْل کے معنی پگھلا ہوا تانبا بھی اور تیل کی تلچھٹ بھی۔ اور ان دونوں چیزوں کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے۔ یعنی آج تو ہمیں آسمان نیلگوں نظر آتا ہے اس دن یہ اپنا رنگ بدلنا شروع کردے گا حتیٰ کہ نیلگوں ہونے کی بجائے سرخی مائل ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یوم تکون السمآء کالمھل…:” کالمھل “ یعنی آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (سرخ اور گرم ہو کر پھٹ جائے گا۔ ) (دیکھیے رحمان : ٣٧)” العھن “ اون، یعنی پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح بالکل ہلکے ہو کر اڑنے لگیں گے۔ دیکھیے سورة طہ (١٠٥) ۔ قارعہ (٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُہْلِ۝ ٨ ۙ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- مهل - المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً- [ الطارق 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] .- ( م ھ ل ) المھل - کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ان پر وہ عذاب اس روز واقع ہوگا جس دن آسمان رنگت میں تیل کی تلچھٹ کی طرح یا یہ کہ پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :8 مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس فقرے کا تعلق فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ سے مانا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال کی مدت جس دن کی بتائی گئی ہے اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں حضرت ابو سعید خدری سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ تو بڑا ہی طویل دن ہو گا ۔ اس پر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے مومن کے لیے وہ دن اس سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا ۔ یہ روایت اگر صحیح سند سے منقول ہوتی تو پھر اس کے سوا اس آیت کی کوئی دوسری تاویل نہیں کی جا سکتی تھی ۔ لیکن اس کی سند میں دراج اور اس کے شیخ ابو الہثیم ، دونوں ضعیف ہیں ۔ سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :9 یعنی بار بار نگ بدلے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani