Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 لیعلم۔ میں ضمیر کا مرجع کون ہے ؟ بعض کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاکہ آپ جان لیں کہ آپ سے پہلے رسولوں نے بھی اللہ کا پیغام اسی طرح پہنچایا جس طرح آپ نے پہنچایا۔ بعض نے فرشتوں کو بنایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ کا پیغام نبیوں تک پہنچایا۔ اور بعض نے اللہ کو مرجع بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی فرشتوں کے ذریعے حفاظت فرماتا ہے۔ 28۔ 2 فرشتوں کے پاس کی یا پیغمبروں کے پاس کی۔ 28۔ 3 کیونکہ وہی عالم الغیب ہے، جو ہوچکا اور آئندہ ہوگا، سب کا اس نے شمار کر رکھا ہے۔ یعنی اسکے علم میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] وحی الٰہی کی حفاظت کا اہتمام :۔ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ رسول کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیئے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے رسول کو پیغامات پہنچا دیئے اور تیسرا یہ کہ اللہ کو علم ہوجائے کہ رسولوں نے اس کے پیغام ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا دیئے۔ گویا ان پہرے داروں کی اس وقت تک ڈیوٹی ختم نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کے پیغامات فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک اور رسولوں کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچا نہیں دیئے جاتے۔- [٢٦] یعنی ان انتظامات کے علاوہ ان سب سے اوپر اللہ تعالیٰ کی اپنی نگرانی اور کنٹرول ہے۔ یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اسی طرح محیط ہے اگر وہ بال برابر بھی اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت میں آجائیں۔ نہ فرشتوں کی یہ مجال ہے کہ وہ وحی الٰہی میں سے ایک لفظ تک کی کمی بیشی کرسکیں اور نہ رسولوں کی۔ کیونکہ اللہ جو وحی بھیجتا ہے اس کا ایک ایک لفظ گنتی میں آچکا ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یعلم ان قدا ابلغوا…: اس سارے انتظام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ رسولوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر اس چھوٹی اور بڑی چیز کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہے اور ہر ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔ رسولوں کی مجال نہیں (خواہ وہ فرشتے ہں جیسے جبریل (علیہ السلام) یا انسان ہوں جیسے تمام رسول علیہ السلام) کہ اللہ کے پیغامات میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی کرسکیں۔ ی ہاں ایک سوال ہے کہ نص - تو پہلے ہی ہر چیز کا علم رکھتا ہے، پھر ” لعلم “ (تاکہ وہ جان لے) فرمانے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا ہے کہ اس طرح ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ سب انتظام اس لئے کیا ہے تاکہ رسول اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیں اور اللہ تعالیٰ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں۔- (٢) بعض لوگ ان آیات سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول بھی عالم الغیب ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں غیب پر مطلع کرتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے اور انبیاء کا علم غیب عطائی یعنی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے :(قل لایعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ) (النمل : ٦٥)” کہہ دیجیے ہ آسمانوں میں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ کے علاوہ غیب نہیں جانتا۔ “ یعنی عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر وہ کسی رسول کو کوئی بات بتادے تو اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتا، کیونکہ ایک تو رسولوں کو صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے جتنی بتائی جاتی ہے، وہ ہر بات نہیں جانتے اور یہ عالم الغیب کی شان کے لخاف ہے کہ اسے کچھ خبریں معلوم ہوں اور کچھ معلوم نہ ہوں۔ دوسیر جب کسی کو غیب کی کوئی بات بتانے سے معلوم ہو تو وہ عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ ہم سب عالم الغیب ہوجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی جو باتیں بتائیں وہ لوگوں کو پہنچانے کے لئے بتائیں، قیامت، جنت، دوزخ اور حوض کوثر وغیرہ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے سے ہمیں معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہیں ؟ ظاہر ہے ایسا نہیں، سو حق یہی ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے، دوسرا کوئی عالم الغیب نہیں، نہ ذاتی نہ عطائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخر سورت میں فرمایا وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات خاص ہے جس کے علم میں ہر چیز کے اعداد و شمار ہیں۔ اس کو پہاڑوں کے اندر جتنے ذرے ہیں ان کا بھی عدد معلوم ہے، ساری دنیا کے دریاؤں میں جنتے قطرے ہیں ان کا شمار اس کے علم میں ہے ہر بارش کے قطروں اور تمام دنیا کے درختوں کے پتوں کے اعداد و شمار کا اسی کو علم ہے۔ اس میں پھر علم غیب کلی کا ذات حق سبحانہ، و تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونا واضح کردیا کہ کسی کو مذکورہ اسثناء سے غلط فہمی نہ ہوجائے۔- مسئلہ علم غیب کے معنے اور اس کے ا حکامام سورة نمل کی (آیت) قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ کے تحت میں پوری تحقیق و تفصیل کے ساتھ گذر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم - تمت بحمد اللہ تعالیٰ سورة الجن لیلتہ الجمعہ 10 رجب 1391

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۝ ٢٨ ۧ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - حصا - الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی:- وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها»- ( ح ص ی ) الا حصاء - ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور یہ انتظام اس لیے کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے کہ فرشتوں نے حفاظت کے ساتھ اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچا دیا اور ہمارے جاننے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان تمام فرشتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو اس کے پاس موجود ہیں اور اس کو ہر ایک چیز کی پوری طرح گنتی معلوم ہے جیسا کہ وہ کپڑوں میں لپٹنے والے کی حالت سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ ” تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے واقعتا اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے ہیں “- یعنی اللہ تعالیٰ یہ بات واضح کر دے۔ اسی حوالے سے اتمامِ حجت کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرین سے پوچھا تھا : (اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ ) ” کیا میں نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچادیا ؟ “ اس پر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا تھا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (١)- وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا ۔ ” اور وہ احاطہ کیے ہوئے ہے اس سب کچھ کا جو ان کے پاس ہے اور اس نے ہرچیز کا حساب کتاب رکھا ہوا ہے گنتی کے ساتھ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :29 اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ رسول یہ جان لے کہ فرشتوں نے اس کو اللہ تعالی کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی یہ جان لے کہ فرشتوں نے اپنے رب کے پیغامات اس کے رسول تک صحیح صحیح پہنچا دیے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالی یہ جان لے کہ رسولوں نے اس کے بندوں تک اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ۔ آیت کے الفاظ ان تینوں معنوں پر حاوی ہیں اور بعید نہیں کہ تینوں ہی مراد ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ آیت دو مزید باتوں پر بھی دلالت کرتی ہے ۔ پہلی بات یہ کہ رسول کو وہ علم غیب عطا کیا جاتا ہے جو فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے اس کو دینا ضروری ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جو فرشتے نگہبانی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں وہ صرف اسی بات کی نگہبانی نہیں کرتے کہ رسول تک وحی محفوظ طریقے سے پہنچ جائے بلکہ اس بات کی نگہبانی بھی کرتے ہیں کہ رسول اپنے رب کے پیغامات اس کے بندوں تک بےکم و کاست پہنچا دے ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :30 یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالی کی قدرت اس طرح محیط ہے کہ اگر بال برابر بھی وہ اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت میں آ جائیں ۔ اور جو پیغامات اللہ تعالی بھیجتا ہے ان کا حرف حرف گنا ہوا ہے ، رسولوں اور فرشتوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ان میں ایک حرف کی کمی بیشی بھی کر سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani