اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ٢٥ ۭ- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔
آیت ٢٥ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ۔ ” یہ نہیں ہے مگر انسان کا کلام۔ “- یعنی اس کلام میں جادو کا سا اثر تو ہے ‘ لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ دعویٰ کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے میں نہیں مانتا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی کلام ہی ہے۔۔۔۔ اب اگلی آیات کو پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے حق کو پہچانتے ہوئے جھٹلا کر اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے دی۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :14 یہ اس واقعہ کا ذکر ہے جو کفار مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا ۔ اس کی جوتفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلام الہی ہونے کا قائل ہو چکا تھا ۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست برقرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا ۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود ان تمام الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبور کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کیا جا سکتا ہو ۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پوری تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے ۔