Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے کسی جگہ بیٹھتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے اور پھر آ کر کاہنوں کو خبر دیتے تھے اور کاہن ان باتوں کو بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اپنے ماننے والوں سے کہتے ، اب جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان پر زبردست پہرے بٹھا دیئے گئے اور ان شیاطین کو پہلے کی طرح وہاں جا بیٹھنے اور باتیں اڑا لانے کا موقعہ نہ رہا ، تاکہ قرآن کریم اور کاہنوں کا کلام خلط ملط نہ ہو جائے اور حق کے متلاشی کو دقت واقع نہ ہو ۔ یہ مسلمان جنات اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہم آسمان پر جا بیٹھتے تھے مگر اب تو سخت پہرے لگے ہوئے ہیں اور آگ کے شعلے تاک لگائے ہوئے ہیں ایسے چھوٹ کر آتے ہیں کہ خطاہی نہیں کرتے جلا کر بھسم کر دیتے ہیں ، اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سے حقیقی مراد کیا ہے؟ اہل زمین کی کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب کا ارادہ نیکی اور بھلائی کا ہے ، خیال کیجئے کہ یہ مسلمان جن کس قدر ادب داں تھے کہ برائی کی اسناد کے لئے کسی فاعل کا ذکر نہیں کیا اور بھلائی کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور کہا کہ دراصل آسمان کی اس نگرانی اس حفاظت سے کیا مطلب ہے ، اسے ہم نہیں جانتے ۔ اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ الٰہی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں ، ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہو گئی تو آپ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے؟ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر ، آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے ، الخ ۔ یہ حدیث پورے طور پر سباء کی تفسیر میں گذر چکی ہے ۔ دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا ، جنات کا ان سے ہلاک ہونا ، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا ، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چنانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گذر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے ، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہوگئے ، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا ، سورہ احقاف کی آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀ ) 46- الأحقاف:29 ) میں اس کا پورا بیان گذر چکا ہے ، ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے بھی ایک خوفناک علامت تھی ، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا ، حضرت سدی فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہوگئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں ، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے ، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کر دیئے آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لئے ہو رہے ہیں ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ) اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو ، انہوں نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب سبب مکہ میں ہے ، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاں حضور علیہ السلام مسجد حرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جس سن کر ان کے دل نرم ہوگئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی ، الحمد اللہ ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب السیرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی آسمانوں پر فرشتے چوکیداری کرتے ہیں کہ آسمانوں کی کوئی بات کوئی اور نہ سن لے اور یہ ستارے آسمان پر جانے والے شیاطین پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وانا لمسنا السمآء فوجدنھا ملئت …: اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو آسمان کی زینت کے علاوہ ان شیاطین سے حفاظت کا ذریعہ بھی بنایا ہے جو آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو ہٹانے کے لئے ہر طرف سے ان پر شہابوں (انگ اورں) کی بارش ہوتی ہے۔ (دیکھیے صافات : ٦ تا ١٠) عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان الملائکۃ تنزل فی العنان وھو السحاب فتذکر الا مر قضی فی السماء فتسترق الشیاطین السمع فتسمعہ فتوحیہ الی الکھان ، فیکذبون معھا مائۃ کذبۃ من عندانفسھم) (بخاری، بدء الخق ، باب ذکر المائکۃ صولات اللہ علیھم : ٣٢١٠)” فرشتے عنان یعنی بادل میں اترتے ہیں اور (آپس میں) اس بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمان میں فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے، تو شیطان چوری سے وہ بات سننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے سن لیتے ہیں، پھر وہ یہ بات کاہنوں کو چپکے سے پہنچا دیتے ہیں، پھر کاہن اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ “- (٢) ملئت حرساً شدیداً و شھباً : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی عالم بالا کی حفاظت کا اتنظام تھا، مگر جن کوئی نہ کوئی بات سن لیتے تھے اور انہیں بالائی فضا میں چھپ کر بیٹھنے کی بھی کوئی نہ کوئی جگہ مل جاتی تھی، اب (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد) جب وہ سننے کے لئے اوپر گئے تو ساری بالائی فضا سخت پہرے اور مسلسل شہابوں کی بارش سے بھری ہوئی تھی۔ ” ملئت “ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب پہرے کا نظام پہلے سے بہت سخت ہوگیا تھا۔ اس سے انہیں پریشانی ہوئی اور وہ تلاش میں نکلے کہ اس بندوبست کا باعث ہے ؟ جیسا کہ اس سورت کی شان نزول میں گزر چکا ہے۔- (٣) قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جن انسانوں سے الگ مخلوق ہیں جو مٹی سے نہیں بلکہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اور جو انسان کی پیدائش سے پہلے موجود تھے۔ جن آسمان کے قریب جاسکتے ہیں اور بعض اوقات عالم بالا کی ایک آدھ بات چرا سکتے ہیں، انہیں انسانوں ہی میں سے سرکش قوم یا چھپے ہوئے جراثیم قرار دے کر ان کا انکار کردینا قرآن و حدیث کا انکار ہے۔ کسی چیز کے انکار کی یہ بنیاد کہ اگر وہ موجود ہوتی تو نظر آتی، بےحد کمزور بنیاد ہے۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (٢٧، ٣٨) ، ہود (١١٩) ، حم سجدہ (٢٥، ٢٩) اور سورة احقاف (١٨، ٢٩، ٣٢) ۔ آدم اور ابلیس کا قصہ جو قرآن مجید میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور سورة رحمان پوری اس بات کی شاہد ہے کہ جن اور انسان الگ الگ مخلوق ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا لفظ سماء عربی لغت میں جس طرح آسمان کے لئے بولا جاتا ہے اسی طرح بادل پر بھی لفظ سماء کا اطلاق عام اور معوف ہے۔ یہاں بظاہر سماء سے مراد یہی بادل ہے۔- جنات آسمانی خبریں سننے کے لئے صرف بادلوں تک جاتے تھے آسمان تک نہیں :۔ اور جنات و شیاطین کا آسمانی خبریں سننے کے لئے آسمان تک جانے کا مطلب یہی ہے کہ بادلوں تک جاتے تھے اور وہاں سے آسمانی خبریں سنتے تھے۔ اور دلیل اس کی حضرت صدیقہ عائشہ کی حدیث جو صحیح بخاری میں بالفاظ ذیل آئی ہے۔- حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ فرشتے عنان سماء میں اترتے ہیں جس کے معنے بادل کے ہیں وہاں وہ ان فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان میں جاری فرمائے ہیں۔ یہاں سے شیطان یہ خبریں چراتے ہیں اور سن کر کاہنوں کے پاس لاتے ہیں اور اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا کر ان کو بتاتے ہیں۔- اور صحیح بخاری ہی میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اصل آسمانوں میں پیش آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم آسمان میں جاری فرماتے ہیں تو سب فرشتے بغرض اطاعت اپنے پر مارتے ہیں اور جب کلام ختم ہوجاتا ہے تو باہم تذکرہ کرتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ اس تذکرہ کو آسمانی خبریں چرانے والے شیاطین سن لیتے ہیں اور کاہنوں کے پاس اس میں بہت سے جھوٹ شامل کر کے پہنچاتے ہیں۔- یہ مضمون حدیث عائشہ مذکورہ کے منافی نہیں کیونکہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شیاطین آسمانوں میں جا کر یہ خبریں چرا لاتے ہیں بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے یہ خبریں درجہ بدرجہ آسمانوں میں فرشتوں کے اندر پھیلتی ہوں، پھر فرشتے عنان سماء یعنی بادل تک آتے اور اس کا تذکرہ کرتے ہوں یہاں سے شیاطین خبروں کی چوری کرتے ہوں جیسا کہ حضرت صدیقہ عائشہ کی حدیث میں ہے ( کذافی المظہری) - بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین کا آسمانی خبریں سن کر کاہنوں تک پہنچانے کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا۔ شیاطین بادلوں تک پہنچ کر فرشتوں سے سن لیا کرتے تھے۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت آپ کی آسمانی وحی کی حفاظت کے لئے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان یہ خبریں سننے کے لئے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ نیا حادثہ تھا جس کی شیاطین و جنات کو فکر ہوئی اور تحقیق حال کے لئے دنیا کی مشرق و مغرب میں وفود بھیجے پھر مقام نخلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک وفد جنات کا قرآن سن کر ایمان لانا سورة جن میں ذکر فرمایا گیا۔- شہاب ثاقب بعثت نبوی سے پہلے بھی تھے مگر ان کے ذریعہ دفع شیاطین کا کام آپ کے زمانہ سے ہوا :۔ یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ شہاب ثاقب جس کو عرف میں ستارہ ٹوٹنا یا عربی میں انقضاص الکوکب کہتے ہیں۔ یہ تو دنیا میں قدیم زمانہ سے ہوتا آیا ہے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد نبوی کی تخصیص ہے۔ جواب یہ ہے کہ شہاب ثاقب کا وجود تو پہلے سے تھا خواہ اس کی حقیقت وہ ہو جو فلاسفہ بیان کرتے ہیں کہ زمین سے کچھ آتشیں مادے فضا میں پہنچتے ہیں وہ کسی وقت بھڑک اٹھتے ہیں یا یہ ہو کہ خود کسی ستارہ اور سیارہ سے یہ آتشیں مادہ نکلتا ہو۔ بہرحال اس کا وجود اگرچہ ابتداء عالم سے ہے مگر اس آتشیں مادہ سے شیاطین کو دفع کرنے کا کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے شروع ہوا اور یہ بھی رضوری نہیں کہ جتنے شہاب ثاقب نظر آتے ہیں سب سے ہی یہ کام لیا جاتا ہو۔ اس کی پوری تفصیل سورة حجر کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُہُبًا۝ ٨ ۙ- لمس - اللَّمْسُ : إدراک بظاهر البشرة، کالمسّ ، ويعبّر به عن الطّلب، کقول الشاعر :- وأَلْمِسُهُ فلا أجده وقال تعالی: وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً- [ الجن 8] ، ويكنّى به وبِالْمِلَامَسَةِ عن الجماع، وقرئ : لامَسْتُمُ [ المائدة 6] ولَمَسْتُمُ النّساء حملا علی المسّ ، وعلی الجماع، «ونهى عليه الصلاة والسلام عن بيع الملامسة»وهو أن يقول : إذا لَمَسْتَ ثوبي، أو لَمَسْتُ ثوبک فقد وجب البیع بيننا، واللُّمَاسَةُ : الحاجة المقاربة .- ( ل م س ) اللمس ( ن ) مس کی طرح اس کے معنی بھی اعضاٰ کی بلائی کھال کے ساتھ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مطلق کسی چیز کی طلب کرنے کے معنی میں آتا ہے شاعر نے کہا ہے ( مجزوالوافر ) ( 400) المسہ فلا اجدہ میں اسے تلاش کرتا ہوں مگر وہ ملتا نہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً [ الجن 8] اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا۔ اور لمساور ملامسۃ کے معنی کنایتۃ جماع کے بھی آتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : لامَسْتُمُ [ المائدة 6] یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو ۔ میں ایک قراءت لمستم النساء بھی ہے اس لئے مجامعت کرنا مراد لیا ہے اور حدیث میں ہے (112) انہ نھی عن الملامسۃ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع ملامسۃ سے منع فرمایا : اور بیع ملامسۃ کی صورت یہ ہے کہ بائع یا مشتری دوسری سے کہہ کہ جب ہم سے کوئی دوسرے کپڑا چھوٹے گا تو بیع واجب ہوجائے گی ۔ اللماسۃ ۔ معمولی حاجت ۔ سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- مِلْء) بهرنا)- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ - حرس - قال اللہ تعالی: فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً [ الجن 8] ، والحَرَس والحُرَّاس جمع حارس، وهو حافظ المکان، والحرز والحرس يتقاربان معنی تقاربهما لفظا، لکن الحرز يستعمل في الناضّ والأمتعة أكثر، والحرس يستعمل في الأمكنة أكثر، وقول الشاعر : فبقیت حرسا قبل مجری داحس ... لو کان للنفس اللجوج خلودقیل : معناه : دهرا فإن کان الحرس دلالته علی الدّهر من هذا البیت فقط فلا يدلّ ، فإنّ هذا يحتمل أن يكون مصدرا موضوعا موضع الحال، أي : بقیت حارسا، ويدلّ علی معنی الدهر والمدّة لا من لفظ الحرس، بل من مقتضی الکلام . وأَحْرَسَ معناه : صار ذا حرس، كسائر هذا البناء المقتضي لهذا المعنی وحَرِيسَة الجبل : ما يحرس في الجبل باللیل . قال أبو عبید : الحریسة هي المحروسة وقال : الحریسة : المسروقة، يقال : حَرَسَ يَحْرُسُ حَرْساً ، وقدّر أنّ ذلک لفظ قد تصوّر من لفظ الحریسة، لأنه جاء عن العرب في معنی السرقة .- ( ح ر س) الحرس والحراس ( جمع ) پاسبان ۔ اس کا واحد حارس ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً [ الجن 8] سے بھرا ہوا پایا ۔ الحرس ( ض) اور الحرز کے جس طرح الفاظ ملتے جلتے ہیں ایسے ہی ان کے معنی بھی قریب قریب ایک ہی ہیں ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ حرز کا استعمال زیادہ نقدی اور سامان کی حفاظت کے لئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (104) فبقیت حرسا قبل مجری داحس لوکان للنفس اللجوج خلود میں واحس کی دوڑ سے پہلے اس کی حفاظت کرتا رہا کاش سرکش کے لئے ہمیشہ رہنا ہوتا بعض نے کہا ہے کہ شعر میں حرسا کے معنی دھرا کے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر صرف اس شعر کی بنا پر حرس کے معنی زمانہ کے گئے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ شعر مذکورہ میں ہوسکتا ہے کہ حرس مصدر بمعنی فاعل موضع حال میں ہو اسی بقیت حارسا اب رہا اس کا زمانہ یا مدت کے معنی پر دلالت کرنا تو یہ لفظ حرس کے اصل میں نہیں ہیں بلکہ مقتضائے کلام سے مفہوم ہوتے ہیں ۔ احرس صاحب حراست ہونا ( اس میں صاحب مآ خذ ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں جیسا کہ باب افعال کا خاصہ ہے ۔ حریسۃ الحبل وہ مال جو رات کے وقت پہاڑ میں حفاظت گے لئے رکھا جاتا ہے ۔ ابو عبیدہ کا قول ہے کہ الحریسۃ بمعنی محروسۃ ہے نیز الحریسۃ بمعنی مسروقۃ بھی آجاتا ہے یعنی چوری کیا ہوا مال اور اس معنی میں باب حرس ( ض) یحرس حرسا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ الحریسۃ سے بنا ہے کیونکہ اہل عرب سے الحریسۃ کے بمعنی سرقہ یعنی چوری بھی منقول ہے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - شهب - الشِّهَابُ : الشّعلة السّاطعة من النار الموقدة، ومن العارض في الجوّ ، نحو : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] ، شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] ، شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] .- والشُّهْبَةُ : البیاض المختلط بالسّواد تشبيها بالشّهاب المختلط بالدّخان، ومنه قيل : كتيبة شَهْبَاءُ : اعتبارا بسواد القوم وبیاض الحدید .- ( ش ھ ب ) الشھاب - کے معنی بکند شعلہ کے ہیں خوارہ وہ جلتی ہوئی آگ کا ہو یا فضا میں کسی عارضہ کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] تو جلتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لگتا ہے ۔ شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] روشنی کرنیوالا انگارہ ۔ شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] انگارہ تیار ۔ الشھبتہ سفیدی جس میں کچھ سیاہی ملی ہوئی ہو ۔ جیسا کہ انگارہ کی روشنی کے ساتھ دھواں ملا ہوتا ہے اسی سے کتیبتہ شھباء کاز محاورہ ہے جس کے معنی مسلح لشکر کے ہیں کیونکہ اس میں ہتھیاروں کی چمک سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر اللہ تعالیٰ جنات کی باہمی گفتگو کو روایت کرتا ہے کہ ہم ایمان لانے سے پہلے خبروں کی تلاش میں آسمان کی طرف پہنچے تو ہم نے اس کو سخت محافظ فرشتوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا تاکہ کوئی آسمان کی خبریں نہ چرا سکے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ ” اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو “- ہم نے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں آسمان کی پہنائیوں میں حسب معمول بھاگ دوڑ کی۔- فَوَجَدْنٰـہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًا ۔ ” تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہروں اور انگاروں سے بھرا ہوا ہے۔ “- ہم نے دیکھا کہ آسمان میں اب جگہ جگہ پہرے مقرر کردیے گئے ہیں اور شہاب ثاقب کی قسم کے میزائل نصب کر کے حفاظتی انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے ‘ آگ اور نور کی کچھ خصوصیات مشترک ہونے کے باعث جنات اور فرشتوں کے مابین تخلیقی اعتبار سے کچھ نہ کچھ قربت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے جب عالم بالا سے احکام لے کر زمین کی طرف آتے ہیں تو شیاطین ِجن ان سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور احکام سے متعلق پیشگی خبریں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی خبریں وہ اپنے ان انسان ساتھیوں تک پہنچانے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں کاہنوں اور جادوگروں کے روپ میں شرک و ضلالت کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ عام حالات میں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے شاید ان جنات کو ایسی خبروں تک کسی نہ کسی حد تک رسائی ہوجاتی ہو مگر نزول وحی کے زمانے میں انہیں حساس حدود کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ آیات زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے جنات کی چہ میگوئیوں کا ذکر ہورہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: یہ وہی بات ہے جس کا ذِکر حاشیہ نمبر 1 میں اوپر گذرا ہے کہ جِنّات کو آسمان کے قریب پہنچنے سے بھی روک دیا گیا ہے، اور اس غرض سے فرشتوں کو پہرے پر مقرّر کردیا گیا ہے جو چوری چھپے فرشتوں کی باتیں سننے والے کو شعلے پھینک کر مار بھگاتے ہیں۔