Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی میں اسے زیادہ نہیں دونگا۔ عنید اس شخص کو کہتے ہیں جو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرے اور اس کو رد کرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کلا انہ کان لایتنا عنیداً :” عیداً “ (ن، ض) حق کو پہچانتے ہوئے ضد کی وجہ سے مخالفت کرنے والا۔ ” کان “ سے ہمیشگی کا مفہوم نکل رہا ہے،” کلا “ ہرگز نہیں۔ یعنی اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی، مزید نواشز و مہربانی کا حق دار تو تب تھا جب وہ ہماری بات مانتا، وہ تو ہمیشہ سے ہماری آیات کا شدید مخالف رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّا۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ لِاٰيٰتِنَا عَنِيْدًا۝ ١٦ ۭ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا ۔ ” میں اسے عنقریب ایک سخت چڑھائی چڑھوائوں گا۔ “- اس سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی شدت ہر آن بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی نوعیت کے عذاب کا ذکر سورة جن میں بھی آچکا ہے : یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا ۔ ” تو وہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔ “- ولید بن مغیرہ بنیادی طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار شخص تھا ۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ‘ لیکن اپنے ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ کر وہ اپنی چودھراہٹ اور دنیوی ٹھاٹھ باٹھ کی قربانی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ واقعتا بہت مشکل میں تھا۔ اپنی اس مشکل کا حل اسے کسی درمیانی راہ میں نظر آتا تھا۔ چناچہ قریش میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سمجھوتے ( ) کے لیے دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے لیے اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمدردانہ انداز میں بھی سمجھایا ‘ پرکشش پیشکش کا حربہ بھی آزمایا اور برادری کے معاملات کا واسطہ بھی دیا کہ قریش اگر آپس میں تقسیم ہوجائیں گے تو ان کی بنی بنائی ساکھ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ غرض اس نے ہر طرح سے کوشش کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اپنی بات منوا لیں ‘ کچھ قریش کی مان لیں اور اس طرح فریقین کے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کردیا جائے۔ - آئندہ آیات میں ایک خاص واقعہ کے حوالے سے اس شخص کی ایک خاص کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ تفاسیر میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک محفل میں قریش کے بڑے بڑے سردار جمع تھے۔ زیربحث موضوع یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہمیں ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ جب ہم میں سے کوئی اسے شاعر سمجھتا ہے ‘ کوئی جادوگر کہتا ہے ‘ کوئی کاہن قرار دیتا ہے تو اس سے خود ہمارا موقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ہم خود کسی بات پر متفق نہیں۔ بحث مباحثے کے بعد انہوں نے ولید بن مغیرہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا کہ وہ جائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے۔ جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرکے واپس آیا تو انہوں نے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا۔ دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرنے کے بعد وہ پوری طرح قائل ہوچکا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور جو کلام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں وہ بلاشبہ اللہ ہی کا کلام ہے۔ لیکن یہ بات سردارانِ قریش کے سامنے تسلیم کرنا اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ چناچہ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس نتیجے پر پہنچا ہے ؟ کیا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محض ایک شاعر سمجھیں ؟ تو اس نے کہا : نہیں ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام شعر نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا تو کیا پھر ہم اسے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن کہہ سکتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ‘ کاہنوں کے قول و کردار کو میں خوب جانتا ہوں۔ وہ ذومعنی باتیں کرتے ہیں جبکہ یہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو دو ٹوک اور سیدھی بات کرتے ہیں۔ اس پر سردارانِ قریش نے کہا کہ لوجی یہ تو گیا اس پر بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو چل گیا اب اس نے اہل محفل کے جو تیور دیکھے تو فوراً پینترا بدل کر بولا کہ ہاں اس کے کلام کے بارے میں آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جادو ہے ‘ جو پچھلے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔- اب ظاہر ہے ولید بن مغیرہ جیسے معتبر اور ّمدبر شخص کا ایک بات پر پوری طرح سے قائل ہونے کے بعد زبان سے اس کی علی الاعلان نفی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چناچہ اس موقع پر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دباتے ہوئے ‘ زبان سے جھوٹ کہتے ہوئے اور اس دوران اپنی پریشانی اور خفت کو چھپاتے ہوئے جس کرب سے گزرا ہے ‘ ان آیات میں اس کی اس پوری کیفیت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام فصاحت و بلاغت کی معراج اور لفظی منظر کشی کی بہترین مثال ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani