14۔ 1 یعنی جو نبوت محمدیہ پر ایمان لائے وہ مسلمان، اور اس کے منکر بےانصاف ہیں۔
[١٢] تَحَرَّوْا۔ اَحرٰی بمعنی لائق تر اور تَحَرَّی بمعنی زیادہ مناسب اور لائق تر چیز کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا۔ یعنی ایمان لانے والے جن اپنی قوم میں واپس آکر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ بلا شبہ ہم میں سے کچھ فرمانبردار ہیں اور کچھ نافرمان اور بےراہ رو بھی ہیں۔ اور حق بات یہی ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے انہوں نے عقلمندی کی۔ ہدایت کی راہ کو پسند کرلینا ہی ان کے بہتر انتخاب کی دلیل ہے۔ کیونکہ جو لوگ اس سیدھی راہ کے علاوہ کوئی اور راہیں اختیار کریں گے وہ گھاٹے میں ہی رہیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے اس مقام پر جنوں کی وہ تقریر یا وعظ و نصیحت ختم ہوجاتی ہے جو انہوں نے ایمان لانے کے بعد واپس آکر اپنے بھائی بندوں کو کی۔ چناچہ بہت سے جن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے پھر اس واقعہ کے بعد متعدد بار جن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔
(١) وانا منا السلمون ومنا القسطون…:” القسطون ‘ ظلم کرنے والے، راہ حق سے ہٹنے والے۔ ” قسط یقسط “ (ض) ” قسطا “ (قاف کے فتحہ کے ساتھ) ظلم کرنا، سیدھی راہ سے ہٹنا۔” القسط “ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) انصاف۔ ” اقسط یقسط “ (افعال) انصاف کرنا۔ یعنی ہدایت سننے کے بعد ہم میں سے کچھ وہ ہیں جو تابع فرمان ہوگئے۔ یہ وہ ہیں جن کا ارادہ ہے کہ پوری کوشش کے ساتھ سیدھی راہ پر چلیں۔ ” تحری یتحری تحریاً “ قصد کرنا، کوشش کے ساتھ ظن سے یقین تک پہنچنا اور جو راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔- (٢) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، وہ جہنم کا ایندھن کیسے بنیں گے ؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح انسان مٹی سے بنا ہے مگر مٹی کا ڈھیلا مارا جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے اور ہر زندہ چیز پانی سے پیدا ہوئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(٣ جعلنا من المآء کل شیء حی) (الانبیائ : ٣٠) (اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی) مگر یہی پانی اسے غرق کردیتا ہے۔ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، مگر یہی پانی جنوں کے لئے جو آ سے بنے ہیں نعمت ہے، جیسا کہ سورة رحمٰن کی آیات (١٦) میں آرہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آگ سے پیدا کئے جانے کے باوجود جنوں کی ایک الگ شکل و صورت ہے جو آگ سے متاثر ہوتی ہے، جس طرح گوشت پوست کا انسان مٹی سے پیدا ہونے کے باوجود مٹی سے الگ شکل و صورت رکھتا ہے۔ یہاں سے جنوں کی تقریر جو اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے ختم ہوئی، آئندہ آیات میں دوبارہ اللہ تعالیٰ کا خطاب شروع ہوتا ہے۔
وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ٠ ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ١٤- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- حری - حَرَى الشیء يحري، أي : قصد حراه، أي : جانبه، وتَحَرَّاه كذلك، قال تعالی: فَأُولئِكَ تَحَرَّوْا رَشَداً [ الجن 14] ، وحَرَى الشیء يحري : نقص كأنه لزم الحری ولم يمتد، قال الشاعر :- والمرء بعد تمامه يحري ورماه اللہ بأفعی حارية- ( ح ر ی ) حری ( ض ) الشئی وتحرا ہ کے معنی کسی چیز کے حری یعنی جانب کا قصد کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ تَحَرَّوْا رَشَداً [ الجن 14] یہی لوگ ہیں جنہوں نے سیدھی راہ کا قصد کیا ۔ اور حری الشئی حریا کے معنی کسی چیز کے کھونے کے ہیں گویا وہ ایک جانب پڑی رہی اور پھول پھلی نہیں شاعر نے کہا ہے ( الکامل انسان کامل ہونے کے بعد ڈھلنا شروع ہوجاتا ا ہے ( اللہ تعالیٰ اس پر بوڑھا اژدہا مسلط کرے - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔
(١٤۔ ١٥) اور ہم میں سے بعض لوگ تو خلوص کے ساتھ وحدانیت کر کے رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے اور بعض ہم میں سے حسب سابق حق و ہدایت سے پھرے ہوئے ہیں۔- سو جو شخص مسلمان ہوگیا اس نے بھلائی کا رستہ ڈھونڈ لیا اور جو کفار ہیں سو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔
آیت ١٤ وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ” اور یہ کہ ہم میں فرمانبردار بھی ہیں اور بےانصافی کرنے والے بھی ۔ “- قَسَطَ ( ثلاثی مجرد میں) عدل اور ناانصافی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قَاسِط (اسم فاعل) کے معنی ” ناانصاف “ کے ہوتے ہیں ‘ لیکن اَقْسَطَ (باب افعال میں ) صرف عدل و انصاف کے معنی میں مستعمل ہے۔- فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ۔ ” تو جن لوگوں نے اطاعت قبول کرلی تو انہوں نے ڈھونڈ نکالی نیکی کی راہ۔ “