Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اسی لئے ہم اس کی تصدیق کرتے رہے اور اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے رہے۔ حتٰی کہ ہم نے قرآن سنا تو پھر ہم پر اس عقیدے کا باطل ہونا واضع ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی جنوں اور انسانوں کی عظیم اکثریت اگر یہ باتیں کہتی ہے کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے یا فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں یا اللہ نے اپنے پیاروں کو بھی کئی قسم کے اختیارات تفویض کر رکھے ہیں تو وہ جھوٹ کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنی عظیم اکثریت جھوٹی بات پر کیسے اتفاق کرسکتی ہے۔ لہذا ہم نے بھی ان باتوں کو درست تسلیم کرلیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وانا ظننا ان لن تقول الانس والجن…: یعنی ہم یہی سمجھتے تھے کہ انسان اور جن کم از کم اللہ پر تو ہرگز جھوٹ نہیں باندھ سکتے، اسلئے ہم نے ان سے سن کر مان لیا کہ اللہ کے کچھ شریک ہیں اور اس کی اولاد اور بیوی بھی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ ظالم جھوٹے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللہِ كَذِبًا۝ ٥ ۙ- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہمارا پہلے خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی اللہ کی شان میں جھوٹ بات نہیں کہیں گے باقی اب ہم پر ان کا جھوٹ ثابت ہوگیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی آپس کی گفتگو کو روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّـنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۔ ” اور یہ کہ ہم تو اس گمان میں رہے کہ جن اور انسان اللہ پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھیں گے۔ “- وہ بدبخت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا رہا اور ہم اس خوش فہمی میں اس کی باتوں کو مانتے رہے کہ کوئی انسان یا جن اللہ کے بارے میں کبھی کوئی خلافِ حق بات نہیں کرسکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :6 یعنی ان کی غلط باتوں سے ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ انسان یا جن اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنے کی جرات بھی کر سکتے ہیں ، لیکن اب یہ قرآن سن کر ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی اب تک جو ہم غلط عقائد رکھتے رہے، اُس کی وجہ یہ تھی کہ سارے اِنسان اور جنات یہی عقائد رکھتے تھے، اس لئے خیال یہی ہوا کہ اتنے سارے لوگ جھوٹے عقائد نہیں رکھتے ہوں گے، چنانچہ ہم ان کی تقلید میں انہی عقائد کے قائل رہے۔