Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کفار قریش پر قحط سالی مسلط کردی گئی تھی، الطَّرِیْقَۃٍ کے دوسرے معنی گمراہی کے راستے کے کئے گئے ہیں۔ 17۔ 2 نہایت سخت الم ناک عذاب (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] نعمتوں سے آزمائش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آیا وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اللہ کا شکر بجا لانے اور اس کی اطاعت میں مزید ترقی کرتے ہیں یا اللہ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں یا ناشکری کرکے اصل سرمایہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔- [١٥] یعنی اس کی زندگی میں اس کی پریشانیاں بڑھتی ہی جائیں گی کسی کل چین نصیب نہ ہوگا اور آخرت میں یہ حال ہوگا کہ ہر آن اس کے عذاب میں اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(لنفتھم فیہ ومن یعرض …: یعنی پانی کی کثرت اور رزق کی فراوانی کا مقصد بھی ان کی آزمائش ہے کہ وہ خوش حالی میں اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس کی توحید و اطاعت پر قائم رہتے ہیں یا بدمست ہو کر سرکشی پر اتر آتے ہیں۔ معلوم ہوا مصیبت کی طرح نعمت بھی اللہ یک طرف سے آزمائش ہے۔ سورة انبیاء (٣٥) ، اعراف (١٦٨) اور سورة قلم (١٧ تا ٢٠) میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے۔” صعداً “” صعد یصعد “ (ع) کا مصدر ہے۔ لفظی معین چڑھائی ہے، مراد ایسا سخت عذاب ہے جو دم بدم بڑھتا ہی جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہٖ يَسْلُكْہُ عَذَابًا صَعَدًا۝ ١٧ ۙ- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- صعد - الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً- [ المدثر 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً- [ النساء 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی:- إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً- [ الجن 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» .- ( ص ع د ) الصعود - کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو شخص اپنے پروردگار کی توحید اور اس کی کتاب سے اعراض کرے گا یعنی ولید بن مغیرہ مخزومی تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کے پہاڑ پر چڑھنے کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ لِّنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ ” تاکہ ہم اس (فراوانی) میں ان کی آزمائش کریں۔ “- یعنی ہم لوگوں کو خوب سیراب کر کے اور انہیں مختلف النوع نعمتوں سے نواز کر ان کا امتحان لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کے انداز مختلف ہیں ‘ وہ کسی کو تونگری اور خوشحالی میں آزماتا ہے تو کسی کو فاقوں میں مبتلا کرکے اس کا امتحان لیتا ہے۔- وَمَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہٖ ” اور جو کوئی بھی اعراض کرے گا اپنے رب کے ذکر سے “- یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا ۔ ” تو وہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔ “- یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ایسے عذاب میں ڈالے گا جس کی شدت ہر لمحہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :17 یعنی یہ دیکھیں کہ وہ نعمت پا کر بھی شکر گزار رہتے ہیں یا نہیں ، اور ہماری دی ہوئی نعمت کا صحیح استعمال کرتے ہیں یا غلط ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :18 ذکر سے منہ موڑنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت کو قبول نہ کرے ، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کا ذکر سننا ہی گوارا نہ کرے ، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کی عبادت سے رو گردانی کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اب جِنّات کا واقعہ سنا کر اہل مکہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح یہ جِنّات حق طلبی کا ثبوت دے کر ایمان لے آئے، اسی طرح تمہیں بھی قرآنِ کریم پر ایمان لے آنا چاہئے، اور اگر تم نے ایسا کیا تو اﷲ تعالیٰ تمہیں بارشوں سے سیراب فرمائیں گے بارشوں کا ذِکر خاص طور پر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اُس وقت اہل مکہ قحط میں مبتلا تھے (بیان القرآن)۔