اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنات بھی دوزخ اور جنت میں جانے والے ہوں گے ان میں جو کافر ہیں وہ جہنم میں اور مسلمان جنت میں جائیں گے یہاں تک جنات کی گفتگو ختم ہوگئی۔
وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ١٥ ۙ- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - حطب - قال تعالی: كانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] ، أي : ما يعدّ للإيقاد، وقد حَطَبْتُ حَطَباً واحْتَطَبْتُ ، وقیل للمخلّط في کلامه : حَاطِب ليل، لأنّه لا يبصر ما يجعله في حبله، وحَطَبْتُ لفلان حَطَباً : عملته له، ومکان حَطِيب : كثير الحطب، وناقة مُحَاطِبَة : تأكل الحطب، وقوله تعالی: حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] ، كناية عنها بالنمیمة، وحَطَبَ فلان بفلان : سعی به، وفلان يوقد بالحطب الجزل : كناية عن ذلک - ( ح ط ب ) الحطب ( ایندھن ) ہر وہ چیز جو آگ جلانے کے لئے تیار کی جائے حطب کہلاتی ہے اور حطب ( مل ) حطبا واحطب کے معنی ایندھن جمع کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں : كانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] تو وہ جہنم کا یندھن ہوں گے ۔ اپنی گفتگو میں رطب دیا بس ملانے والے کو حاطب لیل کہا جاتا ہے کیو ن کہ رات کو لکڑی جمع کرنے والا بھی یہ نہیں دیکھتا کہ رسی میں کیا باندھ رہا ہے ۔ حطب لفلان حطبا کسی کے لئے کام کرنا مکان حطیبوی جگہ جہاں بہت لکڑیاں ہوں ( صفت از حطب المکان ) ناقتہ محاطبتہ ( ناقہ کہ خار خشک خورد ) اور آیت کریمہ : حَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] جو اندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے ۔ میں سخن چینی سے استعارہ ہے ۔ اور حطب فلان بفلان کے معنی کسی کی چغلی کھانے کے ہیں ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے فلان یوقد بالحطب الجزل ( مثل ) فلاں بہت بڑا چغل خور ہے ۔
آیت ١٥ وَاَمَّا الْقٰاسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ۔ ” اور جو بےانصاف ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ “- یہ تو تھا جنات کی اس تقریر کا اقتباس جو انہوں نے قرآن سننے کے بعد اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے تبلیغ کی غرض سے کی تھی ۔ اس کے بعد خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام کیا گیا ہے۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :14 سوال کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی رو سے جن تو خود آتشیں مخلوق ہیں ۔ پھر جہنم کی آگ سے ان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رو سے تو آدمی بھی مٹی سے بنا ہے ۔ پھر اگر اسے مٹی کا ڈھیلا کھینچ کر مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں لگتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں سے بنا ہے ، مگر جب ان سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود میں آ جاتا ہے تو وہ ان مادوں سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں سے بنی ہوئی دوسری چیزیں اس کے لیے اذیت کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے اعتیار سے آتشیں مخلوق ہیں ، لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحب احساس مخلوق وجود میں آ جاتی ہے تو وہی آگ اس کے لیے تکلیف کی موجب بن جاتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الرحمن ، حاشیہ 15 ) ۔