Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آداب سجدہ اور جنات کا اسلام لانا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی عبادت کی جگہوں کو شرک سے پاک رکھیں ، وہاں کسی دوسرے کا نام نہ پکاریں ، نہ کسی اور کو اللہ کی عبادت میں شریک کریں ، حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے گرجوں اور کنیسوں میں جا کر اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے تو اس امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ نبی بھی اور امت بھی سب توحید والے رہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت کے نزول کے وقت صرف مسجد اقصیٰ تھی اور مسجد حرام ، حضرت اعمش نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جنات نے حضور علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ آپ کی مسجد میں اور انسانوں کے ساتھ نماز ادا کریں ، گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ نماز پڑھو لیکن انسانوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جنوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو دور دراز رہتے ہیں نمازوں میں آپ کی مسجد میں کیسے پہنچ سکیں گے؟ تو انہیں کہا جاتا ہے کہ مقصود نماز کا ادا کرنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت بجا لانا ہے خواہ کہیں ہو ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت عام ہے اس میں سبھی مساجد شامل ہیں ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اعضاء سجدہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی جن اعضاء پر تم سجدہ کرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے ہیں پس تم پر ان اعضاء سے دوسرے کے لئے سجدہ کرنا حرام ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم کیا گیا ہے ، پیشانی اور ہاتھ کے اشارے سے ناک کو بھی اس میں شامل کر لیا اور دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے اور دونوں پہنچے ۔ آیت ( لما قام ) کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جنات نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن سنی تو اس طرح آگے بڑھ بڑھ کر عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ گویا ایک دوسرے کے سروں پر چڑھے چلے جاتے ہیں ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنات اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی اطاعت و چاہت کی حالت یہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو کھڑے ہوتے ہیں اور اصحاب پیچھے ہوتے ہیں تو برابر اطاعت و اقتداء میں آخر تک مشغول رہتے ہیں گویا ایک حلقہ ہے ، تیسرا قول یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کا اعلان لوگوں میں کرتے ہیں تو کافر لوگ دانت چبا چبا کر الجھ جاتے ہیں ، جنات و انسان مل جاتے ہیں کہ اس امر دین کو مٹا دیں اور اس کی روشنی کو چھپا لیں مگر اللہ کا ارادہ اس کے خلاف ہو چکا ہے ، یہ تیسرا قول ہی زیادہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ میں تو صرف اپنے رب کا نام ورد زبان رکھتا ہوں اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتا ، یعنی جب دعوت حق اور توحید کی آواز ان کے کان میں پڑی جو مدتوں سے غیر مانوس و چکی تھی تو ان کفار نے ایذاء رسانی مخالفت اور تکذیب پر کمر باندھ لی حق کو مٹا دینا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر سب متحد ہوگئے اس وقت ان سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تو اپنے پالنے والے ( وحدہ لاشریک لہ ) کی عبادت میں مشغول ہوں میں اسی کی پناہ میں ہوں اسی پر میرا توکل ہے وہ ہی میرا سہارا ہے مجھ سے یہ توقع ہرگز نہ رکھو کہ میں کسی اور کے سامنے جھکوں یا اس کی پرستش کروں ، میں تم جیسا انسان ہوں تمہارے نفع نقصان کا مالک میں نہیں ہوں میں تو اللہ کا ایک غلام ہوں اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں ، تمہاری ہدایت ضلالت کا مختار و مالک میں نہیں سب چیزیں اللہ کے قبضے میں ہیں میں تو صرف پیغام رساں ہوں ، اگر میں خود بھی اللہ کی معصیت کروں تو یقینا اللہ مجھے عذاب دے گا اور کسی سے نہ ہو سکے گا کہ مجھے بچا لے ، مجھے کوئی پناہ کی جگہ اس کے سوا نظر ہی نہیں آتی ، میری حیثیت صرف مبلغ اور رسول کی ہے ، بعض تو کہتے ہیں الا کا استثنا ( لا املک ) سے ہے یعنی میں نفع نقصان ہدایت ضلالت کا مالک نہیں میں تو صرف تبلیغ کرنے والا پیغام پہنچانے والا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ ( لن یجیرنی ) سے یہ استثناء ہو یعنی اللہ کے عذابوں سے مجھے صرف میری رسالت کی ادائیگی ہی بچا سکتی ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀ ) 5- المآئدہ:67 ) ، یعنی اے رسول تیری طرف جو تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بچا لے گا ۔ نافرمان کے لئے ہمیشہ والی جہنم کی آگ ہے جس میں سے نہ نکل سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ جب یہ مشرکین جن وانس قیامت والے دن ڈراؤنے عذابوں کو دیکھ لیں گے اس وقت ظاہر ہو جائے گا کہ کمزور مددگاروں اور بےوقعت گنتی والوں میں کون کون شامل تھا ؟ یعنی مومن موحد یا یہ مشرک ، حقیقت یہ ہے کہ اس دن مشرکوں کا برائے نام بھی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہو گا اور اللہ کے لشکروں کے مقابلہ پر ان کی گنتی بھی کچھ نہ ہو گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 مسجد کے معنی ہیں سجدہ گاہ۔ سجدہ بھی ایک رکن نماز ہے اس لیے نماز پڑھنے کی جگہ مسجد کہا جاتا ہے آیت کا مطلب واضح ہے کہ مسجدوں کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اس لیے مسجدوں میں کسی اور کی عبادت کسی اور سے دعا ومناجات جائز نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی ویسے تو کسی جگہ اور کسی حال میں بھی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارنا نہیں چاہیے مگر مساجد میں تو ایسا کام کرنے سے یہ شرک کا گناہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مسجدیں تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور بعض علماء کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے لیے تو ساری زمین ہی مسجد بنادی گئی ہے۔ لہذا کسی جگہ بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو پکارنا جائز نہیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک مساجد سے مراد وہ اعضاء ہیں جن پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ یہ اعضاء تو اللہ کی عبادت اور بندگی کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لہذا اللہ کے ساتھ دوسروں کو پکار کر ان کا غلط استعمال کرنا جائز نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(وان المسجد للہ…:” المجسد “” مسجد “ کی جمع ہے، اس کا معنی سجدے بھی ہے (مصدر مسیحی) اور وہ جگہیں بھی جہاں سجدے کئے جاتے ہیں، یعنی مسجدیں اور وہ جگہیں یعنی اعضا بھی جن پر سجدہ ہوتا ہے، یعنی پیشانی، ہاتھ پاؤں اور گھٹنے (ان دونوں معنوں کی صورت میں یہ ظرف ہے) ۔ مطلب یہ ہے کہ سب سجدے بھی اللہ کے لئے ہیں، مسجدیں بھی اور اعضائے سجدہ بھی، تو پھر پکارنا بھی صرف اسی کا حق ہے، اس کے ساتھ کسی دوسرے کو مت پکارو ۔” المسجد “ کا لفظ اتنا عام ہے کہ اس سے مراد صرف وہی جگہیں نہیں جو عبادت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں بلکہ اس میں زمین کا ہر قطعہ شامل ہے، کیونکہ اس امت کیلئے ساری زمین ہی مسجد ہے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارنا منع ہے۔ بعض لوگ جو مصیبت یا بیماری میں ” یا اللہ “ کے ساتھ ” یا رسول اللہ “ ،” یا علی “ ، ” یا حسین “ اور ” یا شیخ عبدالقادر “ وغیرہ کہتے اور ان کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ان کا یہ فعل درست نہیں۔ غیر اللہ کو پکارنے کی ممانعت کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورة یونس (١٠٦) ، رعد (١٤) ، نحل (٢٠، ٢١) ، حج (٦٢، ٧٣، ٧٤) ، مومنون (١١٧) ، شعراء (٢١٣) ، قصص (٨٨) ، سبا (٢٢) ، فاطر (١٣، ١٤) اور سورة احقاف (٥) اس کی وجہ یہ ہے کہ پکارنا ہی اصل عبادت ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الدعاء ھو العبادۃ) ” پکارنا ہی عبادت ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی، (وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین) (المومن : ٦٠)” اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ (ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المومن : ٣٢٣٨، وصححہ فی ابواب الدعوات، ما جاء فی فضل الدعائ)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا مساجد جمع مسجد ہے، یہاں اس کے معروف و مشہور معنے بھی لئے جاسکتے ہیں یعنی وہ عبادت گاہیں جو نماز کے لئے وقف کی جاتی ہیں اور مسجد کہلاتی ہیں اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ جب سب مساجد صرف اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں تو تم مسجدوں میں جا کر اللہ کے سوا کسی اور کو مدد کے لئے نہ پکارو جس طرح یہود و نصاری اپنی عبادت گاہوں میں اس شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حاصل اس کا مساجد کو عقیدہ فاسدہ اور اعمال باطلہ سے پاک رکھنا ہے۔- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مساجد مسجد بفتح الجیم کی جمع ہو جو مصدر میمی بمعنے سجدہ آتا ہے تو معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ سب سجدے صرف اللہ کے لئے مخصوص ہیں اور جو شخص غیر اللہ کو اعانت کے لئے پکارتا ہے گویا وہ اس کو سجدہ کرتا ہے۔ غیر اللہ کے سجدہ سے اجتناب کرو۔ - مسئلہ باجماع امت غیر اللہ کے لئے سجدہ حرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک کفر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا۝ ١٨ ۙ- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ- [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جتنی مسجدیں ہیں سب اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں تو ان مسجدوں میں اللہ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کرو یا یہ کہ مساجد سے مراد انسان کے وہ اعضاء ہیں جن سے وہ سجدہ کرتا مثلا پیشانی ہاتھ پیر وغیرہ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ ” اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں “- یہاں ” مساجد “ سے مراد سجدہ کرنے کی جگہیں یعنی عبادت گاہیں بھی ہیں اور سجدے کے اعضاء ( پیشانی ‘ ناک ‘ ہاتھ ‘ پائوں ‘ گھٹنے) بھی ۔ یعنی تمام مساجد اور انسانوں کے اعضائے سجدہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔- فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ۔ ” تو تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :19 مفسرین نے بالعموم مساجد کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ زمین پوری کی پوری عبادت گاہ ہے اور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر کہیں بھی شرک نہ کیا جائے ۔ ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہے کہ جعلت لی الارض مسجد و طھورا ۔ میرے لیے پوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لیے ہیں جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے ، یعنی ہاتھ ، گھٹنے ، قدم اور پیشانی ۔ اس تفسیر کی رو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ ان پر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ نہ کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: اس جملے کا دُوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ تمام مسجدیں اللہ کی ہیں ۔