3۔ 1 یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی اولاد یا بیوی ہو۔ گویا جنوں نے ان مشرکوں کی غلطی کو واضح کیا جو اللہ کی طرف بیوی یا اولاد کی نسبت کرتے تھے، انہوں نے ان دونوں کمزویوں سے رب کی پاکی بیان کی۔
[٢] قرآن سننے والے جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ :۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر قرآن سننے والے جن مشرک تھے اور ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے بھی متاثر تھے۔ قرآن کا بیان سن کر انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات بیوی بیٹوں کی احتیاج سے پاک ہے۔ اور اس کے متعلق ایسا تصور رکھنا سخت گمراہ کن عقیدہ ہے۔ لہذا ہم ایسے عقیدہ و خیالات سے توبہ کرکے اللہ اکیلے پر ایمان لاتے ہیں۔
وانہ تعلی جدربنا…:” اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے ” یعنی ہم اس پر بھی ایمان لے ائٓے کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ یہ جن تثلیث کو ماننے والے نصراین تھے یا کسی ایسے مذہب کو ماننے والے تھے جس میں اللہ تعالیٰ کی بیوی اور اولاد مانی جاتی ہے۔ اب انہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اولاد ہو۔ بیوی ماننے سے وہ بلند شان والا نہیں بلکہ محتاج ٹھہرتا ہے، کیونکہ خاوند شہوت کے ہاتھوں اس کا محتاج ہوتا ہے اور اولاد بھی اسی شہوت کا نتیجہ ہے جو اسے بیوی کے پاس جانے پر مجبور کرتی ہے، تو پھر شان کیا بلند رہی ۔ (طبری)
(آیت) وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا جد کے معنے شان کے ہیں حق تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے، تعالیٰ جدہ یعنی بلند وبالا ہے اس کی شان، یہاں جدہ کی ضمیر راجع کرنے کے بجائے لفظ رب مظہر رکھ دیا گیا جس میں اس علو شان کی دلیل بھی آگئی کیونکہ جو ذات مخلوق کی پروردگار ہے اس کا سب مخلوق سے عالی شان ہونا ظاہر ہے۔- اس آیت میں وانہ کے عطف اور ترکیب نحوی میں مفسرین کا کلام طویل ہے۔ عوام کو اس کی حاجت نہیں۔
وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا ٣ ۙ- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] ، لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس 83] ، وقال تعالی: فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون 46] ، وقال لإبلیس : أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص 75] ، لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص 83] ، وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون 91] ، وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 4] ، وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل 14] . والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] ، [ و تخصیص لفظ التّفاعل لمبالغة ذلک منه لا علی سبیل التّكلّف كما يكون من البشر ] وقال عزّ وجلّ : تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43] ، فقوله : ( علوّا) ليس بمصدر تعالی. كما أنّ قوله ( نباتا) في قوله : أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح 17] ، و ( تبتیلا) في قوله : وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل 8] ، کذلک والأَعْلى: الأشرف . قال تعالی: أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلى [ النازعات 24] ، والاسْتِعْلاءُ : قد يكون طلب العلوّ المذموم، وقد يكون طلب العلاء، أي : الرّفعة، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى[ طه 64] ، يحتمل الأمرین جمیعا . وأما قوله : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى[ الأعلی 1] ، فمعناه : أعلی من أن يق اس به، أو يعتبر بغیره، وقوله : وَالسَّماواتِ الْعُلى[ طه 4] ، فجمع تأنيث الأعلی، والمعنی: هي الأشرف والأفضل بالإضافة إلى هذا العالم، كما قال : أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّماءُ بَناها [ النازعات 27] ، وقوله : لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، فقد قيل هو اسم أشرف الجنان کما أنّ سجّينا اسم شرّ النّيران، وقیل : بل ذلک في الحقیقة اسم سكّانها، وهذا أقرب في العربيّة، إذ کان هذا الجمع يختصّ بالناطقین، قال : والواحد عِلِّيٌ نحو بطّيخ . ومعناه : إن الأبرار في جملة هؤلاء فيكون ذلک کقوله : فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ [ النساء 69] ، الآية . وباعتبار العلوّ قيل للمکان المشرف وللشّرف : العَلْيَاءُ ، والعُلِّيَّة : تصغیر عَالِيَةٍ فصار في التّعارف اسما للغرفة، وتَعَالَى النهار : ارتفع، وعَالِيَةُ الرّمحِ : ما دون السّنان، جمعها عَوَالٍ ، وعَالِيَةُ المدینةِ ، ومنه قيل : بعث إلى أهل العَوَالِي ونسب إلى العَالِيَة فقیل : عُلْوِيٌّ والعَلَاةُ : السّندان حدیدا کان أو حجرا . ويقال : العُلِّيَّةُ للغرفة، وجمعها عَلَالِي، وهي فعالیل، والعِلْيَانُ : البعیر الضّخم، وعِلَاوَةُ الشیءِ : أعلاه . ولذلک قيل للرّأس والعنق : عِلَاوَةٌ ، ولما يحمل فوق الأحمال : عِلَاوَةٌ. وقیل : عِلَاوَةُ الرّيح وسفالته، والمُعَلَّى: أشرف القداح، وهو السابع، واعْلُ عنّي، أي : ارتفع و ( تَعالَ ) قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى، و ( عَلَى) : حَرْفُ جرٍّ ، وقد يوضع موضع الاسم في قولهم : غدت من عليه - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- لَعالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ [يونس 83] اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور ( کبر وکفر میں ) حد سے بڑہا ہوا تھا فَاسْتَكْبَرُوا وَكانُوا قَوْماً عالِينَ [ المؤمنون 46] ، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سر کش لوگ تھے ۔ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالِينَ [ ص 75] کیا تو غرور میں آگیا اور نچے درجے والوں میں تھا۔ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ [ القصص 83] جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارداہ نہیں رکھتے ۔ وَلَعَلا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ المؤمنون 91] اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا ۔ اور مجھ سے سر کشی نہکرو ۔ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 4 اور بڑی سر کشی کرو گے ۔ وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوًّا [ النمل 14] اور بےانصابی اور غرور سے ( ان کا انکار کیا) کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( بکسراللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] یہلوگ جو شرک کرتے ہیں خدا کی شان اس سے بلند ہے ۔ اور یہاں تعالیٰ باب تقاعل سے ہے جس کے معنی ہیں نہایت ہی بلند ورنہ یہاں تکلف کے معنی مقصود نہیں مقصود نہیں ہیں جیسا کہ جب یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43] اور جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس سے ( اس کا رتبہ ) بہت عالی ہے ۔ میں لفظ علوا فعل تعالیٰ کا مصدر نہیں ہے جیسا کہ آیت : ۔ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً [ نوح 17] وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا [ المزمل 8] میں نباتا اور تبتیلا مصدر ( من غیر یا بہ واقع ہوئے ) ہیں ۔ الاعلٰی ۔ سب سے بلند اشراف ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلى [ النازعات 24] کہ تمہارا سب سے بڑا مالک میں ہوں ۔ الاستعلاء ( استفعال ) کبھی یہ مذموم غلبہ کی طلب کے لئے آتا ہے اور کبھی اس کے معنی طلب رفعت کے ہوتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى[ طه 64] اور آج جو غالب رہا وہی کامیاب ہے ۔ میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى[ الأعلی 1]( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار ( جلیل القدر کے نام کی تسبیح کرو ۔ پروردگار کے الاعلٰی ہونے کے معنی یہ ہیں اس کی ذات اس بات سے بلند ہے کہ کسی مخلوق کو اس پر قیاس کیا جائے یا اسے دوسروں کی طرح سمجھا جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتِ الْعُلى[ طه 4] اور اونچے اونچے آسمان بنائے ۔ علی علیا کی جمع ہے اور علیا اعلٰی کی تانیث ہے اور معنی یہ ہیں کہ آسمان اس دنیا سے اشرف و افضل ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّماءُ بَناها [ النازعات 27] بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا اسی نے اس کو بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] علین میں ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ علین جنت میں سب سے اعلٰی مقام کا نام ہے جس طرح کہ سجین دو زخ میں سب سے زیادہ تکلیف وہ طبقہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دراصل اس کا اطلاق جنتی لوگوں پر ہوتا ہے اور قواعد عربی کے لحاظ سے یہی معنی اقرب الی الصوب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ یہ جمع ( جمع سالم ) ذوی العقول کے ساتھ مختص ہے اور یہ علی بر وزن بطیخ کی جمع ہے اور یہ ہیں کہ ابرار بھی علین لوگوں کے زمرہ میں شامل ہون گے جیسے فرمایا : ۔ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ [ النساء 69] الایۃ وہ قیامت کے روز ) ان لوگوں کے ستاھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق الخ ۔۔۔۔۔۔ اور معنی علو کے لحاظ سے بلند مقام کو اور بلندی کو علیاء کہا جاتا ہے اور علیہ اصل میں تو عالیۃ کی تصغیر ہے لیکن عرف میں بالا خانہ کو علیۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع علالی بر وزن فعالیل ہے تعالیٰ النھار دن بلند ہوگیا عالیۃ الرمح سنان ( بڑے نیزے ) سے چھوٹا نیزہ ۔ عالیۃ الندینۃ مدینہ کی اعلٰی جانب اس کی جمع عوال ہے اسی سے کہا گیا ہے ۔ بعث الیٰ اھل العوالی کہ اہل عوالی کو بلا بھیجا اور عالیۃ کی طرف نسبت کے وقت علوی کہا جائے گا اور علاۃ کے معنی سندان یعنی نہائی کے ہیں عام اس سے کہ وہ لوہے کی ہو یا پتھتر کی ۔ العلیان بڑا جسیم اونٹ ۔ علاوۃ الشئی کسی چیز کے اوپر کے حصہ کو کہتے ہیں اسی سے سر اور گردن کو علا وۃ کہا جاتا ہے نیزے پورے بوجھی کے بعد اوپر سے جو ززائد بوجھ رکھا جائے اسے بھی علاوۃ کہا جاتا ہے علاوۃ الریح جو ہوا اوپر سے آئے اس کی ضد سفالۃ ہے۔ المعلٰی قمار بازی کا ساتواں تیر جو سب سے اشرف اور اعلٰی ہوتا ہے ۔ اعلٰ عنی مجھ سے دور ہوجا ۔ تعالیٰ ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا ۔ ( علیٰ ) علٰی ۔ یہ حروف جارہ سے ہے مگر کبھی بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے جیسے عدت من علیہ اس پر اوپر کی جانب سے حملہ گیا ۔- جد - الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم :- أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] .- والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث .- ( ج د د ) الجد - ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه .- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔
ہمارے پروردگار کی بلند شان اور عظیم الشان بادشاہی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا اور نہ اولاد جیسا کہ کفار بکتے رہتے ہیں۔- شان نزول : قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (الخ)- امام بخاری اور ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم نے نہ جنوں کے سامنے قرآن کریم پڑھا اور نہ آپ نے ان کو دیکھا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ سوق عکاظ تشریف لے جارہے تھے۔ جنات اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ ہوگئی اور ان کو بذریعہ شہاب ثاقب روک گیا گیا تھا تو وہ اپنی قوم کے پاس گئے اور آپس میں غوروفکر کیا کہ یہ بات جو پیش آئی ہے وہ کسی نئے کام کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے جو پیش آنے والا ہے۔ لہذا اس کی تحقیق کے لیے چلو چناچہ جنوں کی یہی جماعت تہامہ کی طرف روانہ ہوئی اور اس وقت رسول اکرم بطن نخلہ میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ چناچہ جب ان جنوں نے قرآن کریم سنا تو اسے غور سے سننے لگے اور کہنے لگے یہی اللہ کی قسم تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوا ہے تو وہیں سے اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے اے ہماری قوم ہم نے عجیب قرآن کریم سنا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت قل اوحی نازل فرمائی۔- اور امام ابن جوزی نے کتاب صفوۃ الصفوۃ میں اپنی سند سے سہل بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں عاد کی بستیوں میں ایک کونے میں تھا کہ اچانک میں نے ایک پتھروں کا شہر دیکھا اس کے درمیان پتھروں کا بنا ہوا ایک محل تھا کہ جس میں جن داخل ہورہے تھے، چناچہ میں اس میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک عظیم الجثہ شیخ کو دیکھا جو بیت اللہ کی طرف منہ کیے ہوئے نماز پڑھ تھے اور ان پر اون کا ایک جبہ تھا اور اس پر پھول تھے تو میں ان کے عظیم الجثہ ہونے سے متعجب ہوا جیسا کہ ان کے جبہ کی خوبصورتی سے متعجب ہوا۔ چناچہ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہنے لگے اے سہل بدن کپڑوں کو پرانا نہیں کرتے بلکہ کپڑوں کو گناہوں کی بدبو اور حرام کاریوں کا مزہ پرانا کرتی ہے اور یہ جبہ میں سات سو سال سے پہنے ہوئے ہوں، اسی جبہ میں میں نے حضرت عیسیٰ اور رسول اکرم سے ملاقات کی ہے اور دونوں نبیوں پر ایمان لایا ہوں۔ سہل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کون ہیں، انہوں نے فرمایا کہ ان ہی لوگوں میں سے ہوں جن کے بارے میں قل اوحی الی نازل ہوئی ہے۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :4 اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ یہ جن یا تو عیسائی جنوں میں سے تھے ۔ یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس میں اللہ تعالی کو بیوی بچوں والا سمجھا جاتا تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن پاک کا کوئی حصہ پڑھ رہے تھے جسے سن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہو گئی اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالی کی بلند و برتر ذات کی طرف سے بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے ۔