Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] علم غیب سے متعلق اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ یہ علم کسی کو نہیں بتاتا کہ قیامت کب آئے گی۔ ہاں غیب کی کچھ باتیں کسی رسول کو بتا بھی دیتا ہے اور یہ باتیں وہ ہوتی ہیں جن کا بتانا دین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آئے گی۔ ایک وقت آئے گا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت صرف بدترین لوگوں پر قائم ہوگی یا یہ کہ روز محشر میں اللہ کا لوگوں سے حساب لینا اور جنت اور دوزخ کے حالات۔ یہ سب چیزیں غیب سے تعلق رکھتی ہیں جو اللہ نے وحی کے ذریعہ رسول کو بتادیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت تک پہنچا دیں۔ اس کا بھی ضابطہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ جبریل کے ذریعہ ایسی وحی بھیجتا ہے تو اس کے آگے پیچھے نگران اور محافظ بھی بھیجتا ہے تاکہ یہ وحی بحفاظت تمام و کمال اور بلا کسی آمیزش کے رسول تک پہنچ جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(الا من ارتضی من رسول …:” اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا “ لیکن اگر وہ اپنے غیب کی کوئی بات بتانا چاہے تو ہر ایک کو نہیں بتاتا بلکہ صرف اسی کو بتاتا ہے جسے وہ رسول کے طور پر پسند کرلے۔” رسول “ کا معنی ہے وہ شخص جسے پیغام پہنچانے کیلئے بھیجا گیا ہو، یعنی وہ غیب کی بات کسی کو عالم الغیب بنانے کے لئے نہیں بلکہ اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے بتاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے چنے ہوئے رسول کو بھی جب غیب کی کسی بات کی اطلاع دیتا ہے تو اس کے چ اورں طرف شہاب ثاقب اور فرشتوں کا زبردست پہرا لگا دیتا ہے، تاکہ شیطان اس وحی میں نہ اپنی کوئی بات داخل کرسکیں اور نہ وقت سے پہلے معلوم کر کے کاہنوں کو اطلاع دے سکیں، بلکہ کلام الٰہی محفوظ طریقے سے رسول تک اور رسول کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

علم غیب اور غیبی خبروں میں فرق :- اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا حاصل استثناء کا اس سفیہانہ شبہ کا یہ جواب ہے کہ علم غیب کلی کی نفی سے ہر غیب کی نفی مطلقاً مراد نہیں، بلکہ منصب رسالت کے لئے جس قدر علم غیب کی خبروں اور غیب کی چیزوں کا علم کسی رسول کو دینا ضروری ہے وہ ان کو منجانب اللہ بذریعہ وحی دے دیا جاتا ہے اور وہ ایسے محفوظ طریقے سے دیا جاتا ہے کہ جب ان پر اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل ہوتی ہے تو اس کے ہر طرف فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے تاکہ شیاطین اس میں کوئی مداخلت نہ کرسکیں۔ اس میں اول تو لفظ رسول سے اس غیب کی نوعیت متعین کر دے گئی جس کا علم رسول و نبی کو دیا جاتا ہے اور وہ ظاہر ہے علم شرائع و احکام بتمامہ اور غیب کی خبریں بقدر ضرورت وقت۔ اس کے بعد جو علم غیب رسول و نبی کو دیا جاتا ہے اس کی نوعیت اگلے جملے سے یوں بھی متعین کردی کہ وہ بذریعہ فرشتوں کے بھیجا جاتا ہے اور وحی لانے والے فرشتے کے گرد دوسرے فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے۔ اس یے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس استثناء سے جس علم غیب کا نبی و رسول کے لئے اثبات ہے وہ بعض اور مخصوص علم غیب ہے جس کی ضرورت منصب رسالت کے لئے درپیش ہو۔ - اس سے معلوم ہوا کہ یہ استثناء اصطلاحی لفظوں میں استثناء منقطع ہے، یعنی جس علم غیب کلی کی اصل کلام میں غیر اللہ سے نفی کی گئی تھی مستثنیٰ میں اس کا اثبات نہیں بلکہ مخصوص علوم غیبیہ کا اثبات ہے جس کو قرآن کریم میں جا بجا انباء الغیب کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے (آیت) تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک - بعض ناواقف غیب اور انباء الغیب میں فرق نہیں سمجھتے اس لئے وہ انبیاء اور خصوصاً خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے علم غیب کلی ثابت کرتے ہیں اور آپ کو بالکل اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب ہر ذرہ کائنات کا علم رکھنے والا کہنے لگتے ہیں جو کھلا ہوا شرک اور رسول کو خدائی کا درجہ دینا ہے، نعوذ باللہ منہ۔ اگر کوئی شخص اپنا خفیہ راز کسی اپنے دوست کو بتلا دے جو اور کسی کے علم میں نہ ہو تو اس سے دنیا میں کوئی بھی اس دوست کو عالم الغیب نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) کو ہزاروں غیب کی چیزوں کا بذریعہ وحی بتلا دینا ان کو عالم الغیب نہیں بنا دیتا خوب سمجھ لیا جائے۔- جاہل عوام جو ان دونوں باتوں میں فرق نہیں کرتے جب ان کے سامنے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب نہیں، وہ اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کو معاذ اللہ کسی غیب کی چیز کی خبر نہیں جس کا دنیا میں کوئی قائل نہیں اور نہ ہوسکتا ہے، کیونکہ ایسا ہونے سے تو خود نبوت و رسالت کی نفی ہوجاتی ہے جس کا کسی مومن سے امکان نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۝ ٢٧ ۙ- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- رصد - الرَّصَدُ : الاستعداد للتّرقّب، يقال : رَصَدَ له، وتَرَصَّدَ ، وأَرْصَدْتُهُ له . قال عزّ وجلّ : وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] ، وقوله عز وجل : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ- [ الفجر 14] ، تنبيها أنه لا ملجأ ولا مهرب . والرَّصَدُ يقال لِلرَّاصِدِ الواحد، وللجماعة الرَّاصِدِينَ ، ولِلْمَرْصُودِ ، واحدا کان أو جمعا .- وقوله تعالی: يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] ، يحتمل کلّ ذلك . والمَرْصَدُ : موضع الرّصد، قال تعالی: وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] ، والْمِرْصَادُ نحوه، لکن يقال للمکان الذي اختصّ بِالتَّرَصُّدِ ، قال تعالی: إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] ، تنبيها أنّ عليها مجاز الناس، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] .- ( ر ص د ) الرصد : گھات لگا کر بیٹھنا ۔ اور رصد لہ وترصد کے معنی ہیں کسی کے لئے گھات لگانا اور ارصدتہ کس کو گھات لگانے کے لئے مقرر کرنا اور ارصد لہ کے معنی پناہ دینا بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] اور ان لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ اور رسول کے ساتھ پہلے لڑ چکے ہیں ۔ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تیرا پروردگار ( نافرمانوں کی ) تاک میں ( لگا رہتا ہے ) رصد ( صیغہ صفت ) یہ معنی فاعلی اور مفعولی دونوں کے لئے آتا ہے اور واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] تو ان کے آگے اور انکے پیچھے ( فرشتوں سے ) پہرہ دینے والے ان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ تو یہاں رصدا سے واحد اور جمع دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو ۔ اور مرصاد بمعنی مرصد آتا ہے لیکن مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جو گھات کے لئے مخصوص ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ تو آیت میں اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ جہنم کے اوپر سے لوگوں کا گزر ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] اور تم میں سے کوئی ( ایسا بشر ) نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ” سوائے اس کے جس کو اس نے پسند فرما لیا ہو اپنے رسولوں میں سے “- اس آیت میں علم غیب کے بارے میں بہت اہم اصول بتادیا گیا ہے ۔ یعنی غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ وہ اپنے رسولوں (علیہ السلام) میں سے جسے چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے اس بارے میں مطلع فرماتا ہے۔ اس اصول کے تحت دیکھا جائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے متعلق علم غیب کا مسئلہ خواہ مخواہ متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر تو کوئی شخص علم غیب سے مراد ایسا علم لیتا ہے جو بغیر کسی کے بتائے ہوئے حاصل ہو تو ایسا کوئی علم اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔ ہر کسی کو جو بھی علم ملا ہے کسی نہ کسی کے سکھانے سے ہی ملا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم بھی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھی علم اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیا ہے۔ ہم جیسے عام انسان بھی اپنے والدین ‘ اساتذہ اور بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔- اس ضمن میں سب سے پہلے علم غیب کی درست تعریف ( ) طے کرنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ ” غیب “ کا تعلق مخلوق سے ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی چیز ” غیب “ ہے ہی نہیں ‘ ہر شے ہر آن اس کے سامنے موجود ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں یا خبریں ہم انسانوں سے پوشیدہ رکھی ہیں وہ ہمارے لیے ” عالم غیب “ ہے۔ مثلاً جنت ‘ دوزخ ‘ فرشتے وغیرہ۔ اس بارے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ انبیاء و رسل - کو غیب کی خبریں بھی دی جاتی ہیں اور کسی حد تک انہیں عالم غیب کا مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے : وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔ (الانعام) ” اور اسی طرح ہم دکھاتے رہے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت تا کہ وہ پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کے موقع پر جنت ‘ دوزخ اور بہت سی دوسری کیفیات کا مشاہدہ کرایا گیا ‘ بلکہ غیب سے متعلق ایسے مشاہدات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام معمول کی زندگی میں بھی کرائے جاتے تھے ۔ مثلاً ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازِاستسقاء پڑھا رہے تھے تو نماز کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اچانک ایک دفعہ آگے بڑھے اور پھر اسی انداز میں پیچھے ہٹے۔ بعد میں صحابہ کرام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل کا سبب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے سامنے اچانک جنت لے آئی گئی تو میں نے چاہا کہ اس کا پھل توڑ لوں۔ چناچہ میرا ہاتھ بےاختیار اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے بعد میرے سامنے دوزخ لے آئی گئی تو اس کی تپش کی وجہ سے میں بےاختیار پیچھے ہٹ گیا۔ بہرحال علم کے اعتبار سے ایک عام انسان اور ایک نبی میں بنیادی طور پر یہی فرق ہے کہ نبی کو عالم غیب کا علم بھی دیا جاتا ہے ۔ ورنہ جہاں تک امور دنیا کے علم کا تعلق ہے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واضح فرمان موجود ہے۔ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : (اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ ) (١) کہ دنیاداری کے اپنے معاملات کے بارے میں تم لوگ بہتر جانتے ہو۔ چناچہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء و رسل - کو جب چاہے جس قدر چاہے عالم غیب کا مشاہدہ کرا دے یا غیب کے علم میں سے جتنا علم چاہے عطا فرما دے۔ البتہ جو کوئی یہ مانے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ُ کل غیب کا علم تھا وہ کافر ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کے بارے میں بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ذاتی طور پر متعدد بریلوی علماء سے ملاقاتیں کیں ۔ میں جتنے علماء سے ملا ان سب کو میں نے مندرجہ ذیل تین نکات پر متفق پایا : - (١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم ذاتی نہیں ‘ عطائی ہے ‘ یعنی اللہ کا عطا کردہ ہے۔- (٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم قدیم نہیں حادث ہے۔ یعنی پہلے نہیں تھا ‘ جب اللہ نے عطا کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہوگیا۔- (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم لامحدود نہیں ‘ محدود ہے۔- دراصل ان تین نکات کے بارے میں مسلمانوں کے کسی مکتبہ فکر میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ چناچہ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ سرے سے بحث طلب ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب عطا فرمایا ‘ جب چاہا اور جتنا چاہا عطا فرمایا۔ اب کیا میں اور آپ اس بارے میں بحث کریں گے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس چیز کا علم تھا اور کس چیز کا علم نہیں تھا ؟ میری اور آپ کی حیثیت ہی کیا ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے بارے میں ناپ تول کریں۔ معاذ اللہ - فَاِنَّـہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ۔ ” تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔ “- یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی حفاظت کے لیے ہر طرف فرشتے مقرر کردیتا ہے تاکہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنچ جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :27 یعنی رسول بجائے خود عالم الغیب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی جب اس کو رسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق میں سے جن چیزوں کا علم وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :28 محافظوں سے مراد فرشتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی وحی کے ذریعہ سے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی نگہبانی کرنے کے لیے ہر طرف فرشتے مقرر کر دیتا ہے تاکہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنج جائے اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے ۔ یہ وہی بات ہے جو اوپر آیات 8 ۔ 9 میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جنوں نے اپنے لیے عالم بالا تک رسائی کے تمام دروازے بند پائے اور انہوں نے دیکھا کہ سخت چوکی پہرے لگ گئے ہیں جن کے باعث کہیں ذرا سی سن گن لینے کا موقع بھی ان کو نہیں ملتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے، البتہ وہ اپنے جس پیغمبر کو چاہتا ہے، وحی کے ذریعے غیب کی خبریں پہنچا دیتا ہے، اور ایسے موقع پر فرشتوں کو اُس وحی کا محافظ بنا کر بھیجا جاتا ہے، تاکہ کوئی شیطان اس میں کوئی خلل نہ ڈال سکے۔