9۔ 1 اور آسمانی باتوں کی کچھ گن سن پا کر کاہنوں کو بتلا دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیا کرتے تھے۔ 9۔ 2 لیکن بعثت محمدیہ کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا، اب جو بھی اس نیت سے اوپر جاتا ہے، شعلہ اس کی تاک میں ہوتا ہے اور ٹوٹ کر اس پر گرتا ہے۔
[٧] ایام جاہلیت میں کہانت کا کاروبار :۔ دور نبوی میں کہانت کا کاروبار خاصا چلتا تھا۔ اس کاروبار کی بنیاد یہ تھی کہ ان کاہنوں کا تعلق شیطانوں سے ہوتا تھا۔ چناچہ ایک دفعہ صحابہ کرام (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کاہنوں کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا : ان کی باتیں محض لغو ہیں۔ صحابہ نے کہا : کبھی تو ان کی بات سچ بھی نکل آتی ہے۔ فرمایا : یہ وہ بات ہوتی ہے جو کاہن کو شیطان کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور شیطان یہ خبر ملاء اعلیٰ سے اڑا لیتا ہے، پھر کاہن اس خبر میں سو جھوٹ ملالیتا ہے۔ (بخاری۔ باب الکہانۃ) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آسمان کے پہرے سخت کردیئے گئے۔ تاکہ کوئی شیطان آسمان کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے اور اس نظام کو سخت تر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وحی جو نبی آخر الزماں پر نازل ہونے والی اور ہو رہی ہے۔ اس کا کچھ بھی حصہ شیطان نہ سن پائے۔ اور اس سے ایک دوسرا مقصد از خود حاصل ہوگیا یعنی کاہنوں کو شیطانوں کے ذریعہ جو خبریں ملتی تھیں وہ بھی بند ہوگئیں۔ اسی کیفیت کو جن اپنی زبان میں بیان کر رہے ہیں۔
وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ٠ ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ٩ ۙ- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معنی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- اسْتِمَاعُ- والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي :- من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب - استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رصد - الرَّصَدُ : الاستعداد للتّرقّب، يقال : رَصَدَ له، وتَرَصَّدَ ، وأَرْصَدْتُهُ له . قال عزّ وجلّ : وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] ، وقوله عز وجل : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ- [ الفجر 14] ، تنبيها أنه لا ملجأ ولا مهرب . والرَّصَدُ يقال لِلرَّاصِدِ الواحد، وللجماعة الرَّاصِدِينَ ، ولِلْمَرْصُودِ ، واحدا کان أو جمعا .- وقوله تعالی: يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] ، يحتمل کلّ ذلك . والمَرْصَدُ : موضع الرّصد، قال تعالی: وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] ، والْمِرْصَادُ نحوه، لکن يقال للمکان الذي اختصّ بِالتَّرَصُّدِ ، قال تعالی: إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] ، تنبيها أنّ عليها مجاز الناس، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] .- ( ر ص د ) الرصد : گھات لگا کر بیٹھنا ۔ اور رصد لہ وترصد کے معنی ہیں کسی کے لئے گھات لگانا اور ارصدتہ کس کو گھات لگانے کے لئے مقرر کرنا اور ارصد لہ کے معنی پناہ دینا بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 107] اور ان لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ اور رسول کے ساتھ پہلے لڑ چکے ہیں ۔ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تیرا پروردگار ( نافرمانوں کی ) تاک میں ( لگا رہتا ہے ) رصد ( صیغہ صفت ) یہ معنی فاعلی اور مفعولی دونوں کے لئے آتا ہے اور واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن 27] تو ان کے آگے اور انکے پیچھے ( فرشتوں سے ) پہرہ دینے والے ان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ تو یہاں رصدا سے واحد اور جمع دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة 5] اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو ۔ اور مرصاد بمعنی مرصد آتا ہے لیکن مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جو گھات کے لئے مخصوص ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ 21] بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ تو آیت میں اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ جہنم کے اوپر سے لوگوں کا گزر ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم 71] اور تم میں سے کوئی ( ایسا بشر ) نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے ۔
اور رسول اکرم کی بعثت سے پہلے ہم آسمان کی خبریں سننے کے لیے جا بیٹھا کرتے تھے تو حضور کی بعثت کے بعد اب اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو اپنے لیے تیار شعلہ اور محافظ فرشتوں کو پاتا ہے۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :9 یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر یہ جن اس تلاش میں نکلے تھے کہ آخر زمین پر ایسا کیا معاملہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبروں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر سخت انتظامات کیے گئے ہیں کہ اب ہم عالم بالا میں سن گن لینے کا کوئی موقع نہیں پاتے اور جدھر بھی جاتے ہیں مار بھگائے جاتے ہیں ۔