6۔ 1 یعنی جب جنات نے یہ دیکھا کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں اور ہماری پناہ طلب کرتے ہیں تو ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگیا۔
[٥] انسانوں کا جنوں سے پناہ مانگنا :۔ عہد جاہلیت میں اکثر لوگوں کا یہ عقیدہ بن چکا تھا کہ ہر غیر آباد جگہ جنوں کا مسکن ہوتا ہے۔ اور ان میں بھی انسانوں کی طرح بعض جن دوسروں کے سردار اور بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو وہاں حکومت کرتے ہیں اور اگر کسی انسان کا ایسے علاقہ میں گزر ہو اور اس جن کی پناہ مانگے بغیر اس جگہ میں رہائش پذیر ہوجائے جس کے قبضہ میں یہ غیر آباد جگہ ہے تو وہ حاکم جن ایسے انسان یا انسانوں کو علاقہ غیر میں داخل ہونے کی بنا پر سزا دینے اور تکلیف پہنچانے کا حق رکھتا ہے خواہ وہ خود ایسی سزا دے دے یا اپنے ماتحت جنوں سے دلوا دے چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں عرب جب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تو پکار کر کہتے کہ ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں، گویا انسان کی اوہام پرستی کا یہ عالم تھی کہ اللہ نے تو اسے اشرف المخلوقات اور جنوں سے بھی افضل پیدا کیا تھا لیکن اس زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا جنوں سے ڈرنا اور ان سے پناہ مانگنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہوگیا اور وہ واقعی اپنے آپ کو انسان سے افضل سمجھنے لگے۔
وانہ کان رجال من الانس…: عرب کے بعض مشرک جب کسی خوفناک جگہ یعنی جنگل وغیرہ میں جاتے تو کہتے کہ ہم اس علاقے میں جو جنوں کا سردار ہے اس کی پناہ میں آتے ہی۔ اس سے جنوں ک سرکشی اور بڑھ گی، کیونکہ وہ جان گئے کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو اور زیادہ ڈرانا شروع کردیا۔ معلوم ہوا آدمی کو نہ جنوں سے ڈرنا چاہیے نہ ان کی پناہ مانگنی چاہیے اور نہ کسی غیر اللہ کی دہائی دینی چاہیے، کیونکہ یہ شرک ہے، بلکہ صرف اور صرف اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ کسی بھی چیز کے شر سے پناہم انگنے کے لئے قرآن مجید کی آخری دو سوتروں جیسی کوئی چیز نہیں مزید وضاحت کے لئے ان دو سورتوں کی تفسیر دیکھیں۔- خولہ بنت حکیم (رض) عنہمانے فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے :(اذا نزل اخذ کم منزلاً فلیقل اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق، فانہ لا یضرہ شیء حتی برتحمل منہ) (مسلم، الذکر والدعا، باب فی التعوذ من سوء القضاء …: ٥٥ ٢٨٠٨)” جب تم میں سے کوئی شخص کسی منزل میں اترے تو اسے یہ کلمات کہنے چاہئیں، تو اسے وہاں سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی :(اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ماخلق)” میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔ “
(آیت) وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا اس آیت میں مومن جنات نے یہ بیان کیا ہے کہ جاہلیت کے لوگ جب کسی جنگل میں قیام کرتے تو اس جنگل کے جنات کی پناہ مانگتے تھے اس سے جنات یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم تو انسان سے بھی افضل ہیں کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتا ہے۔ اس بات نے جنات کی گمراہی میں اور اضافہ کردیا۔- حضرت رافع بن عمیر کا اسلام بسبب جنات :۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ ہواتف الجن میں سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے یہ نقل کیا ہے کہ رافع بن عمیر صحابی نے اپنے اسلام قبول کرنے کا ایک واقعہ یہ بتلایا ہے کہ میں ایک رات ایک ریگستان میں سفر کر رہا تھا۔ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا میں اپنی اونٹنی سے اترا اور سو گیا اور سونے سے پہلے میں نے اپنی قوم کی عادت کے مطابق یہ الفاظ کہہ لئے ان اعوذ بعظیم ھذا الوادی من الجن یعنی میں پناہ لیتا ہوں اس جنگل کے جنات کے سردار کی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے اس کو وہ میری ناقہ کے سینہ پر رکھنا چاہتا ہے، میں گھبرا کر اٹھ اور دائیں بائیں کچھ نہ پایا تو میں نے دل میں کہا کہ یہ شیطانی خیال ہے۔ خواب اصلی نہیں اور پھر سو گیا اور بالکل غافل ہوگیا۔ تو پھر وہی خواب دیکھا پھر میں اٹھا اور اپنی ناقہ کے چاروں طرف پھرا کچھ نہ پایا مگر ناقہ کو دیکھا کہ وہ کانپ رہی ہے۔ میں پھر جا کر اپنی جگہ سو گیا تو پھر وہی خواب دیکھا میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ میری ناقہ تڑپ رہی ہے اور پھر دیکھا ایک نوجوان ہے جس کے ہاتھ میں حزبہ ہے یہ وہی شخص تھا جس کو خواب میں ناقہ پر حملہ کرتے دیکھا تھا اور ساتھ ہی یہ دیکھا کہ ایک بوڑھے آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے جو ناقہ پر حملہ کرنے سے اس کو روک رہا ہے۔ اسی عرصہ میں تین گورخر سامنے آئے تو بوڑھے نے اس نوجوان سے کہا ان تینوں میں سے جس کو تو پسند کرے وہ لے لے اور اس انسان کے ناقہ کو چھوڑ دے۔ وہ جوان ایک گورخر لے کر رخصت ہوگیا پھر اس بوڑھے نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ اے بیوقوف جب تو کسی جنگل میں ٹھہرے اور وہاں کے جنات و شیاطین سے خطرہ ہو تو تو یہ کہا کہ اعوذ باللہ رب محمد من ھول ھذا الوادی یعنی میں پناہ پکڑتا ہوں رب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس جنگل کے خوف اور شر سے اور کسی جن سے پناہ نہ مانگا کر۔ کیونکہ وہ زمانہ چلا گیا جب انسان جنوں کی پناہ لیتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، نہ شرقی نہ غربی، پیر کے روز یہ مبعوث ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہاں کہاں رہتے ہیں، اس نے بتلایا کہ وہ یثرب میں رہتے ہیں جو کھجوروں کی بستی ہے۔ میں نے صبح ہوتے ہی مدینہ کا راستہ لیا اور سواری کو تیز چلایا یہاں تک کہ مدینہ طیبہ پہنچ گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دیکھا تو میرا سارا واقعہ مجھے سنا دیا اس سے پہلے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ ذکر کروں اور مجھے اسلام کی دعوت دی میں مسلمان ہوگیا۔ سعید بن جبیر اس واقعہ کو نقل کر کے فرماتے تھے کہ ہمارے نزدیک اسی معاملہ کے متعلق قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ ووَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا۔
وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ٦ ۙ- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - رهق - رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری.- ( ر ھ ق ) رھقہ - ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔
زمانہ جاہلیت میں یہ عادت تھی کہ جب لوگ سفر کرتے یا شکار کرتے یا کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو اس اعتقاد سے کہ جناب کے سردار ہماری حفاظت کریں گے تو یوں کہتے اعوذ بسید ھذا الوادی من سفھاء قومہ تو اس وجہ سے وہ لوگ امن میں رہتے۔- تو اس پناہ مانگنے نے ان جنات کی بددماغی اور بڑھا دی اور وہ جنات اپنے کو آدمیوں کا بھی سردار سمجھنے لگے اور جنات کی تین قسمیں ہیں ایک قسم تو قفاء میں رہتی ہے اور ایک جماعت اوپر نیچے جہاں چاہے آتی جاتی رہتی ہے اور ایک گروہ کتوں اور سانپوں کی طرح ہے۔- شان نزول : وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ (الخ)- ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عظمہ میں کر زم بن ابی السائب الانصاری سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں مدینہ کی طرف اپنے والد کے ساتھ کسی ضرورت کے لیے گیا اور یہ پہلا موقع تھا جبکہ رسول اکرم کا ذکر ہورہا تھا چناچہ ہم نے رات کو ایک چرواہے کے ہاں پڑاؤ کیا جب آدھی رات ہوئی تو ایک بھیڑیا آیا اور بکریوں میں سے ایک بچہ کو اٹھا لیا چرواہا اس پر کو دا اور کہنے لگا وادی کے نگران تیری پناہ تیری پناہ، اس کے بعد ایک پکارنے والے نے پکارا جس کو ہم نہیں دیکھ رہے تھے، چناچہ وہ اس بچہ کو پکڑ کر لایا یہاں تک کہ بکریوں میں چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر مکہ مکرمہ میں یہ آیت نازل فرمائی۔- اور ابن سعد نے ابورجاء عطاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے لشکر روانہ کیا اور میں اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال اور ان کی نگرانی کیا کرتا تھا، چناچہ جب حضور نے لشکر بھیجا تو ہم وہاں سے بھاگ کر نکلے اور ہم ایک چٹیل میدان میں آئے، چناچہ جب ہم ایسے مقام پر شام کرتے تھے تو ہم میں جو بوڑھا ہوتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ اس رات میں اس وادی کے سردار جن کی پناہ لیتا ہوں، چناچہ ہم نے حسب دستور یہی کہا تو ہم سے کہا گیا کہ اس کا محفوظ راستہ کلمہ شہادت ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ ہے، سو جو اس بات کا اقرار کرلیتا ہے تو وہ اپنی جان و مال کو محفوظ کرلیتا ہے، چناچہ ہم وہاں سے لوٹ کر آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے، ابو رجاء بیان کرتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور خرائطی نے کتاب ھواتف الجان میں عبداللہ بن محمد عمارہ بن زید، عبداللہ بن العلاء، محمد بن عکیر کے واسطہ سے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ بنی تمیم میں سے رافع بن عمیر نامی نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا کہ میں سخت ریت میں ایک رات چل رہا تھا کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا میں اپنی سواری پر سے اترا اسے بٹھا کر میں سو گیا۔- اور سونے سے پہلے میں نے یہ الفاظ سنے کہ جنات میں سے اس وادی کا جو سردار ہو میں اس کی پناہ لیتا ہوں، چناچہ میں نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے اور وہ اس نیزہ کو میری گردن پر رکھنا چاہتا ہے میں گھبرا کر بیدا ہوگیا، چناچہ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو کچھ بھی نظر نہیں آیا میں نے کہا جھوٹا خواب ہے، میں پھر دوبارہ سو گیا تو میں نے پھر اسی طرح خواب دیکھا، چناچہ میں بیدار ہوا تو میں نے اپنی اونٹنی کو تڑپتے ہوئے پایا، میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک نوجوان نظر آیا جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے اور دوسرا ایک بوڑھا آدمی اس کا ہاتھ تھامے ہوئے اس سے وہ نیزہ چھین رہا ہے، تو یہ دونوں اسی طرح جھگڑ رہے تھے کہ اچانک جنگل میں سے تین بیل آئے تو اس شیخ نے نوجوان سے کہا کہ اے نوجوان ان میں سے چاہے جونسا لے لے میرے پناہ حاصل کرنے والے انسان کی اونٹنی کے فدیہ میں، چناچہ وہ نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے ان میں سے ایک بیل لے لیا، پھر وہ شیخ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ جب تو کسی وادی میں پڑاؤ کرے اور اس کے ہول سے ڈرے تو یوں کہا کر کہ میں محمد کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں اس وادی کے شر سے اور جنات میں سے کسی کی پناہ نہ لے، کیونکہ ان کا معاملہ ختم ہوگیا، میں نے کہا یہ محمد کون ہیں، وہ شخص کہنے لگا نبی عربی ہیں نہ شرقی نہ غربی پیر کے دن پیدا ہوا ہیں، میں نے کہا تو ان کا مسکن کہاں ہے وہ کہنے لگا یثرب کھجوروں والا، چناچہ میں اپنی سواری پر سوار ہوا یہاں تک کہ صبح روشن ہوگئی تو میں نے رفتار اور تیز کردی اور میں مدینہ منورہ میں داخل ہوگیا مجھ کو رسول اکرم نے دیکھا تو اس سے پہلے کہ میں آپ سے کچھ ذکر کروں آپ نے میرا سارا واقعہ بیان کردیا اور مجھے اسلام کی دعوت دی۔ چناچہ میں مشرف بااسلام ہوگیا۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہیں جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے وّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ۔
آیت ٦ وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۔ ” اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ مرد جنات میں سے کچھ مردوں کی پناہ پکڑتے تھے ‘ تو انہوں نے ان (جنات) کی سرکشی میں مزید اضافہ کیا۔ “- عربوں کے ہاں جنات سے پناہ طلب کرنے کا رواج عام تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر جنگل اور ہر ویرانے میں جنات کا بسیرا ہوتا ہے۔ اس لیے جب ان کا کوئی قافلہ صحرا میں کہیں پڑائو کرتا تو قافلے کا سردار بآوازِ بلند پکارتا کہ ہم اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں آتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جنات تو انسانوں کی ایسی حماقتوں پر ہنستے ہوں گے کہ دیکھو آج اسی آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہمیں معبود بنائے بیٹھی ہے جسے سجدہ نہ کرنے پر ہمارے جدامجد کو جنت سے نکال دیا گیا تھا۔ چناچہ انسانوں کی ایسی حرکتوں سے جنات کے غرور اور سرکشی میں اور بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :7 ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے کہ جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پکار کر کہتے ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں ۔ عہد جاہلیت کی دوسری روایات میں بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے ۔ مثلا اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو ، پھر اس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تاکہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس سے پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھہر جائے تو وہ جن یا تو خود ستاتا ہے یا دوسرے جنوں کو ستانے دیتا ہے ۔ اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جن اشارہ کر رہے ہیں ۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا ہم سے ڈرنا شروع کر دیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا ، ان کا کبر و غرور اور کفر و ظلم اور زیادہ بڑھ گیا ، اور وہ گمراہی میں زیادہ جری ہو گئے ۔
4: زمانہ جاہلیت میں جب لوگ اپنے سفر کے دوران کسی جنگل میں قیام کرتے تو اُس جنگل کے جِنّات کی پناہ مانگتے تھے۔ یعنی اس جنگل کے جِنّات سے یہ درخواست کرتے تھے کہ وہ اُنہیں اپنی پناہ میں ہے کر تکلیف پہنچانے والی مخلوقات سے بچائیں۔ اس عمل سے جِنّات یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم اِنسانوں سے افضل ہیں، کیونکہ وہ ہماری پناہ کے محتاج ہیں۔ اس طرح ان کی گمراہی میں اور اضافہ ہوگیا۔