15۔ 1 یعنی کفر و معصیت کے باوجود، اس کی خواہش ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔
[١٠] اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت بھی کافی عطا کیا تھا، جوان بیٹے بھی اور ریاست بھی دی تھی۔ لیکن کبھی حرف شکر زبان سے نہ نکلا ہمیشہ اور زیادہ مال جمع کرنے کی حرص میں منہمک رہتا اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے جنت کی نعمتوں کا ذکر فرماتے تو کہتا تھا کہ اگر یہ شخص اپنے بیان میں سچا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہاں کی نعمتیں بھی مجھے ضرور ملیں گی۔
(ثم یطمع ان ارید : پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور دوں گا یعنی اتنا کچھ ملنے کے باوجود دنیا میں اس کی حرص ختم نہیں ہوئی بلکہ آخرت میں اسے مزید ملنے کی توقع ہے۔ کفار کا کہنا تھا کہ اگر واقعی قیامت قائم ہوئی تو مال و اولاد وہاں بھی ہمیں کو ملیں گے۔ وہ دنیا میں ملنے والے مال و اولاد اور جاہ و حشمت کو آزمائش کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ان پر رضای ہونے کی دلیل قرار یدتے تھے۔ دیکھیے سورة مریم (٧٧ تا ٨٠) ۔
ثُمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ ١٥ - طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :13 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس پر بھی اس کی حرص ختم نہیں ہوئی ۔ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی وہ بس اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ اسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں ۔ دوسرا مطلب حضرت حسن بصری اور بعض دوسرے بزرگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر واقعی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا یہ بیان سچا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی جنت بھی ہو گی تو وہ جنت میرے ہی لیے بنائی گئی ہے ۔