حفظ قرآن ، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ، پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ١١٤ ) 20-طه:114 ) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جم کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ، مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ حضرت ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے ، ابن ابی حاتم میں بھی بہ روایت ابن عباس یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں ، حضرت ابن عباس اور عطیہ عوفی فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا حضرت قتادہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ ان کافروں کو قیامت کے انکار ، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے ، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے ، اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش ترو تازہ خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے ، جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے ، بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت جریر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چودہویں رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز ( یعنی صبح کی نماز ) اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز ( یعنی عصر کی نماز ) میں کسی طرح کی سستی نہ کرو ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہر چیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں ۔ یہ جنت عدن کا ذکر ہے ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں؟ وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے ، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا اسی کو اس آیت میں لفظ ( زیادہ ) سے تعبیر کیا گیا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26 ) 10- یونس:26 ) یعنی احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی ، صحیح مسلم کی حضرت جابر والی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا ، پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے ، ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے ، یہ حدیث بروایت حضرت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے ، ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آبھی گئی ہیں ، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں ، جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھنا پاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ 15ۭ ) 83- المطففين:15 ) یعنی فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے ، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ابرار یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایمان دار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے ، حضرت حسن فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے بدشکل ہو رہے ہوں گے بےرونق اور اداس ہوں گے ، انہیں یقین ہو گا کہ ہم کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی ، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ١٠٦ ) 3-آل عمران:106 ) یعنی اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے اور جگہ سے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ Ąۙ ) 88- الغاشية:2 ) ، یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے بد رونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے پھر فرمایا آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ Ďۙ ) 88- الغاشية:8 ) ، یعنی بعض چہرے ان دن نعتموں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے ، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے ، اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔
16۔ 1 حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ صحیح بخاری
لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ١٦ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- حرك - قال تعالی: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ [ القیامة 16] ، الحرکة : ضدّ السکون، ولا تکون إلا للجسم، وهو انتقال الجسم من مکان إلى مکان، وربّما قيل : تَحَرَّكَ كذا : إذا استحال، وإذا زاد في أجزائه وإذا نقص من أجزائه .- ( ح ر ک ) الحرکۃ یہ سکون کی ضد ہے اور جسم کے ساتھ مخصوص ہے یعنی جسم کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کو حرکت کہا جاتا ہے اور کبھی کسی چیز میں تغیر ہونے یا اس کے اجزاء میں کمی بیشی واقع ہونے پر بھی تحرک کذا کہہ لیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ [ القیامة 16] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو ۔- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
(١٦۔ ١٨) اے محمد قرآن پڑھنے کے لیے آپ اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے اس سے پہلے کہ جبریل امین اپنی قرات سے فارغ ہوجائیں کیونکہ نبی اکرم جس وقت جبریل امین قرآن کریم کا کوئی حصہ لے کر آتے تھے تو جبریل امین کے ختم کرنے سے پہلے بھول جانے کے خوف سے آپ پڑھنا شروع کردیتے، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی ممانعت فرمائی اور فرمایا کہ آپ کے قلب میں اس کا جمع کردینا ہمارے ذمہ ہے اور جبریل امین کی قرات کا آپ کی زبان سے پڑھوا دینا یا یہ کہ حلال و حرام کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے، سو جس وقت جبریل امین اس کو پڑھنے لگا کریں تو آپ ان کے بعد اس کو پڑھ لیا کیجیے یا یہ کہ جس وقت وہ حلال و حرام کی تعلیم کریں تو آپ ان کی پیروی کریں۔- شان نزول : لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ (الخ)- امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم پر جس وقت وحی نازل ہوا کرتی تھی تو آپ اس کے یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت دیا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
آیت ١٦ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ۔ ” آپ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔ “- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ جونہی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نئے کلام کو فوری طور پر یاد کرنے کی کوشش کرتے۔ اس پس منظر میں یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس ضمن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فکر مند نہ ہوں :
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :11 یہاں سے لے کر پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیج میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کر آئے ہیں ، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی ، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلام الہی آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں ، اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرتے لگتے تھے ۔ ایسی ہی صورت اس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے ۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں ، اسے یاد کرا دینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ، آپ مطمئن رہیں کہ کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے ۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ہرگز نہیں ، اصل بات یہ ہے سے شروع ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ اس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر ان فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں ۔ لیکن اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی ربطی محسوس نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالبعلم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالبعلم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے ۔ یہ درس اگر جوں کا توں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس اصل واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں ۔ لیکن جو شخص اس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جوں کا توں نقل کیا گیا ہے ، اسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔ اوپر ان آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ معتبر روایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، طبرانی ، بہیقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اس خوف سے کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دہرانے لگتے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات شعبی ، ابن زید ، ضخاک ، حسن بصری ، قتادہ ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے ۔
6: یہ ایک جملۂ معترضہ ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآنِ کریم نازل ہوتا تو آپ اُس کے الفاظ ساتھ ساتھ دُہراتے جاتے تھے، تاکہ آپ اُنہیں بھول نہ جائیں۔ ان آیات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ زبان مبارک سے الفاظ کو دُہرانے کی مشقت نہ اُٹھائیں، کیونکہ ہم نے ذمہ داری لے لی ہے کہ ہم اُنہیں آپ کو یاد بھی کرائیں گے، اور ان کی تشریح بھی آپ کے قلب مبارک میں واضح کردیں گے۔