23۔ 1 یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے وہ لوگ تھے جن کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، یہ پانچوں قوم نوح (علیہ السلام) کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مرگئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصوریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کردیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چناچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی (صحیح بخاری)
[١٤] نوح کی قوم کے بت عرب میں کیسے رائج ہوگئے :۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ : جو بت نوح کی قوم میں پوجے جاتے تھے، وہی بعد میں عرب میں آگئے، ودّ کلب قبیلے کا بت تھا جو دومۃ الجندل میں تھا۔ سواع ہذیل قبیلے کا بت تھا، یغوث پہلے مرار قبیلے کا بت تھا پھر بنی غُطَیْفْ کا اور یہ سبا شہر کے پاس جوف میں تھا، یعوق ہمدان قبیلے کا تھا اور نسر حمیر قبیلے کا، جوذی الکلاع (بادشاہ) کی اولاد تھے۔ یہ نوح کی قوم میں سے چند نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب وہ مرگئے تو شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ جہاں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر (یادگار کے طور پر) نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھو جو ان بزرگوں کے تھے۔ اس وقت ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن جب وہ لوگ گزر گئے تو بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا اور وہ ان کی پرستش کرنے لگے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بتوں کے پجاری یا نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سب مشرک تو طوفان نوح میں غرق کردیئے گئے تھے جو باقی بچے تھے وہ سب مومن اور موحد تھے پھر بعد میں انہی بتوں کی پوجا کیسے شروع ہوگئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شیطان نے بچے ہوئے موحدین کے آباء و اجداد کو چکمہ دے کر ان سے ان صالحین کی آہستہ آہستہ پرستش شروع کرادی تھی۔ شیطان کی وہی چال بعد میں کامیاب رہی۔ موحدین نے اپنی اولاد کو طوفان نوح کا قصہ اور اس کی وجہ بیان کی۔ چند پشتیں گزرنے کے بعد انہی بتوں سے لوگوں میں عقیدت پیدا ہوگئی جن کی وجہ سے قوم نوح پر عذاب آیا تھا۔
(١) وقالوا لاتذرون الھتکم…: ساڑھے نو سو سال میں اللہ بہتر جانتا ہے کتنی ہی نسلیں ختم ہوئیں اور کتنی نئی پیدا ہوئیں، مگر ہر پہلا پچھلے کو جیتے جی اور مترے وقت یہی تاکید کرتا رہا کہ دیکھنا ن وح کے کہنے پر ود، سواع، یغوث ، یعقو اور نسر کی عبادت ہرگز ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ وہ پانچ بت تھے جن کی عبادت قوم نوح کرتی تھی۔ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” یہ پانچوں نوح (رض) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈلای کہ (بطور یادگار) جن مجلسوں میں وہ بیٹھتے تھے وہاں ان کے بت نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھ دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس وقت ان کی عبادت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ جب وہ بطور یادگار بت نصب کرنے والے) فوت ہوگئے اور (کسی کو اس بات کا) علم نہ رہا تو ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ “ (بخاری، التفسیر، باب :(ودا ولا سواعا…“: ٣٩٢) اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی کا اصل باعث اکابر کی محبت میں غلو اور ان کے مجسمے بنا کر انہیں نصب کرنا تھا۔ شریعت میں تصویر کی حرمت کے دیگر اسبابکے عالوہ ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے۔ ابن عباس (رض) کی اسی روایت میں جو اوپر گزری ہے، مذکور ہے کہ یہی بات جو قوم نوح میں تھے “ بعد میں عرب کے اندر آگئے۔” ود “ دومتہ الجندل میں کلب قبیلے کا بت تھا،” سواع “ ہذیل کا تھا، ” یغوث “ مراد قبیلے کا پھر (اس کی شاخ) بنو غطیف کا تھا، جو سبا کے قریب وادی جرف میں (آباد) تھے۔ ” یعوق “ ہمدان کا اور ” نسر “ حمیر کا تھا جو ذوالکلاع کی آل تھے۔ (بخاری ، ایضاً )- یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے طوفان کے بعد جس میں تمام مشرک غرق کردیئے گئے وہ بت کیسے باقی رہ گئے اور دوبارہ ان کی پرستش کیسے شروع ہوگئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان قدتری طور پر اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات جاننے کا شوق رکھتا ہے، چناچہ علم تاریخ اسی شوق کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے ساتھ باقی بچنے والے اہل ایمان سے بعد والین سلوں نے ان بزرگوں کی نیکی اور کرامتوں کے واقعات سنے، وقت گزرنے کیساتھ جب جہالت کا غلبہ ہوا تو شیطان نے ان کے ہاتھوں آثار قدیمہ کے طور پر وہی بت نکلوا کر یا ان سے ان اکابر کے فرضی مجسمے بنوا کر، جیسا کہ نصرانیوں نے مسیح اور مریم (علیہ السلام) کے فرض مجسمے بنا رکھے ہیں، دوبارہ ان کی عبادت شروع کروا دی۔ بہرحال یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان پانچوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور باقاعدہ ان کے آستانے موجود تھے، جیسا کہ ابن عباس (رض) کی حدیث میں گزرا ہے۔ عرب میں عبدود اور عبدیغوث وغیرہ نام بھی ملتے ہیں۔- (٢) حافظ ابن حجر (رح) نے فرمایا :” واقدی کا بیان ہے کہ ” ود “ ایک آدمی کی شکل میں،” سواع “ عورت کی شکل میں ،” یغوث “ شیر کی صورت میں، ” یعقو “ گھوڑے کی شکل میں اور ” نسر “ ایک پرندے کی صورت میں تھا، مگر یہ شاذ ہے۔ مشہور یہی ہے کہ یہ سب انسانی شکل میں تھے اور ان کی عبادت کے آغاز کا جو سبب بیان ہوا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ “ (فتح الباری) حافظ ابن حجر (رح) کی بات نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے بتوں کے متعلق تو یقیناً درست ہے ، مگر بعد میں جب فرضی بت بنائے گئے تو ممکن ہے کہ ان جانوروں کی شکل پر بنائیگئے ہوں، جیسا کہ مشرک قوموں میں عامط ور پر پایا جاتا ہے۔ (واللہ اعلم)- (٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ کو شرک سے بچانے کے لئے ان دروازوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا جہاں سے شرک داخل ہوسکتا ہے۔ قبر پرستی کے فتنے کی ابتدا قبروں پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے سے ہوتی ہے اور بت پرستی کی ابتدا تصویریں اور مجسمے بنانے سے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں چیزوں سے منع فرمایا اور اونچی قبروں کو (دوسری قبروں کے) بربار کردینے اور ہر تصویر کو مٹا دینے کا حکم دیا۔ ابوالہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے علی بن ابی طالب (رض) عنہمانے فرمایا :(الا ایعثک علی ما یعثنی علیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ ان لاتدع تمثالاً الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ ) (مسلم، الجنائر، باب الامر بستسویۃ القیر : ٩٦٩)” کیا میں تمہیں اس کام پر مقرر کر کے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمایا تھا ؟ وہ یہ تھا کہ کوئی مورتی نہ چھوڑو مگر اسے مٹا دو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دو ۔ “
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ٠ۥۙ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا ٢٣ ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- ود، سواع، یغوث، یعوق وغیرہ حضرت نوح کی قوم کے چند بتوں کے نام تھے۔
اور ان سرداروں نے کمزوروں سے کہا کہ تم اپنے معبودوں کی پرستش کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ ود کی پرستش کو اور نہ سواع کی اور نہ یغوث کی اور نہ یعوق کی اور نہ نسر کی پرستش کو چھوڑنا اور یہ ان کے مشہور بت تھے جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے۔
آیت ٢٣ وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ ” اور انہوں نے کہا کہ تم اپنے ان معبودوں کو ہرگز چھوڑ نہ بیٹھنا۔ “- اس سے ملتا جلتا نعرہ سردارانِ قریش نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اپنے عوام کو سکھایا تھا : وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ ۔ (صٓ) ” اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ “- وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًالا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ۔ ” ہرگز مت چھوڑنا وَد کو ‘ سواع کو ‘ یغوث کو ‘ یعوق کو اور نسر کو۔ “- یہ سب اس قوم کے بتوں کے نام ہیں اور ان میں سے بیشتر اولیاء اللہ کی شخصیات کے بت تھے۔ یَغُوْث کے تلفظ ّمیں ” غیاث “ یا ” غوث “ کی مشابہت سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اولیاء اللہ میں سے کسی ایسی شخصیت کا بت تھا جسے وہ لوگ اپنافریاد رس سمجھتے تھے۔ دراصل حضرت آدم اور حضرت نوح - کے درمیانی زمانے میں بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) گزرے ہیں۔ حضرت شیث اور حضرت ادریس - اسی دور کے نبی ہیں۔ ظاہر ہے ان پیغمبروں کے پیروکاروں میں بہت سے نیک لوگ اور اولیاء اللہ بھی ہوں گے ۔ چناچہ بعد کی نسلوں کے لوگوں نے عقیدت و احترام کے جذبے کے تحت ان اولیاء اللہ کی مورتیاں بنا لیں ۔ شروع شروع میں وہ ان مورتیوں کو احتراماً سلام کرتے ہوں گے ‘ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ ان کی باقاعدہ پوجا شروع کردی گئی ۔ اسی طرح آج ہمارے ہاں بھی بعض لوگ اپنے گھروں میں اولیاء اللہ اور پیروں کی تصاویر بڑے اہتمام کے ساتھ آویزاں کرتے ہیں ‘ بلکہ ان تصویروں کے گلوں میں باقاعدہ ہار بھی ڈالے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک صاحب کے گھر میں ایک تصویر آویزاں دیکھی جس میں خواجہ معین الدین اجمیری ‘ حضرت بختیار کا کی اور بابا فرید شکرگنج - تینوں بیک وقت جمع تھے اور تصویر پر ہار ڈالے گئے تھے ۔ ایسی روایات جب نسل در نسل آگے بڑھتی ہیں تو تدریجاً بت پرستی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ظاہر ہے عقائد و نظریات میں بگاڑ ایک دم تو پیدا نہیں ہوتا بلکہ ملتان کی زبان میں اس عمل کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” بندہ تھیندا تھیندا تھی ویندا اے “۔ بہرحال بعض اوقات انسان نظریاتی طور پر رفتہ رفتہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اسے خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :17 قوم نوح کے معبودوں میں سے یہاں ان معبودوں کے نام لیے گئے ہیں جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا شروع کر دیا تھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ ان کے مندر بنے ہوئے تھے ۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قوم نوح کے قدیم معبودوں کا ذکر سنا ہو گا اور جب از سرنو ان کی اولاد میں جاہلیت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بت بنا کر انہوں نے پھر انہیں پوجنا شروع کر دیا ہو گا ۔ ود قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب بن وبرہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دومتہ الجندل میں بنا رکھا تھا ۔ عرب کے قدیم کتبات میں ان کا نام ودم ابم ( ود باپو ) لکھا ہوا ملتا ہے ۔ کلبی کا بیان ہے کہ اس کا بت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا ۔ پریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں ود تھا ۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام عبد ود ملتا ہے ۔ سواع قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اور اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا ۔ ینبوع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا ۔ یغوث قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا ۔ مذحج والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی ۔ قریش کے لوگوں میں بھی بعض کا نام عبد یغوث ملتا ہے ۔ یعوق یمن کے علاہ ہمدان میں قبیلہ ہمدان کی شاخ خیوان کا معبود تھا اور اس کا بت گھوڑے کی شکل کا تھا ۔ نسر حمیر کے علاقے میں قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا اور بلخع کے مقام پر اس کا بت نصب تھا جس کی شکل گدھ کی تھی ۔ سبا کے قدیم کتبوں میں اس کا نام نسور لکھا ہوا ملتا ہے ۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بیت نسور ۔ اور اس کے بجاریوں کو اہل نسور کہتے تھے ۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔
6: یہ سب اُن بتوں کے نام ہیں جن کو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پوجا کرتی تھی۔