Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3 1۔ 1 یعنی اس کے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا قدیم ہو یا جدید، اول ہو یا آخر چھوٹا ہو یا بڑا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] مرنے کے بعد اعمالنامہ میں درج ہونے والے اعمال :۔ اس دن ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس سے اسے از خود یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں کون کون سے اچھے یا برے اعمال کما کر اپنے ساتھ لایا ہے اور کون کون سے اچھے یا برے اعمال دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ جن کا اچھا یا برا بدلہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے اعمال نامہ میں درج ہوتا رہا۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جس شخص نے اسلام میں کوئی نیک بات جاری کی اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس بات پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ کم ہو (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الحث علی الصدقۃ۔۔ ) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا جیسے کوئی شخص کوئی چیز رفاہ عامہ کے لیے بنا جائے یا وقف کر جائے۔ دوسرے علم کا جیسے کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں۔ تیسرے ایسی نیک اولاد چھوڑ جائے تو اس کے حق میں دعا کرتی رہے (مسلم۔ کتاب الوصیۃ۔ باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہٖ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ینبوا الانسان یومئذ …:” جو آگے بھیجا “ سے مراد وہ اعمال ہیں جو اس نے موت سے پہلے کئے اور ” جو پیچھے چھوڑا “ سے مراد وہ اچھے یا برے اعمال ہیں جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا مات الانسان انفطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینفع بہ او ولد صالح یدعو لہ) (مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ : ١٦٣١، عن ابی ہریرہ (رض))” جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔ “ اور فرمایا :(من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اخر من عمل بھا ولا ینفص من اجورھم شیء ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا ولا ینفص من اوزاھم شیء ) (مسلم ، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ…: ١٠١٨، بعد الحدیث : ٢٦٨٣” جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے پھر اس کے بعد اس طریقے پر عمل کیا جائے، تو اس لئے ان لوگوں کی مثل اجر لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب سے بھی کچھ کم نہیں ہوگا اور جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری رکے، پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے، تو اس پر ان لوگوں کے گناہ کی مثل لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں سے بھی کچھ کم نہیں ہوگا۔ “- ” بما قدم واخر “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اسے وہ سب کچھ بتادیا جائے گا جو اس نے کیا اور جو کرنا تھا مگر نہیں کیا۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ جو کچھ اس نے پہلے وقت میں کیا اور جو بعد میں کیا سب تاریخ اور قوت کے ساتھ اسے بتایا جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ- یعنی اس روز انسان کو جتلا دیا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا کیا پیچھے چھوڑا۔- حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس نے فرمایا کہ جو نیک کام اپنی موت سے پہلے کرلیا وہ آگے بھیج دیا، اور جو نیک یا بد مفید یا مضر کوئی طریقہ کوئی رسم ایسی چھوڑی کہ اسکے بعد لوگ اس پر عمل کریں وہ پیچھے چھوڑا (اسکا ثواب یا عذاب اس کو ملتا رہے گا) اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ماقدم سے مراد وہ عمل صالح ہے جو اپنی زندگی میں کر گزرا اور مآخر سے مراد وہ عمل صالح ہے جس کو کرسکتا تھا مگر نہ کیا اور فرصت ضائع کردی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝ ١٣ ۭ- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - قدم - وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27]- ( ق د م ) القدم - عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔- أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٥) قیامت کے دن انسان کو سب اس کی اگلی پچھلی نیکیاں جتلا دے گا بلکہ عدی بن ربیع خود اپنی حالت پر خوب مطلع ہوگا اگرچہ اپنے بارے میں خوب بہانے یا معذرتیں پیش کرے یا یہ کہ اپنی حالت سے غافل اور دوسروں کی حالت سے واقف ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ یُـنَـبَّـؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍم بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ ۔ ” جتلا دیا جائے گا انسان کو اس دن جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہوگا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہوگا۔ “- تقدیم و تاخیر کے اس فلسفے کو یوں سمجھیں کہ ہمارے اچھے برے اعمال کے بدلے کا ایک حصہ تو ہماری زندگیوں میں ہی آخرت کے لیے ہمارے اعمال نامے میں جمع ( ) ہوتا رہتا ہے ‘ جبکہ ان اعمال کا ایک دوسراحصہ اچھے یا برے اثرات کی صورت میں اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ یہ ” اثرات “ اس دنیا میں جب تک موجود رہتے ہیں ‘ ان کے بدلے میں بھی ثواب یا گناہ متعلقہ شخص کے اعمال نامے میں متواتر شامل ہوتا رہتا ہے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ تمہاری یہ نیکیاں یا بدیاں تو وہ ہیں جو تم نے براہ راست خود اپنے لیے آگے بھیجی تھیں اور یہ ثواب یا وبال وہ ہے جو تمہارے اعمال کے پیچھے رہ جانے والے اثرات کی وجہ سے تمہارے حساب میں جمع ہوتا رہا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :9 اصل میں الفاظ ہیں بما قدم و اخر ۔ یہ بڑا جامع فقرہ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور غالباً وہ سب ہی مراد ہیں ۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ آدمی کو اس روز یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں مرنے سے پہلے کیا نیکی یا بدی کما کر اس نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجی تھی اور یہ حساب بھی اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ اپنے اچھے یا برے اعمال کے کیا اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا جو اس کے بعد مدتہائے دراز تک آنے والی نسلوں میں چلتے رہے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسے وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اسے کرنا چاہیے تھا مگر اس نے نہیں کیا اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا مگر اس نے کر ڈالا ۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا اس کا پورا حساب تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا ۔ چوتھے معنی یہ ہیں کہ جو نیکی یا بدی اس نے کی وہ بھی اسے بتا دی جائے گی اور جس نیکی یا بدی کے کرنے سے وہ باز رہا اس سے بھی اسے آگاہ کر دیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یعنی کونسے کام وہ دُنیا میں کر آیا ہے اور وہ اس کے اعمال نامے میں پہنچ چکے ہیں، اور کون سے کام وہ چھوڑ آیا ہے کہ اُسے کرنے چاہئے تھے، لیکن اُس نے نہیں کئے۔