Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 (ہمارے بےوقوف) سے بعض نے شیطان مراد لیا ہے اور بعض نے ان کے ساتھی جن اور بعض نے بطور جنس ؛ یعنی ہر وہ شخص جو یہ گمان باطل رکھتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ شَطَطًا کے کئ معنی کئے گئے ہیں، ظلم، جھوٹ، باطل، کفر میں مبالغہ وغیرہ۔ مقصد، راہ اعتدال سے دوری اور حد سے تجاوز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات کہ اللہ کی اولاد ہے ان بیوقوفوں کی بات ہے جو راہ اعتدال سے دور، حد متجاوز اور کاذب و افترا پرداز ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] سَفِیْھُنَا میں سفیہ سے مراد ایک فرد بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں وہ ابلیس ہے۔ جس نے جن و انسان کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور سفیہ سے مراد نادانوں کا گروہ بھی ہوسکتا ہے اور جھوٹی باتوں سے مراد تمام شرکیہ عقائد ہیں۔ بالخصوص یہ کہ اللہ کی بیوی بھی ہے اور اولاد بھی یا یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں یا یہ کہ کائنات میں کئی دیوی، دیوتا اور اللہ کے پیارے ایسے ہیں جنہیں اللہ نے کائنات میں تصرف امور کے بعض اختیارات سونپ رکھے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وانہ کان یقول سفیھنا :” سفیھنا “ (ہمارا بیوقوف ) سے مراد ایک فرد بھی ہوسکتا ہے اور ایک گروہ بھی۔ فرد ہو تو ابلیس یا ان جنوں کا سردار مراد ہے۔ گروہ ہو تو مطلبب یہ ہے کہ ہم میں سے کئی بیوقوف اور احمق لوگ اللہ تعالیٰ پر ایسی زیادتی کی باتیں تھوپا کرتے تھے کہ اس کا کوئی شریک ہے یا اس کی اولاد اور بیوی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ۙوَّاَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْهُنَا عَلَي اللّٰهِ شَطَطًا ۝ ۙوَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللّٰهِ كَذِبا۔ لفظ شطط کے معنے قول بعید از عقل اور ظلم وجور کے آتے ہیں مراد یہ ہے کہ ایمان لانے والے جنات نے اب تک شرک و کفر میں مبتلا رہنے کا عذر یہ بیان کیا کہ ہماری قول کے بیوقوف لوگ اللہ تعالیٰ کی شان میں بےسروپا باتیں کہا کرتے اور ہمیں یہ گمان نہ تھا کہ کوئی انسان یا جن اللہ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرسکتا ہے اس لئے ان بیوقوفوں کی بات میں آ کر آج تک ہم کفر و شرک میں مبتلا تھے اب قرآن سنا تو حقیقت کھلی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّہٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْہُنَا عَلَي اللہِ شَطَطًا۝ ٤ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل :- سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ- [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ- [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] .- ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- شطط - الشَّطَطُ : الإفراط في البعد . يقال : شَطَّتِ الدّارُ ، وأَشَطَّ ، يقال في المکان، وفي الحکم، وفي السّوم، قال : شطّ المزار بجدوی وانتهى الأمل«1» وعبّر بِالشَّطَطِ عن الجور . قال تعالی: لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] ، أي : قولا بعیدا عن الحقّ. وشَطُّ النّهر حيث يبعد عن الماء من حافته .- ( ش ط ط ) الشطط ۔- کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرنے کے ہیں جیسے شطت الدار واشط ( گھر کا دور ہونا ) اور یہ کسی مقام یا حکم یا نرخ میں حد مقررہ سے تجاوز کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے : ( البسیط ) یعنی حذوی ( محبوبہ ) کی زیارت مشکل ہوگئی اور ہر قسم کی امیدیں منقطع ہوگئیں ۔ اور کبھی شطط بمعنی جور بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] تو ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ شط النھر ۔ دریا کا کنارا جہاں سے پانی دور ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں یعنی شیطان وہ اللہ کی شان میں جھوٹی باتیں بکتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَّاَنَّـہٗ کَانَ یَـقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا ۔ ” اور یقینا ہمارا بیوقوف (سردار) اللہ کے بارے میں خلافِ حقیقت باتیں کہتا رہا ہے۔ “- اپنے ” بیوقوف “ سے ان کا اشارہ اپنے سب سے بڑے جن عزازیل (ابلیس) کی طرف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ سفیھنا استعمال کیا گیا ہے جو ایک فرد کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے بھی ۔ اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی میں لیا جائے تو مراد ابلیس ہو گا ۔ اور اگر ایک گروہ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جنوں میں بہت سے احمق اور بے عقل لوگ ایسی باتیں کہتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اس سے مراد کفر، شرک اور بد عقیدگی کی باتیں ہیں۔