Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 اس میں اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی وہی ہوسکتا ہے۔ جو فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی وجہ سے ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِيْلًا۝ ١٦- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- وبل - الوَبْلُ والْوَابِلُ : المطر الثّقيل القطار . قال تعالی: فَأَصابَهُ وابِلٌ [ البقرة 264] ، كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصابَها وابِلٌ [ البقرة 265] ولمراعاة الثّقل قيل للأمر الذي يخاف ضرره : وَبَالٌ. قال تعالی: فَذاقُوا وَبالَ أَمْرِهِمْ [ التغابن 5] ، ويقال طعام وَبِيلٌ ، وكلأ وَبِيلٌ: يخاف وباله . قال تعالی: فَأَخَذْناهُ أَخْذاً وَبِيلًا[ المزمل 16] .- ( و ب ل ) الوابل والوابل کے منی بڑی اور بھاری بوندوں والی بارش کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَصابَهُ وابِلٌ [ البقرة 264] مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو ( جب ) اس پر بارش ہو ۔ پھر معنی ثقل کے لحاظ سے ہر اس چیز کو وبال کہا جاتا ہے ۔ جس سے ضرر پہنچے کا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذاقُوا وَبالَ أَمْرِهِمْ [ التغابن 5] اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔ وبیل ۔ وہ طعام یا گھاس جس کے کھانے سے بد ہضمی اور ضرر کا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَأَخَذْناهُ أَخْذاً وَبِيلًا[ المزمل 16] تو ہم نے اس کو بڑے وبال میں پکڑلیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر فرعون نے حضرت موسیٰ کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو غرق کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ ” پس فرعون نے نافرمانی کی ہمارے رسول (علیہ السلام) کی “- فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا ۔ ” تو ہم نے پکڑ لیا اس کو بڑے وبال والی پکڑ۔ “- اب تم خود ہی سوچو کہ اللہ کے رسول (علیہ السلام) کو جھٹلا کر اگر فرعون جیسا مطلق العنان بادشاہ نہیں بچ پایا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں اگر عاد وثمود جیسی طاقتور قوموں کو نیست و نابود کردیا گیا تھا تو تم لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا کر کیسے بچے رہو گے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani