Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی کسی سے یہ سیکھ آیا ہے اور وہاں سے نقل کر لایا ہے اور دعویٰ کردیا کہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَقَالَ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ۝ ٢٤ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani