33۔ 1 یَتَمَطَّیٰ اتراتا اور اکڑاتا ہوا۔
ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓى اَہْلِہٖ يَتَمَطّٰى ٣٣ ۭ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - مطی - قال تعالی: ثُمَّ ذَهَبَ إِلى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى[ القیامة 33] أي : يمدّ مَطَاهُ ، أي : ظهرَه، والمَطِيَّة : ما يركب مطاه من البعیر، وقد امتطیته رکبت مطاه، والمِطْوُ : الصاحبُ المعتمد عليه، وتسمیته بذلک کتسمیته بالظّهر .- ( م ط ی ) التمطی ( تفعل ) اس کے اصل معنی الطا ( پیٹھ ) کو بڑھانے اور لمبا کرنے کے ہیں ( جیسا کہ انگڑائی لیتے وقت انسان کرتا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر اکڑ کر چلنے کے معنی میں آتا ہے ) قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ ذَهَبَ إِلى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى[ القیامة 33] پھر اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا ۔ المطیۃ وہ اونٹ جس کی المطا یعنی پیٹھ پر سواری کی جاتی ہے اور امتطیتہ ( افتعال ) کے معنی ہیں میں اس کی پیٹھ پر سواری ہوا اسی سے مجازا اس رفیق کو جس پر انسان کو پورا بھروسہ ہو مطی کہا جاتا ہے جیسے ظھر
آیت ٣٣ ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی ۔ ” پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا۔ “- ان آیات میں ایک شخص کی حق دشمنی ‘ ڈھٹائی اور اکڑفوں کی لفظی تصویر دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویر سردارانِ قریش میں سے کسی خاص شخص کی بھی ہوسکتی ہے اور مجموعی طور پر ان کے عمومی کردار کی بھی۔ سردارانِ قریش کے اس رویے کی جھلک سورة صٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ ۔ ” اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ “
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :21 مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سنا جو اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے ، مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا ۔ مجاہد ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ یہ شخص ابو جہل تھا ۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرز عمل اختیار کیا ۔ اس آیت کے یہ الفاظ کہ اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں ۔ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اولین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے ، شریعت الہی کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں آتی ہے ، لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدت نہیں گزرتی کہ نماز کا وقت آجاتا ہے اور اسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان سے جس چیز کو ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے یا محض ایک ہوا ہے جو اس نے چند الفاظ کی شکل میں منہ سے نکال دی ہے ۔