4۔ 1 اس کے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مذید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔
یغفرلکم من ذنوبکر :” من “ کا معنی عام طور پر ” بعض “ ہوتا ہے، اس صورت میں معنی ہوگا ” اور وہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا۔ “ مگر اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ کچھ گناہ تو پھر بھی باقی رہ گئے، ان کا کیا بنے گا ؟ اس کا ایک جواب وہ ہے جو امام ابن جریر طبری (رح) نے دیا ہے کہ یہاں ” من “ ” عن “ کی جگہ آیا ہے اور ” جمیع “ کا معنی دے رہا ہے، گویا ” یغفر “ کے ضمن میں ” یصفح “ اور ” یعفو “ کا معنی ملحظو ہے : ای یعفولکم عن جمیع ذنوبکم، “ یعنی وہ تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا۔ “ دوسرا یہ ہے کہ ” من “ ” بعض “ ہی کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر تم میری دعوت قبول کر کے ایمان لے آؤ گے تو تمہارے پہلے گناہ معاف ہوجائیں گے، کیونکہ اسلام پہلے سب گناہ مٹا دیتا ہے۔ البتہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچتے رہنا، یہ نہ سمجھنا کہ ایمان لانے سے پہلے پچھلے سب گناہ معاف ہو اجیئں گے۔- (٢) ویوخرکم الی اجل مسمی : یعنی طبعی موت کا ایک وقت مقرر ہے، وہ کفر کی وجہ سے یا ایمان نہ لانے کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ ہر مومن و کافر پر آتی ہے۔ وہ تو اپنے مقرر وقت پر آکر رہے گی، البتہ ایمان لے آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب سے جو کفر کے نتیجے میں آتا ہے، تمہیں محفوظ رکھے گا۔- (٣) ان اجل اللہ اذا جآء لایوخر…: اس مقرر وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی قوم پر عذاب کے لئے مقرر ہوتا ہے۔ کاش تمہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ وہ وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی قوم پر عذاب کے لئے مقرر ہوتا ہے۔ کاش تمہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ وہ وقت آنے پر مہلت ختم ہو اجئے گی، پھر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو تم اس سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ۔
معارف و مسائل ۙيَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ ، حرف من اکثر تبعین یعنی جزئمت بتلانے کے لئے آتا ہے اگر یہ معنے لئے جاویں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے سے تمہارے سے وہ گناہ مغاف ہوجائیں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے کیونکہ حقوق العباد کی معافی کے لئے ایمان لانے کے بعد بھی یہ شرط ہے کہ جو حقوق ادائیگی کے قابل ہیں ان کو ادا کرے جیسے مالی واجبات، اور جو قابل ادائیگی نہیں جیسے زبان یا ہاتھ سے کسی کو ایذاء پہنچائی اس سے معاف کرائے۔- حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ایمان لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس میں بھی حقوق العباد کی ادائیگی یا معافی شرط ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ حرف من اس جگہ زائد ہے اور مراد یہ ہے کہ ایمان لانے سے تمہارے سب گناہ معاف ہو جائینگے، مگر دوسری نصوص کی بناء پر شرط مذکور بہرحال ضروری ہے۔- وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى، اجل کے معنے مدت اور مسمی سے مراد متعین کردہ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس مدت تک دنیا میں مہلت دے گا جو تمہارے لئے مقرر اور متعین ہے یعنی مقررہ مدت عمر سے پہلے تمہیں کسی دنیاوی عذاب میں پکڑ کر ہلاک نہ کریگا۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ایان نہ لائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ مدت مقررہ سے پہلے ہی تم پر عذاب لا کر ہلاک کر دے۔ معلوم ہوا کہ عمر کی مدت مقررہ میں بعض اوقات کوئی شرط ہوتی ہے کہ اس نے فلاں کام کرلیا تو اس کی عمر مثلاً اسی سال ہوگی اور نہ کیا تو ساٹھ سال میں موت مسلط کردی جائے گی یا منفی کا موں میں اللہ کی ناشکری سے عمر گھٹ جانا اور شکر گزاری سے عمر بڑھ جانا، اسی طرح بعض اعمال مثلاً والدین کی اطاعت و خدمت سے عمر میں ترقی ہونا جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس کا بھی یہی مطلب ہے۔- انسان کی عمر میں کمی زیادتی کی بحث :۔- اس کی تشریح تفسیر مظہری میں یہ ہے کہ تقدیر اور قضائے الٰہی کی دو قسمیں ہیں ایک مبرم یعنی قطعی، دوسری معلق یعنی جو کسی شرط پر معلق ہو۔ یعنی لوح محفوظ میں اس طرح لکھا جاتا ہے کہ فلاح شخص نے اگر اللہ کی اطاعت کی تو اس کی عمر مثلاً ستر سال ہوگی اور نہ کی تو پچاس سال میں مار دیا جائے گا اس دوسری قسم تقدیر میں شرط نہ پائے جانے پر تبدیلی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں ان دونوں قسم کی قضا و تقدیر کا ذکر اس آیت میں ہے یمحواللہ مایشآء و یثبت وعندہ ام الکتب۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوح محفوظ میں محو و اثبات یعنی ترمیم و تبدیل کرتا رہتا ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب، اصل کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جس میں تقدیر مبرم لکھی ہوئی ہے کیونکہ تقدیر معلق میں جو شرط لکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ شخص یہ شرط پوری کرے گا یا نہیں، اس لئے تقدیر مبرم میں قطعی فیصلہ لکھا جاتا ہے۔- حضرت سلمان فارسی، کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یرد القضآء الا الدعا ولا یزید فی العمر الا البر رواہ الترمذی (مظہری) یعنی قضائے الٰہی کو کوئی چیز بجز دعا کے نہیں روک سکتی اور کسی کی عمر میں زیادتی بجز برو الدین کے نہیں ہوس کتی۔ بر کے معنے ان کے ساتھ اچھا سلوک ہے اور مطلب اس حدیث کا یہی ہے کہ تقدیر معلق میں ان اعمال کی وجہ سے تبدیلی ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جواَجَلٍ مُّسَمًّى تک موخر کرنے کو ان کے ایمان لانے پر موقوف کیا ہے یہ ان کی عمر کے بارے میں تقدیر معلق کا بیان ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو علم عطا فرما دا ہوگا اس کے سبب سے انہوں نے اپنی قوم کو بتلایا کہ تم ایمان لائے تو جو اصلی عمر تمہارے لئے اللہ نے مقرر فرمائی ہے وہاں تک تمہیں مہلت ملے گی اور کسی عذاب دنیوی کے ذریعہ ہلاک نہ کئے جاؤ گے اور اگر ایمان نہ لائے تو اس اصلی عمر سے پہلے ہی خدا تعالیٰ کا عذاب تمہیں ہلاک کر دے گا اور آخرت کا عذاب اس صورت میں اس کے علاوہ ہوگا۔ آگے یہ بھی بتلا دیا کہ ایمان لانے پر بھی ہمیشہ کے لئے موت سے نجات نہیں ہوگی بلکہ تقدیر پر مبرم میں جو تمہاری عمر لکھی ہوئی ہے اس پر موت آنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اس عالم دنیا کو دائمی نہیں بنایا یہاں کی ہر چیز کو فنا ہونا تقاضائے حکمت ہے اس میں ایمان و اطاعت اور کفر و معصیت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ (آیت) ان اجل اللہ اذا جآء لایوخر۔ میں اس کا بیان ہے آگے حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کی اصلاح و ایمان کے لئے مسلسل مختلف قسم کی کوششوں میں لگے رہنے کا اور قوم کی طرف سے ان کی مخالفت و تکذیب کا بیان تفصیل سے آیا ہے اور آخر میں مایوس ہو کر بد دعا کرنے اور پوری قوم کے عذاب غرق میں مبتلا ہونے کا بیان ہے۔- حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور قرآنی تصریح کے مطباق ان کی عمر پچاس کم ایک ہزار ارسال ہوگی، اس پوری مدت دراز میں نہ کبھی اپنی کوشش کو چھوڑا نہ کبھی مایوس ہوئے قوم کی طرف سے طرح طرح کی ایذائیں دی گئیں سب پر صبر کرتے رہے۔- بروایت ضحاک حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ان کی قوم ان کو اتنا مارتی کہ وہ گر جاتے تو ان کو ایک کمبل میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے یہ مر گئے، مگر پھر جب اگلے روز ان کو ہوش آتا تو ان کو اللہ کی طرف بلاتے اور تبلیغ کے عمل میں لگ جاتے۔ محمد بن اسحاق نے عبید بن عمرولیثی سے روایت کیا ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم ان کا گلا گھونٹ دیتی تھی جس سے وہ بیہوش ہوجاتے اور جب ہوش آتا تو یہ دعا کرتے تھے رب الغفرلقومی انھم لایعلمون اے میرے پروردگار، میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ وہ جانتے نہیں۔ ان کی ایک نسل کے ایمان لانے سے مایوسی ہوئی تو یہا مید رکھتے تھے کہ ان کی اولاد میں کوئی ایمان لے آئیگا وہ نسل بھی گزر جاتی تو تیسری نسل سے یہی توقع لگا کر اپنے فرض منصبی میں شمغول رہتے کیونکہ ان نسلوں کی عمریں اتنی طویل نہ تھیں جتنی حضرت نوح (علیہ السلام) کو بطور معجزہ عطا ہوئی تھی، جب ان کی نسل پر نسل گزرتی رہی اور ہر آنیوالی نسل پچھلی سے زیادہ شریر اور بدتر ثابت ہوئی تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں اپنا شکوہ پیش فرمایا جس میں بتلایا کہ میں نے ان کو رات دن اجتماعاً و انفراداً علانیہ اور خفیہ جو جو طریقہ کسی کو راستہ پر لانے کا ہوسکتا ہے وہ سب اختیار کیا، کبھی اللہ کے عذاب سے ڈرایا، کبھی جنتوں کی نعمتوں کی ترغیب دلائی اور یہ بھی کہ ایمان اور عمل صالح کی برکت سے تمہیں دنیا میں بھی فراخی اور خوشحالی نصیب ہوگی۔ کبھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ کی نشانیوں کو پیش کر کے سمجھایا مگر انہوں نے ایک نہ سنی دوسری طرف حق تعالیٰ نے ان کو یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کی پوری قوم میں جس کو ایمان لانا تھا لے آیا آگے انہیں کوئی ایمان قبول نہ کرے گا (آیت) انہ لن یومن من قومک الامن قد امن کا یہی مطلب ہے اس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان پر بد دعا کے کلمات آئے جس کا آگے ذکر کیا گیا جس کے نتیجہ میں پوری قوم غرق و ہلاک ہوگئی۔ بجز مومنین کے جن کو ایک کشتی میں سوار کرلیا گیا تھا قوم کی فہمائش کے سلسلہ میں نوح (علیہ السلام) نے ان کو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے یعنی ایمان لا کر پچھلے گناہوں کی معافی مانگنے کی دعوت دی اور اس کا دنیاوی نفع یہ بتلایا کہ ۙيُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا 11 ۙوَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ اس سے ا کثر علماء نے استدلال کیا ہے کہ گناہوں سے توبہ و استغفار سے اللہ تعالیٰ بارش حسب موقع برسا دیتے ہیں قحط نہیں پڑنے دیتے اور مال و اولاد میں استغفار سے برکت ہوتی ہے۔ کہیں کسی حکمت الہیہ کے تقاضے سے اسکے خلاف بھی ہوتا ہے مگر عادة اللہ عام لوگوں کے ساتھ یہی ہے کہ توبہ و استغفار اور ترک معصیت سے دنیا کی بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں۔ روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے
يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ٠ ۭ اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ٠ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٤- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفرانک ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- ے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
وہ توحید اور توبہ کی وجہ سے تمہارے گناہ معاف کردے گا اور موت تک بغیر عذاب کے مہلت دے گا عذاب خداوندی اگر آگیا تو وہ ٹلے گا نہیں۔
آیت ٤ یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ ” اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا “- یہاں پر حرف مِنْ (تبعیضیہ) بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ - وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ” اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔ “- یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت معین تک ہی ہوگی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔- اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ ٧ لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ ” اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا “- جب کوئی قوم اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اسے غور و فکر کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو وہ ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس فیصلے کو موخر نہیں کرسکتی۔- آئندہ آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے اندازِ دعوت کا پورا نقشہ نظر آتا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے خود کو کس کس طرح سے ہلکان کیا۔ قوم کو دعوت و تبلیغ کرتے اور پیغامِ حق سناتے ہوئے نوصدیاں بیت گئیں لیکن قوم اس دعوت حق پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ جب آپ (علیہ السلام) کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض داشت پیش کی۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :3 اصل الفاظ یغفر لکم من ذنوبک ۔ اس فقرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تمہارے گناہوں میں سے بعض کو معاف کر دے گا ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان تین باتوں کو قبول کر لو جو تمہار سامنے پیش کی جا رہی ہیں تو اب تک جو گناہ تم کر چکے ہو ان سب سے وہ درگزر فرمائے گا ۔ یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ عن کے معنی میں ہے ۔ سورة نُوْح حاشیہ نمبر :4 یعنی اگر تم نے یہ تین باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اس وقت تک جینے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالی نے تمہاری طبعی موت کے لیے مقرر کیا ہے ۔ سورة نُوْح حاشیہ نمبر :5 اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہو ۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق میں نزول عذاب کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا ۔ سورة نُوْح حاشیہ نمبر :6 یعنی اگر تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے ۔ یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہیں ایمان لانے کے لیے دی جا رہی ہے ، اور اس مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے ، تو تم ایمان لانے میں جلدی کرو گے اور نزول عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے ۔
2: یعنی جب تک تمہاری زندگی مقدّر ہے، اس وقت تک تمہیں زندہ رکھے گا۔