19۔ 1 عَبْدُاللّٰہِ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مطلب ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، لیکن امام ابن کثیر نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔
[١٧] کافروں کے قرآن سننے کی وجوہ :۔ یعنی جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑے آتے ہیں اور کافر بھی۔ اگرچہ دونوں کے آنے اور ہجوم کرنے کا مقصد الگ الگ اور ایک دوسرے کے برعکس ہوتا ہے۔ مسلمان ہدایت کے طالب ہیں اس لیے وہ فوراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل پڑتے ہیں اور کافر یہ چاہتے ہیں کہ وہاں شور شرابا کرکے قرآن کی آواز لوگوں کے کانوں میں نہ پڑنے دیں یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نظریں جما کر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھور گھار کر اتنا مرعوب کردیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن سنانا بند کردیں یا پھر اس لیے سننے آجاتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کیا جاسکے یا مذاق اڑایا جاسکے۔
(وانہ لما قام عبداللہ…:) مشرکین نہ صرف یہ کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے بلکہ ان کے لئے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اس قدر باعث تعجب اور تکلیف دہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لئے یا توحید کی دعوت کے لئے کھڑے ہوتے اور صرف ایک اللہ ہی کو پکارتے تو مشرکین اظہار تعجب کے لئے اور آپ کو پریشان کرنے کیلے گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوجاتے۔
وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ يَدْعُوْہُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا ١٩ ۭۧ- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - لبد - قال تعالی: يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن 19] أي : مجتمعة، الواحدة : لُبْدَةٌ ، كَاللُّبْدِ الْمُتَلَبِّدِ ، أي : المجتمع، وقیل : معناه : کانوا يسقطون عليه سقوط اللّبد، وقرئ : لبدا أي : متلبّدا ملتصقا بعضها ببعض للتّزاحم عليه، وجمع اللُّبْدِ : أَلْبَادٌ ولُبُودٌ. وقد أَلْبَدْتُ السرجَ : جعلت له لبدا، وأَلْبَدْتُ الفرسَ : ألقیت عليه اللّبد . نحو : أسرجته، وألجمته، وألببته، واللِّبْدَةُ : القطعة منها . وقیل : هو أمنع من لبدة الأسد أي : من صدره، ولَبَّدَ الشّعَرَ ، وأَلْبَدَ بالمکان : لزمه لزوم لبده، ولَبِدَتِ الإبل لَبَداً : أکثرت من الکلإ حتی أتعبها . وقوله : مالًا لُبَداً- البلد 6] أي : كثيرا متلبّدا، وقیل : ما له سبد ولا لبد ولُبَدُ : طائر من شأنه أن يلصق بالأرض، وآخر نسور لقمان کان يقال له لُبَدُ وأَلْبَدَ البعیرُ : صار ذا لبد من الثّلط ، وقد يكنّى بذلک عن حسنه لدلالة ذلک منه علی خصبه وسمنه، وأَلْبَدْتُ القِرْبَةَ : جعلتها في لَبِيدٍ أي : في جو الق صغیر .- ( ل ب د ) لبدۃ ۔ تہ بر تہ جمی ہوئی اون ج لبد قرآن میں ہے : يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً [ الجن 19] کافران کے گرداگرد ہجوم کرلینے کو تھے ۔ یعنی تہ برتہ جمی ہوئی اون کی طرح ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ آپ پر مجتمع ہوکر لبدہ کی طرح گرنے لگے ۔ ایک قرات میں لبدا بھی ہے یعنی آپ کے گرد ہجوم کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر چڑھ رہے تھے ۔ اور لبد کی جمع البار ولبود آتی ہے البدت السرج میں نے زین کے لئے نمدہ بنایا اور البدت الفرس کے معنی ہیں میں نے گھوڑے پر نمدہ دالا ۔ جیسے اسرجتہ ( میں نے اس پر زین کسی ۔ والجمتہ میں نے اسے لگام دی ۔ الببتہ ( سینہ بند باندھا ) اللید ۃ یہ لبد کا مفرد ہے نمدہ کے ا یک ٹکڑہ کو لبد کہتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ھو امنع من لبدۃ الاسد ۔ وہ شیر کے لبدہ یعنی سینہ یا ابال سے بھی زیادہ محفوظ ہے ۔ لبد الشعر بالوں کا اوپر تلے جم جانا ۔ لبدت الابل ۔ بل لبدا ۔ زیادہ گھاس کھانے کی وجہ سے اونٹ پریشان اور سینہ گرفتہ ہوگئے اور آیت کریمہ : مالًا لُبَداً [ البلد 6] بہت سامال ۔ میں لبد کے معنی مال کثٰیر کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے مالہ سبد ولا لبد ۔ نہ اس کے پاس اون ہے نہ بال یعنی بالکل مفلس ہے نہ تھوڑا ہے نہ بہت ۔ لبد ایک پرند جو زمین کے ساتھ سینہ لگا کر چپک جاتا ہے ۔ اور نسو ( لقمان ( لقمان کے گدھوں میں سے آخری نرگدھ ) کو لبد کہاجاتا ہے ۔ البد البعیر اونٹ کے سرین پر گوبر کا جم جانا کبھی یہ اس کے خوبصورت اور موٹا ہونے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ البدت القربۃ مشک کو لبد یعنی بالوں سے بنی ہوئی چھوٹی بوری میں ڈال دینا ۔
اور جب محمد بطن نخلہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ تمام جن جس وقت رسول اکرم سے قرآن کریم سنتے ہیں تو آپ کی اور قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے آپ کے دائیں بائیں جمع ہوجاتے ہیں۔
آیت ١٩ وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ ” اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے “- کَادُوْا یَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا ۔ ” تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس پر ہجوم کر کے آجائیں گے۔ “- اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور اس میں قرآن کی تلاوت فرماتے تو مشرکین یہ کلام سننے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد بڑے تجسس سے جمع ہوجاتے تھے ‘ لیکن ایمان لانے کو تیار نہیں تھے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں کھڑا دیکھتے تو ان کے عناد کی آگ بھڑکنے لگتی اور ان کا جی چاہتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہلہ ّبول دیں اور اس شمع ہدایت کو ُ گل کردیں۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :20 اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
11 اللہ کے بندے سے یہاں مراد حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، اور ٹوٹے پڑنے کا مطلب ایک تو یہ ممکن ہے کافر لوگ آپ کے اِرد گرد جمع ہو کر ایسا انداز اِختیار کرتے تھے جیسے وہ آپ پر حملہ کردیں گے، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جب آپ عبادت کے دوران قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تو قرآن سننے کے لئے آپ کے گرد جِنّات کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے۔