Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وجعلت لہ مالا …:” ممدوداً “” مدیمد “ (ن) سے اسم مفعول ہے، پھیلایا ہوا۔ یعنی مال مویشی، کھیت، باغات، ک اور بار اور تجارت وغیرہ ہر قسم کا لمبا چوڑا مال عطا کیا۔” شھوداً “ ” شاھد “ کی جمع ہے، ہر وقت خدمت میں حاضر بیٹے عطا کئے۔ بیٹے اللہ کی نعمت ہیں اور پاس رہ کر سارا کام سنبھال لیں اور خدمت کے لئے مستعد رہیں تو مزید نعمت ہیں۔ ” مھدث “ (تفعیل) بچھانا ، مہیا کرنا۔ یعنی مال و اولاد کے ساتھ جاہ و حشمت اور سرداری کے تمام اسباب اس کے لئے ہموار کردیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ولید بن مغیرہ کی آمدنی ایک کروڑ گنیاں سالانہ - یہ کافر ولید بن مغیرہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مال و دولت اور اولاد فراوانی کے ساتھ دی تھی، بقول ابن عباس اس کی زمین جائیداد و باغات مکہ سے طائف تک پھیلے ہوئے تھے اور بقول ثوری اس کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ دینار تھی، بعض نے اس سے کم بھی بتلایا ہے۔ اتنا سب کے نزیک مسلم ہے کہ اسکے کھیت اور باغات کی آمدنی اور پیداوار سال بھر سردی گرمی کی ہر موسم میں مسلسل رہت یتھی قرآن کریم میں اسی کو فرمایا ہے وّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا اور یہ عرب کا سردار مانا جاتا تھا۔ لوگوں میں اس کا لقب ریحانہ قریش مشہور تھا یہ خود اپنے آپ کو بطور فخر و بکر کے وحید ابن الوحید، یعنی یکتا کا بیٹا کہا کرتا تھا کہ نہ قوم میں میری کوئی نظیر ہے نہ میرے باپ مغیرہ کی (قرطبی) مگر اس ظالم نے اللہ تعالیٰ کے نعمتوں کی ناشکری کی اور قرآن کو کلام الٰہی یقین کرلینے کے باوجود اس نے جھوٹی بات بنائی اور قرآن کو سحر اور حضور صلی اللہ علیہ کو ساحر کہا۔ اس کا واقعہ تفسیر قرطبی میں یہ بیان کیا ہے کہ جب قرآن کی (آیت)- حم تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم - سے الیہ المصیر تک نازل ہوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کر رہے تھے ولید بن مغیرہ نے یہ قرآت سنی تو بےساختہ اسکے کلام الٰہی ماننے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ - واللہ لقد سمعت منہ کلاما ماھو من کلام الانس ولا من کلام الجن وان لہ لحلاوة و ان علیہ لطلاوة وان اعلالمثمر وان اسفلہ لمغدق وانہ، لیعلو ولا یعلیٰ علیہ وما یقول ھذا بشر - واللہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ کسی انسان کا کلام ہوسکتا ہے نہ کسی جن کا اور اسمیں بڑی حلاوت ہے اور اس پر خاص رونق ہے اس کا اعلیٰ پھل دینے والا اور اسفل پانی جاری کرنیوالا ہے وہ بلا شبہ سب سے بالا وبلند ہو کر رہے گا اس پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا یہ بشر کا کلام نہیں ہے۔- عرب کے سب سے بڑے مالدار سردار کا ایسا کہنا تھا کہ پورے قریش میں اس نے ایک زلزلہ ڈال دیا اور وہ سب اسلام و ایمان کی طرف جھکنے لگے، قریش کے کافر سرداروں کو فکر ہوئی اور جمع ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ ابو جہل نے کہا کہ فکر نہ کرو میں ابھی جاتا ہوں اس کو ٹھیک کرونگا۔ - ابوجہل اور ولید بن مغیرہ کا مکالمہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت پر دونوں کا اتفاق - ابوجہل ولد بن مغیرہ کے پاس غمگین صورت بنا کر پہنچا (اور قصداً ایسی بات بنائی جس پر ولید کو غصہ آجاوے) ولید نے اس سے پوچھا کہ کیا بات تم غمگین نظر آتے ہو۔ ابوجہل نے کہا کہ غمگین کیسے نہ ہوں یہ سارے باہم چندہ کرکے تجھے مال دیتے ہیں کہ تو اب بوڑھا ہوگیا ہے تیری مدد کرنا چاہیئے مگر اب ان کو معلوم ہوا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کے پاس اسلئے جاتے ہو کہ تمہیں کچھ کھانے پینے کو ملجاوے اور ان کو خوشامد میں ان کے کلام کی تحسین و تعریف کرتے ہو (ظاہر یہ ہے کہ قریش کا چندہ کرکے ولید کو مال دینا بھی جھوٹ تھا جو صرف اس کو غصہ دلانے کے لئے بولا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کھانے کی چیزیں لینا تو جھوٹ تھا ہی) اس پر ولید بن مغیرہ کے غصہ کی انتہا نہ رہی اور اسکے نتیجہ میں اس پر اپنے تکبر و تعلیٰ کا حیوان سوار ہوگیا کہنے لگا کہ محمد اور انکے ساتھیوں کے ٹکڑوں کا محتاج ہوں، کیا تم کو میرے مال و دولت کی کثرت معلوم نہیں۔ قسم ہے لات اور عزی کی (دو بتوں کے نام ہیں) میں اس کا ہرگز محتاج نہیں۔ البتہ تم لوگ جو یہ کہتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون ہیں یہ بات ایسی غلط ہے اس کا کوئی یقین نہیں کرسکتا کیا تم میں سے کسی نے ان کو کوئی مجنونانہ کام کرتے دیکھا ہے ابوجہل نے اقرار کیا کہ لا واللہ یعنی واللہ ہم نے کوئی ایسا کام ان کا نہیں دیکھا، پھر ولید نے کہا تم لوگ انکو شاعر کہتے ہو کیا تم نے ان کو کبھی شعر کہتے ہوئے سنا ہے (ایسی غلط بات کہنا اپنے آپ کو رسوا کرنا ہے) ابو جہل نے اس پر بھی یہی کہا لا واللہ۔ پھر ولید نے کہا کہ تم لوگ ان کو کذاب کہتے ہو تو بتلاؤ کہ تم نے عمر بھر میں کبھی ان کی کسی بات کو جھوٹا پایا ہے۔ اس پر بھی ابو جہل کو یہی اقرار کرنا پڑا لا واللہ، پھر ولید نے کہا کہ تم لوگ ان کو کاہن کہتے ہو تو کیا تم کبھی ان کے ایسے حالات اور کلمات دیکھے سنے ہیں جو کاہنوں کے ہوا کرتے تھے۔ ہم کاہنوں کی باتوں کو اچھی طرح پہنچاتے ہیں، ان کا کلام کہانت نہیں ہوسکتا، اس پر بھی ابوجہل کو یہی اقرار کرنا پڑا لا واللہ اور پورے قریش میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق امین کے لقب سے معروف تھے اب ابوجہل اپنے ان سب بہتانوں سے تو دستبردار ہوگیا، فکر یہ پڑی کہ آخر پھر کیا کہ کر لوگوں کو اسلام سے روکا جائے اس لئے خود ولید ہی کو خطاب کرکے کہا کہ پھر تم ہی بتلاؤ کہ ان کو کیا کہا جائے، اس پر اسنے پہلے تو اپنے دل میں سوچا پھر ابو جہل کی طرف نظر اٹھائی پھر منہ بسوار جس سے نفرت کا اظہار ہو اور آخر میں کہنے لگا کہ ان کو یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون، شاعر، کاہن، کذاب تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہاں ان کو ساحر کہو تو بات چل جائے گی۔ یہ کمبخت خوب جانتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر بھی نہیں اور نہ آپ کے کلام کو ساحروں کا کلام کہا جاسکتا ہے مگر اس نے بات بنانے کی یہ صورت تجویز کی آپ کے کلام کے آثار بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے ساحروں کے کیونکہ جیسے جادوگر اپنے عمل سے میاں بیوی، بھائی بھائی میں تفرقہ اور نفرت ڈال دیتے تھے (معاذ اللہ) آپ کے کلام کا بھی یہی اثر ہے کہ جو ایمان لے آتا ہے اپنے کافر ماں باپ اور عزیزوں سے متنفر ہوجاتا ہے۔ اس کے اس واقعہ کے آخری اجاز ہی کو قرآن نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے - اِنَّهٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَ 18؀ۙفَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 19؀ۙثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 20؀ۙثُمَّ نَــظَرَ 21؀ۙثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ 22؀ۙثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ 23؀ۙفَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ 24؀ۙاِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ 25؀ۭ اس میں قدر (تقدیر سے مشتق ہے جس کے لفظی معنی تجویز کرنے کے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اس کمبخت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبوت و رسالت پر یقین کامل ہوجانے کے باوجود غصہ اور غیرت سے مغلوب ہو کر مخالفت کرنا تو طے کرلیا مگر صاف جھوٹ بولنے سے پرہیز کرنا چاہتا تھا کہ اپنی رسوائی نہ ہو اس لئے بہت غورفکر کرکے یہ تجویز نکالی کہ ان کو ساحر اس بنا پر کہو کہ آپ کے کلام اور تلقین سے باپ بیٹے بھائی بھائی میں تفریق ہوجاتی ہے جیسے جادو سے ہوتی ہے اسی تقدیر و تجویز پر حق تعالیٰ نے اس پر مکرر لعنت قرآن میں فرمائی - فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 19؀ۙثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّر - جھوٹ سے کفار بھی پرہیز کرتے تھے - غور کیجئے کہ یہ قریشی سردار اور سبھی کفار فجار اور طرح طرح کے معاصی و فواحش میں گرفتار تھے مگر جھوٹ ایک ایسا عیب ہے کہ یہ کفار بھی اس سے بھاگتے تھے۔ ابوسفیان کا واقعہ قبل از اسلام جو دربار قیصر روم میں پیش آیا، اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اپنی جان اور اولاد تک کو قربان کرنے کے لئے تیار تھے مگر ایسا جھوٹ بولنے کے لئے نہیں تھے جس سے ان کو دنیا میں جھوٹا کہا جائے۔ افسوس ہے کہ اس معکوس ترقی کے زمانے میں یہ عیب عیب ہی نہیں رہا بلکہ سب سے بڑا ہنر ہوگیا اور کفار و فجار ہی نہیں نیک دیندار مسلمانوں کے دلوں سے بھی اس کی نفرت نکل گئی بےتکان جھوٹ بولنے اور بولوانے کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں (نعوذ باللہ منہ) - اولاد کا اپنے پاس موجود ہونا ایک مستقل نعمت ہے - ولید بن مغیرہ پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں انعامات مبذول فرمائے تھے ان میں ایک یہ بھی فرمایا ہے کہ بنین شھودا یعنی اولاد حاضر موجود۔ اس سے معلوم ہوا کہ جیسا اولاد کا پیدا ہونا اور اس کا باقی رہنا اللہ تعالیٰ کی انعامات ہیں اسی طرح اولاد کا اپنے پاس حاضر و موجود ہونا بھی ایک بڑا انعام ہے جو والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب کے سکون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ان کی حاضری سے اپنی خدمت اور کاروبار میں امداد کا فائدہ مزید براں ہے۔ اس معکوس ترقی نے جو یہ زمانہ کر رہا ہے صرف سونے چاندی کے سکوں بلکہ ان سکوں کے اقرار ناموں (نوٹوں) کا نام عیش و آرام رکھ لیا ہے جس کے لئے والدین بڑے فخر سے اولاد کو دوسرے ملکوں میں پھینک دیتے ہیں اور اس پر خوش ہوتے ہیں کہ اگرچہ سالہا سال بلکہ عمر بھر اولاد کی صورت بھی نہ دیکھیں مگر ان کی بڑی تنخواہ اور آمدنی کی خبر ان کے کانوں تک پہنچتی رہے اور یہ اس خبر کے ذریعہ اپنی برادری میں اپنی برتری ثابت کرتے رہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آرام و راحت کے مفہوم سے بھی بیخبر ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ کو بھلانے کا یہی نتیجہ ہونا چاہیئے کہ وہ خود اپنے آپ کو یعنی اپنے اصل آرام و راحت کو بھی بھول جائے جیسا کہ قرآن نے فرمایا - (آیت) نسوا اللہ فانساھم انفسہم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا۝ ١٢ ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًامَّمْدُوْدًا ۔ ” اور اسے میں نے بہت سا مال دیا پھیلا ہوا۔ “- ان الفاظ میں اشارہ ہے اس شخص کی ان جائیدادوں کی طرف جو زمینوں ‘ باغوں ‘ گھروں وغیرہ کی صورت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں میں پھیلی ہوئی تھیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani