22۔ 1 یہ مکر یا فریب کیا تھا بعض کہتے ہیں ان کا بعض لوگوں کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے قتل پر ابھارنا تھا بعض کہتے ہیں کہ مال واولاد کی وجہ سے جس فریب نفس کا وہ شکار ہوئے حتی کہ بعض نے کہا کہ اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ان کو یہ نعمتیں میسر کیوں آتیں ؟ بعض کے نزدیک ان کا کفر ہی بڑا مکر تھا۔
[١٣] ان سرداروں نے اپنے پیروکاروں میں نوح (علیہ السلام) کی شخصیت کو ہمیشہ برے انداز میں ہی پیش کیا اور انہیں یہی باور کراتے رہے کہ یہ شخص تو محض اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطر یہ سارے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اور وہ بات ہی ایسی انہونی کہتا ہے جو کم از کم ہماری عقل باور نہیں کرسکتی۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک اکیلا خدا ہی کائنات کا سارا انتظام چلا رہا ہو۔ ہر ایک کی براہ راست فریاد سنتا ہو، پھر فریاد رسی بھی کرتا ہو۔ ہر بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لیے بیشمار امیروں، وزیروں، ماتحتوں اور کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور انہی کی وساطت سے بادشاہ تک فریاد پہنچائی جاسکتی ہے۔ پھر ہم اپنے معبودوں کا کیسے اس کے کہنے پر انکار کردیں۔ اس کی بات میں کچھ بھی وزن ہوتا تو اہل عقل اور شریف لوگ اس کے ساتھی ہوتے۔ اس کے بجائے اس کے جو چند ساتھی ہیں بھی تو وہ بدھو اور ذلیل قسم کے لوگ ہیں۔ اور ان باتوں کا انہوں نے اس طرح اجتماعی طور پر پروپیگنڈا کیا اور پوری قوم اس پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوچکی تھی کہ جو کوئی مرنے لگتا تو اولاد کو بڑی تاکید سے یہ وصیت کرجاتا کہ اس بڈھے نوح کے جال میں نہ پھنس جانا۔ یہ تو دیوانہ ہے جو چاہتا ہے کہ ہم اپنے آبائی دین کو خیرباد کہہ دیں۔
(ومکروا مکراً کباراً :” کباراً “ (باء کی تشدید کیساتھ ) میں ” کبار “ (باء کی تشدید کے بغیر) سے زیادہ مبالغہ ہے اور ” کبار “ میں ” کبیر “ سے زیادہ مبالغہ ہے، یعنی انہوں نے بہت ہی بڑی بڑی خفیہ تدبیریں کیں۔ ” مکرا “ جنس ہے، اس سے صرف ایک ہی مکر مراد نہیں۔ یہ اسی قسم کے حربے تھے جو ہمیشہ کسی قوم کے چوھدری اور مال دار لوگ اپنے اقتدار کی خاطر اہل حق کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں ان میں سے کئی حربے مذکور ہیں ، مثلاً یہ کہ اگر نوح (علیہ السلام ) اللہ کا نبی ہوتا تو فرشتہ ہوتا، یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ اس کے پیرو کار پنچ لوگ ہیں، اگر یہ رسول ہوتا تو اس کے پاس خزانے ہوتے ، بڑے بڑے لوگ اس کے ساتھ ہوتے، یہ غیب جانتا ہوتا، یہ تو بس سرداری چاہتا ہے، یہ دیوانہ ہے وغیرہ۔ مزید تفصیل کے لئے سورة اعراف، سورة ہود اور سورة مومنوں وغیرہ میں نوح (علیہ السلام) کے واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھی یہی حربے استعمال کئے گئے۔
وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا ٢٢ ۚ- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :
آیت ٢٢ وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا ۔ ” اور ان لوگوں نے ایک چال بھی چلی بہت بڑی چال۔ “- یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے بڑے بڑے سرداروں کی اس چال کا ذکر ہے جس کے تحت انہوں نے مذہبی اور نسلی عصبیت کا سہارا لے کر عوام کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکایا تھا۔ انہوں نے اپنے اسلاف میں سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کے ُ بت بنا کر رکھے ہوئے تھے اور انہی بتوں کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں ان بتوں کو چھوڑنے اور ایک اللہ کو معبود ماننے کی دعوت دی تو قوم کے سرداروں کو آپ (علیہ السلام) کے خلاف یہ دلیل مل گئی کہ آپ (علیہ السلام) ان کے بزرگوں اور اولیاء اللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ چناچہ اس ” مضبوط اور موثر “ دلیل کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنے عوام کو اس نعرے پر متحد کرلیا کہ اب جو ہو سو ہو ہم اپنے ان معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :16 مکر سے مراد ان سرداروں اور پیشواؤں کے وہ فریب ہیں جن سے وہ اپنی قوم کے عوام کو حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف بہکانے کی کوشش کرتے تھے ۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ نوح تمہی جیسا ایک آدمی ہے کیسے مان لیا جائے کہ اس پر خدا کی طرف سے وحی آئی ہے ( الاعراف 63 ۔ ہود 27 ) ۔ نوح کی پیروی تو ہمارے اراذل نے بے سوچے سمجھے قبول کر لی ہے ، اگر اس کی بات میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے اکابر اس پر ایمان لاتے ( ہود 27 ) ۔ خدا کو اگر بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا ( المومنون 24 ) ۔ اگر یہ شخص خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو اس کے پاس خزانے ہوتے ، اس کو علم غیب حاصل ہوتا اور یہ فرشتوں کی طرح انسانی حاجات سے بے نیاز ہوتا ( ہود 31 ) ۔ نوح اور اس کے پیرووں میں آخر کونسی کرامت نظر آتی ہے جس کی بنا پر ان کی فضیلت مان لی جائے ( ہود 27 ) ۔ یہ شخص دراصل تم پر اپنی سرداری جمانا چاہتا ہے ( المومنون 24 ) ۔ اس شخص پر کسی جن کا سایہ ہے جس نے اسے دیوانہ بنا دیا ہے ( المومنون 25 ) ، قریب قریب یہی باتیں تھیں جن سے قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو بہکایا کرتے تھے ۔
5: یہ اُن سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے دُشمن اُن کے خلاف کررہے تھے۔