Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بل الانسان لعسی نفسہ بصیرۃ …:’ بصیرۃ “ ” بصر “ (ک) سے صفت کا صیغہ ہے۔ ” تائ “ مزید مبالغے کے لئے ہے، جیسے ” غلامۃ “ میں ہے، یہ تائے تانیث نہیں ہے، خوب دیکھنے والا۔” معاذیر “ ” معذرۃ “ کی جمع ہے۔ یعنی اس دن انسان کو پہلے اور پچھلے اعمال بتائے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا رہا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنے متعلق خوب معلوم ہے کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے یا برا۔ پھر دوسروں کے سامنے اپنے کفر و شرک، خلاق کی نافرمانی اس کی مخلوق پر ظلم و ستم اور پانی خواہش پرستی کے جواز کے لئے مجبویر یا مصلحت کے لاکھ بہانے گھڑے، مگر خود اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور بہانہ بازی کر رہا ہے۔ اس کے نفس کی ملامت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کرتوتں سے آگاہ ہے۔ نامہ اعمال پیش کئے جانے کا مطلب تو اس پر حجت تمام کرنا ہے اور یہ حجت صرف نامہ اعمال کے ذریعے سے نہیں بلکہ اس کے ہر ہر عضو کو بلوا کر اور زمین کے ہر اس حصے کو بلوا کر جس پر اس نے نافرمانی کی تھی، پوری کی جائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ 14؀ۙوَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ- بصیر اور بصیرة کے معنے دیکھنے والے کے بھی آتے ہیں اور بصیرة کے معنے حجت کے بھی آتے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے قد جائکم بصائر من ربکم اسمیں بصائر بصیرة کی جمع ہے اور معنی اسکے حجت کے ہیں اور معاذیر معذار بمعنے عذر کی جمع ہے۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ اگرچہ عدالت کے ضابطہ کی رو سے انسان کے سارے اعمال محشر میں اس کو ایک ایک کرکے بتلائے جاویں گے مگر درحقیقت اس کو اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ اپنے اعمال کو خوب جانتا ہے خود اس کو معلوم ہے کہ اس نے کیا کیا کام کئے، نیز یہ کہ محشر میں تمام اپنے اعمال نیک وبد کا مشادہ بھی اس کے سامنے ہوجائے گا جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا - (آیت) ووجدو ماعملوا حاضرا - یعنی جو عمل انہوں نے دنیا میں کیا تھا اس کو محشر میں حاضر و موجود پائیں گے اور آنکھوں سے دیکھ لیں گے یہاں جس انسان کو اپنے نفس پر بصیرہ فرمایا اس کا یہی حاصل ہے۔- اور اگر بصیرہ کے معنے حجت کے لئے جاویں تو معنے یہ ہیں کہ انسان خود اپنے نفس پر حجت و دلیل ہوگا وہ انکار بھی کرے گا تو اس کے اعضا اقرار کریں گے مگر انسان اپنے جرائم وتقصیرات کو جاننے کے باوجود عذر تراشی نہ چھوڑے گا اپنے کئے کا عذر بیان کرتا ہی رہے گا یہ معنے ہیں ۙوَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ کے۔- یہاں تک قیامت کے احوال اور اہوال کا تذکرہ تھا اور آگے بھی یہی آنے والا ہے۔ درمیان میں چار آیتوں کے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خاص ہدایت دی گئی ہے جو نزول وحی کے وقت نازل شدہ آیات کے متعلق ہے وہ یہ کہ جب جبرئیل امین قرآن کریم کی کچھ آیات لے کر نازل ہوتے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کو پڑھنے کے وقت ایک تو یہ فکر ہوتی تھی کہ کہیں اس کے سننے اور پھر اسکے مطابق پڑھنے میں کوئی فرق نہ آجائے۔ دوسری فکر یہ ہوتی تھی کہ کہیں اس کا کوئی حصہ کوئی کلمہ ذہن سے نکل جائے اور بھول جائیں اس لئے آپ کو جس وقت جبرئیل امین کوئی آیت سناتے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ ساتھ پڑھتے اور زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے لگتے تھے کہ بار بار پڑھ کر اس کو یاد کرلیں، آپ کی اس محنت ومشقت کو دور کرنے کے لئے ان چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے صحیح صحیح پڑھوانے پھر یاد کرادینے اور پھر اس کو مسلمانوں کے سامنے اسی طرح پیش کرادینے کی ذمہ داری خود لے لی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمادیا کہ آپ اس غرض کے لئے زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی زحمت نہ اٹھائیں۔ - لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ- کا یہی مطلب ہے پھر فرمایا اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه، یعنی ان تمام آیات کو آپ کے کو آپ کے قلب میں جمع کردینا پھر اس کو اسی طرح آپ سے پڑھودینا یہ سب ہمارے ذمہ ہے اسلئے آپ اس کی فکر چھوڑ دیں اور فرمایا فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ قرآن اس جگہ بمعنے قرآت ہے معنے یہ ہیں کہ جب ہم یعنی ہماری طرف سے جبرئیل امین قرآن پڑھیں تو آپ ساتھ ساتھ نہ پڑھا کریں بلکہ ہمارے پڑھنے کے بعد پڑھا کریں اور اس وقت خاموش ہو کر سنا کریں۔ یہاں باتفاق ائمہ اتباع قرآن سے مراد یہ ہے کہ جب جبرائیل امین پڑھیں تو آپ خاموش رہ کر سنیں۔- امام کے پیچھے مقتدی کے قرات نہ کرنے کی ایک دلیل - حدیث صحیح میں جو یہ آیا ہے کہ امام کو اقتداء اور اتباع ہی کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے مقتدیوں کو اس کا اتباع کرنا چاہئے جب وہ رکوع کرے تو سب مقتدی رکوع کرلیں جب وہ سجدہ میں جائے تو سب سجدہ میں جائیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں اسی کیساتھ یہ بھی ارشاد ہے کہ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہ کر سنو اذا قرا فانصتوا، یہ بھی اس کا بیان ہے کہ مقصود امام کا اتباع ہے رکوع سجدے میں تو اتباع امام کی صورت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ افعال رکوع سجدے کے ادا کئے جاویں مگر قرات کا اتباع یہ نہیں کہ ساتھ ساتھ پڑھا جائے بلکہ قرات کا اتباع یہی ہے کہ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہ کر سنو۔ یہی استدلال ہے امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کا اس معاملے میں کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قرات نہیں کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِہٖ بَصِيْرَۃٌ۝ ١٤ ۙ- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- ( بصر) مبصرۃ - بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] أي : جعلناها عبرة لهم، وقوله عزّ وجل : وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38] أي : طالبین للبصیرة . ويصحّ أن يستعار الاسْتِبْصَار للإِبْصَار، نحو استعارة الاستجابة للإجابة، وقوله عزّوجلّ : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً [ ق 7- 8] أي : تبصیرا وتبیانا .- الباصرۃ - کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا آیت کریمہ ؛۔ وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ [ الصافات 179] حالانکہ وہ دیکھنے والے تھے میں مستبصرین کے معنی طالب بصیرت کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتہ ہے کہ بطور استعارہ استبصار ( استفعال ) بمعنی ابصار ( افعال ) ہو جیسا کہ استجابہ بمعنی اجابۃ کے آجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَكانُوا مُسْتَبْصِرِينَ [ العنکبوت 38]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

انسان اپنے بارے میں خوب جانتا ہے - قول باری ہے (بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ۔ بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ انسان اپنے اوپر خود گواہ ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں کہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔ قیامت کے دن اس کے اعضا اس پر گواہی دیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۔ ” بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔ “- قیامت کے دن تو کسی کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہر انسان کو خود ہی معلوم ہوگا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ دنیا سے وہ کیا کچھ لے کر آیا ہے اور یہ کہ وہ کیسے سلوک کا مستحق ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani