جہنم کی ایک وادی ، صعود اور ولید بن مغیرہ جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے ، پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ تن تنہا خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنا دیا ، ہزاروں لاکھوں دینار زر زمین وغیرہ عنایت فرمائی اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اور اقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر چاکر لونڈی غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کے ساتھ گزارتا ، غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی ، پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے ، حالانکہ ایسا اب نہ ہو گا ، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے اسے صعود پر چڑھایا جائے گا ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گا اور صعود جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب کہتے ہیں ، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ صعود جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہو جائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہو جائے گا اسی طرح پاؤں بھی ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹتا جائے گا ، سدی کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے ، مجاہد کہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے ، قتادہ فرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو ، امام جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لئے قریب کر دیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کر دیا جائے یہ برباد کر دیا جائے کتنا بد کلام ، بری سوچ ، کتنی بےحیائی سے جھوٹ بات گھڑ لی ، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر ، منہ بگاڑ کر ، حق سے ہٹ کر بھلائی سے منہ موڑ کر اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر ، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کر لیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ، اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا ، قریش کا سردار تھا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ یہ ولید پلید حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں حضرت صدیق اکبر نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا لوگو تعجب کی بات ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے نہ جادو کا منتر ہے نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں ، قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لیا اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہو گیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا ، ابو جہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لئے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کر لیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں ، اس نے کہا واہ کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں ابو جہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابو بکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان سے کچھ حاصل وصول ہو ، ولید کہنے لگا اوہو میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اچھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابو بکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی آیت ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11ۙ ) 74- المدثر:11 ) حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے ، اس میں چمک ہے ، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقینًا جادو ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ولید حضور علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑ گیا تھا اور پورا اثر ہو چکا تھا جب ابو جہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہو جائے اس بھڑکانے کے لئے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لئے مال جمع کرنا چاہتی ہے پوچھا کیوں؟ کہا اس لئے کہ آپ کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلوم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں؟ ابو جہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مال حاصل کرنے کی غرض سے آپ اسی کے ہوگئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں ، اس نے کہا بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے ، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں ۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی شاعر ہوں کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش بلندی اور جذب ہے اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں؟ ابو جہل نے کہا سنو جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کے خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے ، اس نے کہا اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہدوں گا چنانچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہدیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے اس پر آیت ( ذرنی سے تسعتہ یحشر ) تک کی آیتیں اتریں ۔ سدی کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہیں؟ کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بہ یک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہو جائے تو اب کسی نے شاعر کہا کسی نے جادوگر کہا کسی نے کاہن اور نجومی کہا کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا 48 ) 17- الإسراء:48 ) یعنی ذرا دیکھ تو سہی تیری کیسی کیسی مثالیں گھڑتے ہیں لیکن بہک بہک کر رہ جاتے ہیں اور کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔ اب اس کی سزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں انہیں جہنم کی آگ میں غرق کر دونگا جو زبردست خوفناک عذاب کی آگ ہے جو گوشت پوست کو رگ پٹھوں کو کھا جاتی ہے پھر یہ سب تازہ پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر زندہ کئے جاتے ہیں نہ موت آئے نہ راحت والی زندگی لے ، کھال ادھیڑ دینے والی وہ آگ ہے ایک ہی لپک میں جسم کو رات سے زیادہ سیاہ کر دیتی وہ جسم و جلد کو بھون بھلس دیتی ہے ، انیس انیس داروغے اس پر مقرر ہیں جو نہ تھکیں نہ رحم کریں ، حضرت برار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ چند یہودیوں نے صحابہ سے یہ واقعہ بیان کیا اسی وقت آیت ( عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ 30ۭ ) 74- المدثر:30 ) نازل ہوئی آپ نے صحابہ کو سنا دی اور کہا ذرا انہیں میرے پاس تو لاؤ میں بھی ان سے پوچھوں کہ جنت کی مٹی کیا ہے؟ سنو وہ سفید میدہ کی طرح ہے ، پھر یہودی آپ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو دفعہ جھکائیں دوسری دفعہ میں انگوٹھا روک لیا یعنی انیس ۔ پھر فرمایا تم بتلاؤ کے جنت کی مٹی کیا ہے؟ انہوں نے ابن سلام سے کہا آپ ہی کہئے ابن سلام نے کہا گویا وہ سفید روٹی ہے آپ نے فرمایا یاد رکھو یہ سفید روٹی وہ جو خالص میدے کی ہو ( ابن ابی حاتم ) مسند بزار میں ہے کہ جس شخص نے حضور کو صحابہ کے لاجواب ہونے کی خبر دی تھی اس نے آ کر کہا تھا کہا آج تو آپ کے اصحاب ہار گئے پوچھا کیسے؟ اس نے کہا ان سے جواب نہ بن پڑا اور کہنا پڑا کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا بھلا وہ ہارے ہوئے کیسے کہے جا سکتے ہیں؟ جن سے جو بات پوچھی جاتی ہے اگر وہ نہیں جاتے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ کر جواب دیں گے ۔ ان یہودیوں کو دشمنان الٰہی کو ذرا میرے پاس تو لاؤ ہاں انہوں نے اپنے نبی سے اللہ کو دیکھنے کا سوال کیا تھا اور ان پر عذاب بھیجا گیا تھا ۔ اب یہود بلوائے گئے جواب دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پر یہ بڑے چکرائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔
11۔ 1 یہ کلمہ وعید و تہدید ہے کہ اسے، جسے میں نے ماں کے پیٹ میں اکیلا پیدا کیا، اس کے پاس مال تھا نہ اولاد، اور مجھے اکیلا چھوڑ دو ، یعنی میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا، کہتے ہیں کہ یہ ولید بن مغیرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کفر و طغیان میں بہت بڑھا ہوا تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ عالم۔
[٨] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب وہ پیدا ہوا تو بالکل خالی ہاتھ پیدا ہوا تھا۔ اس کے پاس کوئی مال و دولت، عزوجاہ یا لاؤ لشکر کچھ بھی نہ تھا۔ یہ تو اسے بعد میں اس دنیا میں ملا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس شخص کی مخالفت کی آپ مطلق پروا نہ کیجیے اور اس کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجیے۔
(١) ذرنی ومن خلقت وحیداً : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو جھٹلانے میں سب سے پیش پیش مکہ کے بڑے بڑے سردار تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی خوش حالی اور دنیوی نعمتیں عطا فرمائی ہوئی تھیں، مگر انہوں نے مال و اولاد ، جاہ و حشمت و اقتدار پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بجائے اس جادو اور انسانی کلام قرار دیا۔ ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیں، میں جانوں اور یہ جانیں، ان کا بندوبست میں خود کروں گا۔ - ان آیات سے اکثر مفسرین نے اگرچہ ایک خاص شخص ولید بن مغیرہ مراد لی ا ہے، مگر ” من خلقت وحیداً “ میں ” من “ کا لفظ واحد ہونے کے باوجود معنی کے لحاظ سے عام ہے اور آیت میں مذکور مال و دلوت اور اولاد و اقتدار صرف ولید ہی کے پاس نہ تھا اور نہ ہی وہ اکیلا قرآن کو جادو اور انسانی کلام قرار دیتا تھا، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے اکثر متکبرین کا یہی حال تھا، اس لئے ان آیات میں ان سب کو تنبیہ کی گئی ہے ہاں، یہ درست ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ پر بھی صادق آتی ہیں اور وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہے جو ان آیات سے مراد ہیں اور ان آیات کے اس کے متعلق نازل ہونے کا مطلب بھی یہی ہے، مگر وہ اکیلا ان آیات کا مصداق نہیں بلکہا ن سے ولید بن مغیرہ کے علاوہ ان صفات والے تمام متکبر مراد ہیں، خواہ وہ مکہ کے رہنے والے ہوں یا دنیا کے کسی دوسرے خطہ میں رہنے والے ہوں۔- (٢)” خلقت وحیداً “ کے دو معانی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ میں نے اسے اس حال میں پیدا کیا کہ وہ اکیلا تھا، نہ اس کی خدمت میں حاضر رہنے والے بیٹے تھے اور نہ کوئی مال و متاع۔ ہر انسان ماں کے پیٹ سے اکیلا آتا ہے، مال و اولاد، فوج و لشکر اور سامان وغیرہ کچھ ساتھ نہیں لاتا، جیسا کہ فرمایا :(ولقد جئتمونا فراوی کما خلقنکم اول مرۃ) (الانعام : ٩٣) ” اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آگئے، جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ “ دوسرا یہ کہ میں نے اکیلے ہی اسے پیدا کیا اور اسے یہ سب کچھ عطا کیا، اسے پیدا کرنے میں یا یہ مال و اولاد عطا کرنے میں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہ تھا۔
ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا ١١ ۙ- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
(١١۔ ١٣) سو محمد مجھ کو اور اس شخص کو یعنی ولید بن مغیرہ مخزومی کو جس کو میں نے مال و اولاد اور بیوی سے اکیال پیدا کیا رہنے دو ۔ اور پھر اس کے بعد اس کو کثرت سے مال دیتا رہا یہاں تک کہ اس کا مال نو ہزار مثقال چاندی ہوگیا اور پاس رہنے والے دس بیٹے دیے اور سب طرح کا سامان و مال اس کے لیے مہیا کردیا۔- شان نزول : ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا (الخ)- حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ولید بن مغیرہ حضور کی خدمت میں آیا اور آپ نے اس کے سامنے قرآن کریم پڑھا گویا کہ اس پر قرآن کریم کا اثر ہوا، ابو جہل کو اس چیز کی اطلاع ہوئی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا اے چچا تیری قوم چاہتی ہے کہ تیرے لیے مال جمع کردے، کیونکہ تو محمد کے پاس جو ہے اس کو لینے کے لیے جاتا ہے، ولید کہنے لگا قریش کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، ابو جہل نے کہا تو اس کے بارے میں کوئی بات کہہ دو جس سے تمہاری قوم کو معلوم ہوجائے کہ تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے اور اسے برا سمجھتے ہو۔- ولید کہنے لگا میں کیا کہوں اللہ کی قسم تم میں کوئی مجھ سے زیادہ شعر جاننے والا نہیں اور نہ مجھ سے زیادہ اس کے رجز اور قصیدے اور اشعار جن سے واقف ہے اور اللہ کی قسم جو یہ کہتے ہیں اس کے کوئی چیز مشابہ نہیں، اللہ کی قسم ان کی باتوں میں مٹھاس ہے اور اس پر رونق ہے اور یہ اپنے اوپر کو روشن کرنے والے ہیں اور مشرق ان کے نیچے ہے اور یہ غالب آئیں گے مغلوب نہیں ہوں گے اور ان کے نیچے جو چیز ہے اس کو ریزہ ریزہ کردیں گے، ابو جہل یہ سن کر کہنے لگا کہ تیری قوم تجھ سے اس وقت تک راضی نہ ہوگی جب تک تو حضور کے بارے میں کچھ کہے۔- تو ولید کہنے لگا مجھے سوچنے کا موقع دو ۔ چناچہ اس نے سوچا تو کہنے لگا یہ دوسروں سے منقول شدہ جادو ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، اس روایت کی سند بخاری کے مطابق صحیح ہے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ایک دوسرے طرق سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
آیت ١ ١ ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا ۔ ” آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ۔ “- ذَرْنِیْکا یہ انداز ہم قبل ازیں سورة ن اور سورة المزمل میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ خَلَقْتُ وَحِیْدًا کا مفہوم یہ ہے کہ جب میں نے اسے پیدا کیا تھا اس وقت یہ تنہا تھا ‘ کوئی مال ‘ اولاد یا جائیداد وغیرہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان آیات کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اس شخص کی مکہ اور طائف دونوں شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ اللہ نے اسے بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :10 یہ خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ، کفار کی اس کانفرنس میں جس شخص ( ولید بن مغیرہ ) نے تمہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام عرب سے آنے والے حاجیوں میں تمہیں جادوگر مشہور کیا جائے ۔ اس کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو ۔ اس سے نمٹنا اب میرا کام ہے ، تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :11 اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ جب میں نے اسے پیدا کیا تھا اس وقت یہ کوئی مال اور اولاد و جاہت اور ریاست لے کر پیدا نہیں ہوا تھا ۔ دوسرا یہ کہ اس کا پیدا کرنے والا اکیلا میں ہی تھا ، وہ دوسرے معبود ، جن کی خدائی قائم رکھنے کے لیے تمہاری دعوت توحید کی مخالفت میں اس قدر سرگرم ہے ، اس کو پیدا کرنے میں میرے ساتھ شریک نہ تھے ۔
5: متعدد تفسیری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے جو مکہ مکرَّمہ کا بڑا دولت مند سردار تھا۔ اُس کی دولت مکہ مکرَّمہ سے طائف تک پھیلی پڑی تھی۔ وہ کبھی کبھی حضرت ابوبکرؓ کے پاس جایا کرتا تھا، اور ایک مرتبہ وہ قرآنِ کریم سن کر یہ اعتراف کرچکا تھا کہ یہ ایک بے نظیر کلام ہے جو کسی اِنسان کا نہیں ہوسکتا۔ اس سے ابوجہل کو یہ خوف ہوا کہ وہ کہیں مسلمان نہ ہوجائے۔ چنانچہ اُس نے ولید بن مغیرہ کے پاس جا کر اسے غیرت دلائی، اور کہا کہ لوگ تمہارے بارے میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ تم مسلمانوں کے پاس دولت حاصل کرنے جاتے ہو۔ ولید کو اس پر غیرت آگئی، اور اُس نے کہا کہ آئندہ میں کبھی ابوبکرؓ وغیرہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔ ابو جہل نے کہا کہ جب تک تم قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہوگے، لوگ مطمئن نہیں ہوں گے۔ ولید نے کہا میں اُسے نہ شعر کہہ سکتا ہوں، نہ کاہنوں کا کلام کہہ سکتا ہوں۔ نہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مجنون کہہ سکتا ہوں، کیونکہ یہ باتیں چلنے والی نہیں ہیں۔ پھر کچھ سوچنے کے بعد کہا کہ : ’’البتہ اسے سحر (جادو) کہا جاسکتا ہے، کیونکہ جس طرح جادو کے ذریعے جادوگر میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں، اسی طرح اس کلام کو سن کر جو مسلمان ہوجاتا ہے، وہ اپنے کافر ماں باپ وغیرہ سے الگ ہوجاتا ہے‘‘، اور بعض روایات میں ہے کہ ولید نے یہ بات اُس موقع پر کہی تھی جب قریش کے لوگوں نے حج سے کچھ پہلے یہ مشورہ کیا کہ حج میں سارے عرب سے لوگ آئیں گے، اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں سوالات کریں گے، ہمیں یہ طے کرلینا چاہئے کہ ان سے کیا کہیں۔ ولید نے کہا کہ انہیں نہ مجنون کہا جا سکتا ہے، نہ شاعر نہ کاہن، نہ جھوٹا۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر کیا کہیں، تو اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا کہ اگر انہیں جادوگر کہا جائے تو بات کچھ چل جائے گی۔ (ابن کثیر)