Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی لڑے جھگڑے، ایک سے ایک بہانہ کرے، لیکن ایسا کرنا نہ اس کے لئے مفید ہے اور نہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی یہ تحریری اعمال نامہ تو انسان کے سامنے صرف اس لیے رکھا جائے گا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنے اچھے یا برے کیے ہوئے اعمال کا پورا پتا ہوتا ہے۔ اور وہ جو حیلے بہانے تراشتا ہے تو محض اس لیے کہ انسان اپنا قصور ماننے کو قطعاً تیار نہیں ہوتا۔ یہ بیسیوں باتیں بنا سکتا ہے۔ حیلے بہانے بنا سکتا ہے۔ مگر اپنا قصور ماننے سے اس کی انا مجروح ہوتی ہے اور وہ اسے موت کے مترادف سمجھتا ہے۔ دنیا میں بھی اس کا یہی حال ہے اور آخرت میں بھی بعض عادی مجرم ایسی باتیں بنانے کی کوشش کریں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لاتحرک بہ لسانک…: ابن عباس (رض) عنہمانے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید اترتے وقت بہت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتے جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرآنہ)” تو اس کیساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے کہ اسے جلدی حاصل کرے۔ بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا) اس کو پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔” ابن عباس (رض) عنہمانے فرمایا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کا اسے پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔” فاذا قرانہ فاتبع قرآن ہ “ تو جب ہم اسے پڑھیں تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔” ثم ان علینا بیانہ “ پھر یہ ہمارے ذمے ہے کہ آپ اسے پڑھیں گے۔ اس کے بعد جب جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس آتے تو آپ کان لگا کر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح پڑھ لیتے جیسے جبریل (علیہ السلام) نے پڑھا تھا۔ (بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بداء الوحی : ٥)” جمعہ وقرآنہ “ سے اولین مراد یہی ہے جو ابن عباس (رض) عنہمانے بیان فرمائی، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے قرآن جمع کرنے اور اسے پڑھنے کی تمام صورتیں اس میں شامل ہیں اور اس کے جمع و نشر کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ چناچہ خلفاء کا قرآن مجید کو جمع کرنا، لکھوانا اور حفاظ کا حفظ کرنا، ریڈیو، ٹیلی ویژن، پریس اور کمپیوٹر کے ذریعے سے قرآن کا جمع اور نشر ہونا بھی اس میں شامل ہے۔- (٢) ثم ان علینا بیانہ “ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی وضاحت ک ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے اور یہ وضاحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے فرمائی ہے، جو حدیث و سنت کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا تو اس کی تشریح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور فرمان کیساتھ کردی کہ نمازوں کے اوقات کیا ہیں اور نمازیں کتنی ہیں۔ ان کی رکعات، قیام، رکوع، سجود وغیرہ کی ترتیب اور ان میں پڑھے جانے والے اذکار، غرض یہ سب کچھ قرآن کا بیان ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون) (النحل : ٣٣) ” اور (اے رسول ) ہم نے تیری طرف یہ ذکر نازل کیا ہے، تاکہ تو لوگوں کے لئے اس (ذکر) کی وضاحت اور تشریح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ “ معلوم ہوا کہ حدیث قرآن ہی کا بیان ہے، اس لئے اس پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن پر عمل کرنا واجب ہے۔- (٣) ” فاذا قرانہ “ (جب ہم اسے پڑھیں) سے مراد یہ ہے کہ جب جبریل (علیہ السلام) پڑھ رہے ہوں، کیونکہ ان کا پڑھنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اسلئے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف فرمائی۔- (٤) سورت کے شروع میں منکرین حشر اور منکرین قیامت کا ذکر ہے، سورت کے آخر میں بھی یہی ذکر ہے، درمیان میں یہ آیات ہیں جن کا بظاہر ماقبل اور مابعد سے کوئی ربط نہیں۔ اس لئے بعض شیعہ مفسرین نے یہاں تک لکھ دیا کہ اس سورت میں کچھ آیات رہ گئی ہیں مگر یہ بات غلط ہے، کیونکہ اس کا رد خود ان آیات میں موجود ہے کہ قرآن کا جمع کرنا اللہ کے ذمے ہے، پھر اس میں سے آیات کس طرح رہ سکتی ہے ؟ اور یہ با بھی صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی یہ ترتیب خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان (رض) عنہمانے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک قوت میں کئی سورتیں نازل ہو رہی ہوتی تھیں، جب کوئی چیز نازل ہوتی تو آپ کسی وحی لکھنے والے کو بلاک ر فرماتے کہ یہ آیات اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں بات کا ذکر ہے اور جب آپ پر کوئی ایٓ اترتی تو فرماتے اسے اس سورت میں لکھ دو جس میں فلاں فلاں بات کا ذکر ہے۔ (ترمذی، التفسیر، باب سورة التوبۃ : ٣٠٨٦) ابو داؤد، نسائی ، مسند احمد، مستدرک حاکم اور صحیح ابن حبان میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین نے ان آیات کا ربط ماقبل اور مابعد کے ساتھ بنانے کی کوشش کی ہے مگر ابن عباس (رض) کی تفسیر کے بعد جو بہترین سندوں کے ساتھ امام بخاری (رح) نے قنل فرمائی ہے۔ خود ساختہ ربط کی تکلیف اٹھاتا سراسر تکلف ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے وقت اور سورة طہ کی آیت (١١٤) : ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ) (نازل ہونے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ پڑھنے کا موقع پیش آیا اور اس وقت ممانتع کا یہ حکم نازل ہوا اور اس مقام پر قرآن میں لکھ دیا یا۔ اس کی مثال ایسے ہی سمجھیں جیسے کوئی استاذ شاگرد کو کوئی چیز پڑھا رہا ہو اور درمیان میں اس کی کسی حرکت کی اصلاح کے لئے کہے ” ایسا مت کرو “ اور پہلا سلسلہ کلام جاری کر دے تو ٹیپ ریکارڈر میں یہ بات بھی ریکارڈ ہوجائے گا اور لفظ بلفظ تحریر میں بھی اسی طرح نقل ہوگی۔ درمیان میں آنے والی اس بات کا معنوی ربط وتعلق ماقبل ومابعد سے جوڑنا تکلف ہوگا، مگر اس بات کو بےمحل نہیں کہہ سکتے، یقیناً اس موقع پر یہی بات ضروری تھی اور یہ بھی ربط کی ایک صورت ہے کہ موقع و محل کے تقاضے سے یہ الفاظ درمیان میں آگئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَہٗ۝ ١٥ ۭ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عذر - العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه .- ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب :- إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ- العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر :- 313-- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ- «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل :- المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها .- ( ع ذ ر ) العذر - ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ولو القی معاذیرہ۔ چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ خواہ وہ اعتذار کیوں نہ کرے۔ ایک قول کے مطابق اپنی ذات پر اس کی اپنی گواہی جو اس کے اعضاء وجوارح دیں اس کے اعتذاد سے اولیٰ ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے الفاظ میں جب ان تمام معانی کا احتمال موجود ہے تو آیت کو ان پر محمول کرنا واجب ہے، کیونکہ ان معانی کے مابین کوئی منافات نہیں ہے۔ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس ذات کے بارے میں اس کا قول قابل قبول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو اس کی ذات پر حجت اور شاہد کی حیثیت دی ہے۔- انسان کا اپنی ذات کے بارے میں آگاہ ہونے کو اسے اپنی ذات پر گواہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بات اپنی ذات پر اس کی گواہی اور اس کے ثبوت کے معاملے کی تاکید پر دلالت کرتی ہے۔ یہ بات اس کے تمام عقود اورک اس کے اقرار اور اس کی ذات پر لازم ہونے والے امور سے تعلق رکھنے والے اس کے اعترافات کے جواز کو واجب کرتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ ۔ ” اور چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ “- ظاہر ہے دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چرب زبان شخص خود ساختہ عذر پیش کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے وہ وقتی طور پر متعلقہ لوگوں کو مطمئن کرلے لیکن اس کا ضمیر اس کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے کہ تم جھوٹے ہو۔ - اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوگیا ہے اور ساتھ ہی کلام کا صوتی آہنگ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ان آیات کے آخر میں قُــرْاٰنَــہٗ ‘ بَیَانَہٗ جیسے الفاظ آرہے ہیں۔ جیسے کہ آغاز میں ذکر ہوا تھا ‘ یہ سورت اپنے اسلوب اور صوتی آہنگ کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر حصے کی خوبصورتی اور انفرادیت آیات کے آخر میں آنے والے ہم آواز الفاظ کی وجہ سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے ۔ مثلاً ابتدائی آیات کا اختتام قِیَامَہ ‘ لَوَّامہ ‘ عِظَامَہ ‘ بَنَانَہ ‘ اَمَامَہ جیسے الفاظ پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد چند آیات کے آخر میں الْـبَصَر ‘ القَمَر ‘ المَفَر ‘ وَزَر ‘ الْمُسْتَقر جیسے الفاظ آئے۔ جبکہ گزشتہ دو آیات کے اختتامی الفاظ (بصیرۃ ، معاذیرہ) آپس میں ہم آواز ہیں۔ صوتی آہنگ اور اسلوب کی یہ تبدیلی سورت کی آئندہ آیات میں بھی مسلسل نظر آئے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :10 یعنی آدمی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھنے کی غرض در حقیقت یہ نہیں ہو گی کہ مجرم کو اس کا جرم بتایا جائے ، بلکہ ایسا کرنا تو اس وجہ سے ضروری ہو گا کہ انصاف کے تقاضے بر سر عدالت جرم ثبوت پیش کیے بغیر پورے نہیں ہوتے ۔ ورنہ ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے ۔ اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے ۔ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے ، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک چور لاکھ حیلے اپنی چوری چھپانے کے لیے اختیار کر سکتا ہے ، مگر اس کے اپنے نفس سے تو یہ بات مخفی نہیں ہوتی کہ وہ چور ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کر کے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے وہ درحقیقت اس کی ایماندارانہ رائے ہے ، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے اور ان کی غلطی سمجھنے اور تسلیم کرنے سے دراصل کیا چیز اسے روک رہی ہے ۔ ایک ظالم ، ایک بد دیانت ، ایک بد کردار ، ایک حرام خور اپنی بد اعمالیوں کے لیے طرح طرح کی معذرتیں پیش کر کے خود اپنے ضمیر تک کا منہ بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ وہ اسے ملامت کرنے سے باز آجائے اور یہ مان لے کہ واقعی کچھ مجبوریاں ، کچھ مصلحتیں ، کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود اس کو یہ علم تو بہرحال ہوتا ہی ہے کہ اس نے کس پر کیا ظلم کیا ہے ، کس کا حق مارا ہے ، کس کی عصمت خراب کی ہے ، کس کو دھوکا دیا ہے اور کن ناجائز طریقوں سے کیا کچھ حاصل کیا ہے ۔ اس لیے آخرت کی عدالت میں پیش ہوتے وقت ہر کافر ، ہر منافق ، ہر فاسق و فاجر اور مجرم خود جانتا ہو گا کہ وہ کیا کر کے آیا ہے اور کس حیثیت میں آج اپنے خدا کے سامنے کھڑا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: مطلب یہ ہے کہ اِنسان خود بھی جانتا ہے کہ اُس نے کیا گناہ کئے ہیں، اگرچہ وہ ان کا جواز تلاش کرنے کے لئے بہانوں اور تأویلوں کا سہارا لے۔