[١٣] اللہ کی فرمانبرداری اور رزق کی فراوانی :۔ یعنی جن اور انسان اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور رزق کی فراوانی کردیتے۔ اور یہ وہی مضمون ہے جو پہلے سورة نوح کی آیت نمبر ١١، ١٢ کے تحت گزر چکا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورة نوح کا حاشیہ نمبر ٥
(وان لو استقاموا علی الطریقۃ…: اس کا عطف ” انہ استمع نفرمن الجن…“ پر ہے اور ” وان لو استقاموا “ کا اصل ” وانھم لو استقاموا “ ہے، یعنی کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا … اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ (یعنی قریش مکہ یا تمام بنی آدم اور جن) اصل راستے پر سیدھے چلتے رہتے تو ہم انہیں وافر پانی پلاتے۔” غقاً “ کا معنی کثیر ہے۔ وافرپانی سے مراد وافر رزق ہے، کیونکہ زمین سے حاصل ہونے والی تمام برزکات بارش ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیان فرمائی ہے :(ولو ان اھل القریٓ امنوا و اثقوا لفتحنا علیھم برکت من السمآء والارض) (الاعراف : ٩٦) ’ اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکات کھول دیتے۔ “ سورة نوح (١٠ تا ١٢) اور سورة مائدہ (٦٦) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔
وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا ١٦ ۙ- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال :- وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر :- 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل - «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا .- ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی:- كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - غدق - قال تعالی: لَأَسْقَيْناهُمْ ماءً غَدَقاً [ الجن 16] ، أي : غزیرا، ومنه : غَدِقَتْ عينه تَغْدَقُ والغَيْدَاقُ يقال فيما يغزر من ماء وعدو ونطق .- ( غ د ق ) الغدق کے معنی زیادہ اور افر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأَسْقَيْناهُمْ ماءً غَدَقاً [ الجن 16] تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے ۔ اور اسی سے غدقت عینہ تغدق سے جسکے معنی آنکھ سے کو ب پانی بہنا کے ہیں اور غیداق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو وافر اور زیادہ ہو عام اس سے کہ پانی ہو یا گفتگو اور یا دوڑ ہو ۔
اگر یہ لوگ کفر کے طریقہ پر یا یہ کہ اسلام کے طریقہ پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو بہت مال اور وسعت دیتے تاکہ ہم اس کے ذریعے ان کا امتحان کریں تاکہ یہ اپنی اسی حالت کی طرف لوٹ آئیں جو کہ ان کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔- شان نزول : وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ (الخ)- مقاتل سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی جب ان سے سات سال تک بارش روک دی گئی تھی اور ابن ابی حاتم نے ابو صالح کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جنات نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم آپ کی مسجد میں آپ کے ساتھ نمازوں میں حاضر ہوسکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا۔
آیت ١٦ وَّاَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰہُمْ مَّآئً غَدَقًا ۔ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے) کہ اگر یہ لوگ درست طریقے پر چلتے رہتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے ۔ “- یعنی اگر نسل انسانی کے لوگ انبیاء و رسل - کے راستے پر چلتے رہتے تو آخرت کی نجات کے ساتھ ساتھ ہم انہیں دنیا میں بھی خوب نوازتے۔ یہاں پر جس مفہوم میں لفظ ” طَرِیْقَۃ “ آیا ہے عین وہی مفہوم لفظ ” شَرِیْعَۃ “ اس آیت میں ادا کر رہا ہے : ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ (الجاثیۃ : ١٨) ” پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ کو قائم کردیا دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر “۔ گویا ان دونوں الفاظ کا مفہوم تو ایک ہی ہے لیکن ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ” شریعت “ دین کے ظاہری اور قانونی پہلو کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ ” طریقت “ سے دین کا باطنی پہلو مراد لیاجاتا ہے۔ مثلاً نماز کے فرائض اور واجبات کیا ہیں ؟ مختلف ارکان کی ادائیگی کا درست طریقہ کیا ہے ؟ کن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟ یہ شریعت کا موضوع ہے۔ ظاہر ہے ایسے مسائل معلوم کرنے کے لیے آپ کو کسی فقیہہ یا مفتی سے رجوع کرنا ہوگا۔ لیکن نماز کی اصل روح کیا ہے ؟ نماز میں خشوع و خضوع اور حضور قلب کس طرح پیدا ہوتا ہے ؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں ؟ اس قسم کے سوالات طریقت سے متعلق ہیں اور ان کے جوابات آپ کو کسی صوفی سے ملیں گے۔ اوّلین ادوار کے بزرگانِ دین تو جامع الصفات تھے۔ جو صوفی تھے وہ بہت بڑے عالم اور مفتی بھی ہوا کرتے تھے۔ برصغیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی - ایسی ہی ایک جامع شخصیت تھے۔ آپ مفتی ‘ مفسر اور محدث بھی تھے اور بہت بڑے صوفی اور مرشد بھی۔ آپ مرزا مظہر جانِ جاناں شہید - (آپ اہل تشیع کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے) کے خلیفہ تھے۔ آپ کا تعلق شیخ احمد سرہندی - کے سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ سے تھا۔ بہرحال ایسی شخصیات کی موجودگی میں تو شریعت اور طریقت کے درمیان کوئی ُ بعد نہیں تھا ‘ لیکن آج بدقسمتی سے دین کے ان دونوں پہلوئوں کو پھاڑ کر بالکل الگ الگ کردیا گیا ہے۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :15 اوپر جنوں کی بات ختم ہو گئی ۔ اب یہاں سے اللہ تعالی کے اپنے ا رشادات شروع ہوتے ہیں ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :16 یہ وہی بات ہے جو سورہ نوح میں فرمائی گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگو تو وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، تفسیر سورہ نوح ، حاشیہ 12 ) ۔ پانی کی کثرت کو نعمتوں کی کثرت کے لیے بطور کنایہ استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پانی ہی پر آبادی کا انحصار ہے ۔ پانی نہ ہو تو سرے سے کوئی بستی بس ہی نہیں سکتی ، نہ انسان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو سکتی ہیں ، اور نہ انسان کی صنعتیں چل سکتی ہیں ۔