53۔ 1 یعنی ان کے فساد کی وجہ سے ان کا آخرت پر عدم ایمان اور اس کی تکذیب ہے جس نے انہیں بےخوف کردیا ہے۔
[٢٥] اگر ہم ایسے کھلے خط ان کے نام بھیج بھی دیں تو بھی یہ لوگ کبھی ایمان نہ لائیں گے اور اسے بھی جادو کا کرشمہ قرار دے دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ ان کا آخرت پر ایمان ہے اور نہ یہ اپنے مواخذہ سے ڈرتے ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ کر جواب تو وہی آدمی دیتا ہے جسے مواخذہ کا ڈر ہو۔ اور جو مواخذہ کا خطرہ ہی نہ سمجھتا ہو وہ جو چاہے بک دے۔ اس کا کیا بگڑتا ہے ؟
کلا بل لایخافون الاخرۃ :” کلا “ یعنی ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے ہر ایک کو کتاب دی جائے اور ان کے انکار کی وجہ بھی یہ نہیں، بلکہ ان کے نصیحت سے بھاگنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا آخرت پر ایمان نہیں اور تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔ جب تک یہ لوگ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے رہیں گے آپ ان کو ان کے تقاضوں کے مطابق کوئی معجزہ بھی دکھا دیں تو وہ اسے جادہ قرار دے کر ماننے سے انکار کردیں گے۔ دیکھیے سورة انعام (٧) ۔
كَلَّا ٠ ۭ بَلْ لَّا يَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ٥٣ ۭ - كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔
(٥٣۔ ٥٥) یہ ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ یہ لوگ آخرت کے عذاب سے ڈرتے نہیں یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے نصیحت ہے سو جس کے نصیب میں اس سے نصیحت حاصل کرنا ہوگا وہ اس سے نصیحت حاصل کرلے گا۔
آیت ٥٣ کَلَّاط بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ۔ ” ہرگز نہیں اصل بات یہ ہے کہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ “- جب ان کے دلوں میں آخرت کا خوف نہیں رہا تو اب وہ جیسی چاہیں باتیں بنائیں۔ فارسی کا مشہور محاورہ ہے : ” بےحیا باش و ہرچہ خواہی کن “ کہ ایک دفعہ حیا کا پردہ اٹھا دو پھر جو چاہو کرو۔ چناچہ آخرت سے بےخوف ہو کر وہ ہر طرح کی باتیں بنانے میں آزاد ہیں۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :39 یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے مطالبے پورے نہیں کیے جاتے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں ۔ انہوں نے سب کچھ اسی دنیا کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے معنی سمجھتے ہیں ، کیونکہ ان کو دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازما دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو ۔ اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور برا ہی نکلا کرتا ہو ۔ اس لیے یہ اس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابل غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا انجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً برا ہو گا ۔ ایسا شخص تو ان معقول دلائل اور ان پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے ۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاش حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نت نئے مطالبے پیش کرے گا ۔ حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے ، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈ نکالے گا ۔ یہی بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ اے نبی ، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ ( الانعام ، 7 ) ۔
21: یعنی یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہر شخص کو الگ کتاب دی جائے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہمیشہ کسی پیغمبر کے واسطے سے بھیجی جاتی ہے۔ کیونکہ اگر ہر شخص پر براہ راست کتاب بھیجی جائے تو اوّل تو ایمان بالغیب کا تصوّر ہی ختم ہوجائے تو سارے امتحان کی بنیاد ہے، دوسرے تنہا کتاب اِنسان کی ہدایت کے لئے کافی نہیں ہوسکتی، جب تک پیغمبر کی شکل میں کوئی معلّم ساتھ نہ ہو۔ وہی اِنسانوں کو کتاب کا صحیح مطلب سمجھاتا ہے، اور وہی اُس پر عمل کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے، ورنہ ہر شخص کتاب کی من مانی تشریحات کر کے اس کا سارا مفہوم ہی خراب کرسکتا ہے۔ 22: یعنی یہ بے سر و پا اِعتراضات کسی حق طلبی کی وجہ سے نہیں کئے جا رہے ہیں، بلکہ ان کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں، اور انہیں اﷲ تعالیٰ کا اور آخرت کا کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ اس لئے جو منہ میں آتا ہے کہہ گذرتے ہیں۔